پاک بھارت سرحد پر واقع ضلع نارووال میں دس ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے 73 جنگلوں میں درخت تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس علاقے میں مشہور بدوال مور والے جنگل کا سرسبز رقبہ 63 ایکڑ سے کم ہو کر تقریباً 40 ایکڑ تک رہ گیا ہے جبکہ چترانہ والا جنگل تقریباً ختم ہو چکا ہے جہاں اب کوئی درخت دکھائی نہیں دیتا۔
نارووال کی تحصیل شکر گڑھ سے پندرہ کلومیٹر دور چک بارایاں کے پرواز اختر اب شہر میں رہتے ہیں۔ ان کا بچپن اور لڑکپن گاؤں میں گزرا ہے جہاں وہ آم کے سرسبز پیڑوں میں گھرے مکان میں رہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں دہائیوں سے کھڑے درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔
''اپنے آبائی گھر کے قریب آم کے درخت کاٹے جانے کی اطلاع پر ہم نے گاؤں میں جا کر کٹائی کرنے والوں سے بازپرس کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس درخت کاٹنے کا سرکاری اجازت نامہ ہے۔ جب ان سے اجازت نامہ دکھانے کو کہا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور دو دن میں گیارہ درخت کاٹ کر بیچ دیے گئے۔''
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع نارووال میں محکمہ جنگلات کے پاس 13 ہزار 712 ایکڑ اراضی ہے جس میں دس ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر جنگلات ہیں۔ ان میں ان میں آٹھ ہزار 440 ایکڑ رقبہ شکرگڑھ کی حدود میں آتا ہے۔
ان جنگلات میں کیکر، آم، شیشم اور سفیدے کے درخت لگے ہیں۔ ان جنگلوں میں خارپشت، سانبھر، ہاگ ہرن اور پاڑے سمیت متعدد جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جنگلات تیتر، بٹیر، طوطے، مور اور دیگر پرندوں کا مسکن بھی ہیں جہاں راوی کنارے مرغابیوں سمیت کئی ہجرتی پرندے بھی بسیرا کرتے ہیں۔
عباس راجپوت شکرگڑھ میں فارسٹ گارڈ کے طور پر تعینات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے اپنی زمین پر بھی درخت کاٹنا ہوں تو اس کے لیے متعلقہ علاقے میں رینجرز سے اجازت نامہ لینا لازمی ہے۔
"لیکن پچھلے دو ماہ سے محکمہ جنگلات نے ایک ٹرانزٹ پرمٹ (اجازت نامہ راہداری) لینے کا حکم جاری کیا ہے۔ کیونکہ لوگ دو سے تین درختوں کا پرمٹ لے کر زیادہ درخت کاٹ لیتے تھے۔ ٹرانزٹ پرمٹ جاری کرنے کا یہ اختیار محکمہ جنگلات کے پاس ہے۔ پرمٹ جاری ہونے سے پہلے مقامی نمبردار اس زمیندار کی تصدیق کرتا ہے۔ چونکہ شیشم کو تناور درخت بننے میں طویل مدت درکار ہوتی ہے اس لیے اسے کاٹنے کی اجازت نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ اس پرمٹ کے ذریعے کوئی بھی درخت کاٹا جا سکتا ہے۔''
ضلع نارووال میں محکمہ جنگلات کے پاس دس ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر جنگلات ہیں۔
اکتوبر 2022ء میں شکرگڑھ تھانے میں عبدالمنعم نامی فاریسٹ گارڈ نے ایف آئی آر درج کرائی جس کے مطابق کچھ لوگ محکمہ جنگلات کی دو لاکھ 50 ہزار روپے مالیت کی شیشم کی لکڑی چوری کر کے فرار ہو گئے۔
عبدالمنعم نے بتایا کہ "اس کیس میں ملزموں کی ضمانتیں ہو چکی ہیں اور یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات عام ہیں۔''
فاریسٹ رینج افسر غلام محی الدین کے مطابق شکرگڑھ کے جنگلات کا صرف 30 فیصد حصہ محکمہ جنگلات کے پاس ہے باقی سارے رقبے پر فوج کا کنٹرول ہے۔
"سرحدی علاقے محکمہ وائلڈ لائف، جنگلات، فشریز، فوج اور رینجرز کے ماتحت ہیں جہاں ان کی مرضی کے بغیر کوئی درخت نہیں کاٹ سکتا۔ ہمارے پاس اہلکار کم ہیں رینج میں 32 ملازمین ہونے چاہیئں مگر ہمیں گیارہ ملازمین سے گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اگر کہیں بھی درخت کاٹے جاتے ہیں یا لکڑی چوری ہوتی ہے تو ہم کارروائی کرتے ہیں اور ملزموں کو جرمانہ بھی کرتے ہیں"
لیکن انہوں نے ان مقدموں کی تفصیل نہیں بتائیں۔
نارووال میں پاک بھارت سرحد پر پانچ میل کے علاقے کو 1995 میں پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت گیم ریزرو قرار دیا گیا تھا اور یہاں درخت کاٹنے یا غیرقانونی شکار کرنے والوں کے لیے ایک لاکھ سے دس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا مقرر کی گئی اور راوی کنارے جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے ایک کمپلیکس بھی بنایا گیا۔ تاہم باقی علاقوں میں قانون پر پوری طرح عملدرآمد نہ کرائے جانے کے باعث زمین درختوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔
نارووال کے ڈسٹرکٹ وائلڈ لائف افسر ارشد ناز کا کہنا ہے کہ اب صرف بہنال، بڑا بھائی اور بیجا پور میں ہی جنگلی حیات کے لیے محفوظ علاقہ (پروٹیکٹڈ ایریا) باقی ہے۔ قانون پر عمل کرانے کے لیے پورے ضلعے میں محکہ وائلڈ لائف کے پاس صرف آٹھ لوگ ہیں جبکہ ہر تحصیل میں دس سے 15 اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
لیہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی: 'جہاں کبھی گھنے درخت تھے وہاں اب دھول اُڑتی ہے'۔
"اس علاقے میں زمینیں آباد ہو رہی ہیں، ماحول تبدیل ہو رہا ہے، جنگل میں تو پرانے درخت ہی ہوتے ہیں اور وہی کاٹے جا رہے ہیں۔ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ والے ان کی جگہ سفیدے کے درخت لگا رہے ہیں لیکن سفیدے میں وائلڈ لائف نہیں رہ سکتی۔"
ماہر ماحولیات محمد رفیق بتاتے ہیں کہ درختوں کے پتے فضا کی دھول جمع کرتے ہیں اور انسانوں کو سانس کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔
''جنگلات کی کٹائی کے باعث درختوں پر انحصار کرنے والے جانوروں اور پرندوں سے ان کے ٹھکانے چھن جاتے ہیں۔ نارووال اور گردونواح کے جنگلاتی رقبے میں کمی آنے سے یہاں بسنے والے جانور اور پرندے بھی ختم ہو رہے ہیں یا ہجرت کر رہے ہیں۔''
محمد رفیق کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں مزید رقبے پر جنگلات درکار ہیں لیکن یہ المیہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود اپنے جنگلوں کو بھی ختم کیے دیتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 27 مارچ 2023