پچپن سالہ چانڈو بھیل تھر میں واقع نیو سیہری درس نامی بستی میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب سرکاری حکام نے انہیں اپنی آبائی زمین چھوڑ کر چند میل دور ایک 'ماڈل گاؤں' میں بسنے کو کہا تو ابتدا میں ان کا دل نہ مانا۔ مگر پھر انہوں ںے سوچا کہ ایک طرح سے یہ ملک کی خدمت ہی ہو گی۔ چنانچہ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر اس گاؤں میں چلے آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ مشکل فیصلہ ملک کی ترقی کے جذبے میں کیا تھا۔
یہ 'ماڈل گاؤں' ایسے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے جنہیں تھرپارکر میں کوئلے کی کانوں کے منصوبوں کی وجہ سے اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا پڑا۔ ان منصوبوں کے لیے متعدد دیہات کو خالی کرایا جا چکا ہے۔
چانڈو بھیل اپنے خاندان اور ملک کے مستقبل کی بابت بہت سی امیدیں اور خواب لے کر سیہری درس گاؤں میں آئے تھے، مگر اب انہیں اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے۔
وہ کہتے ہیں ''ہمارے پاس وافر زرعی زمین، فصلیں اور ڈھور ڈنگر تھے۔ مگر یہاں منتقل ہونے سے پہلے ہم نے یہ سب کچھ بیچ دیا۔ یہاں آنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ اس جگہ زندگی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔''
تھرپارکر میں کوئلے کی کانوں کے بلاک 2 میں کان کنی اور اس کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کا کام 2009 میں 'سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی' (ایس ای سی ایم سی) کو سونپا گیا تھا۔ یہ سندھ حکومت اور ایک نجی کمپنی اینگرو کارپوریشن کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت سیہری درس میں 172 گھروں پر مشتمل بستی بسائی گئی جس میں شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ اس بستی میں ایک سکول، مسجد، مندر اور مارکیٹ بھی قائم کیے گئے۔ یہاں ایسے لوگوں کو بسایا جانا تھا جنہیں تھرکول بلاک 2 میں کان کنی شروع ہونے کے نتیجے میں اپنے آبائی گھر اور زمینیں چھوڑنا پڑی تھیں۔ اس پیش رفت کو 'ماڈل سیٹ اپ' قرار دیتے ہوئے یہ توقع رکھی گئی تھی کہ اگر اس سے ان دیہاتیوں کی زندگیوں میں بہت اچھی تبدیلی نہ بھی آئی تو تب بھی ان کے حالات کم از کم پہلے سے کچھ بہتر ضرور ہو جائیں گے۔
مگر چانڈو بھیل اور سیہری درس گاؤں میں منتقل ہونے والے دوسرے لوگوں کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت وعدے کے مطابق اس گاؤں کے قریب مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر علیحدہ زمین کا انتظام نہیں کر سکی۔ تاہم ایس ای سی ایم سی کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک میں نوآباد کاری کا اب تک بہترین منصوبہ ہے۔
صحرائی معیشت
تھرپارکر دنیا میں ساتواں بڑا مگر واحد ذرخیز صحرا ہے لیکن اب یہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ گزشتہ چند برس میں یہاں بہت سے مقامات پر کنکریٹ کے جنگل اُگ آئے ہیں جو کوئلے کے ذخائر سے مالا مال اس صحرا میں تیزی سے پھیلتے جا رہے ہیں۔
تھر کول پراجیکٹ کا مقصد توانائی پیدا کرنے کے لیے اس علاقے سے کوئلہ نکالنا تھا۔ یہ منصوبہ شروع ہونے کے بعد اب تک بہت سے دیہاتیوں کو اپنے علاقے چھوڑ کر سیہری درس جیسی ماڈل کالونیوں کا رخ کرنا پڑا ہے۔ یہ دیہاتی اپنے آبائی علاقوں میں سالہا سال سے رہتے چلے آ رہے تھے۔ چانڈو جیسے بعض لوگ نئی جگہ منتقل ہونے پر قدرے آسانی سے راضی ہو گئے جبکہ بہت سے دوسروں کو کمپنی اور حکومت کے وعدوں پر بہت سے خدشات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے کوئی خاص قدم نہ اٹھایا گیا۔
صحرا کی معیشت کا انحصار بارانی زراعت، مویشی بانی اور یومیہ اجرت والی مزدوری پر ہوتا ہے۔ 2006 میں ہونے والی مویشی شماری کے مطابق تھرپارکر میں چار کروڑ دس لاکھ سے زیادہ مویشی تھے جو اُس وقت سندھ میں مویشیوں کی مجموعی تعداد کا 65 فیصد تھا۔ سندھ بھر میں گوشت اور دودھ کی فراہمی میں تھر کے مویشیوں کا بڑا حصہ ہے اس لیے اگر تھر میں مویشی مالکان کو نقصان ہوتا ہے تو اس کا اثر پورے صوبے پر پڑے گا۔ ان وسائل میں مویشیوں کے علاوہ ہر مقامی کسان کے پاس چند ایکڑ قابل کاشت زمین شامل ہے جو ان کی روزی کا بنیادی ذریعہ تھی۔
تھر میں رہنے والوں کے مطابق اس پورے ضلع کی 95 فیصد آبادی کی بقا کا انحصار مویشیوں پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نیو سیہری درس جیسی ماڈل کالونیوں نے مویشیوں کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہے اور ان بظاہر 'جدید' آبادیوں میں وہ جیسی زندگی گزار رہے ہیں اس کی انہوں ںے کبھی خواہش نہیں کی تھی۔
چانڈو اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اب انہیں اپنے بچے کھچے جانوروں کے لیے چارہ بھی خرید کر لانا پڑتا ہے۔
علاقے میں ماحولیاتی وسائل جس نقصان سے دوچار ہیں اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں۔ اس تباہی کے پیچھے دیگر عوامل کے علاوہ علاقے میں کوئلے کی کان کنی اور اس کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کا بڑا کردار ہے۔ایس ای سی ایم سی کا کہنا ہے کہ اس نے مقامی لوگوں کو بہت سے معاشی مواقع فراہم کیے ہیں۔ کمپنی کے مطابق تھر بلاک 2نے براہ راست اور بالواسطہ طور سے قریباً 50 ہزار افراد کے لیے روزگار پیدا کیا ہے جو اب مستحکم آمدنی پا رہے ہیں۔
ان لوگوں کی سماجی حالت میں بہتری لانے کا کام ایس ای سی ایم سی کے ذیلی ادارے تھر فاؤنڈیشن کے سپرد ہے۔ ادارے کے ترجمان نے سجاگ کو بتایا کہ 'تھر فاؤنڈیشن نے 100 سے زیادہ مقامی دکانداروں کے لیے کاروباری مواقع پیدا کیے اور انہیں رجسٹرڈ کیا ہے۔' ان کہنا تھا کہ 'گزشتہ دو برس میں تھر کے دکانداروں نے تین ارب روپے سے زیادہ مالیت کا کاروبار کیا ہے۔ علاوہ ازیں 50 مقامی لوگوں کو ان علاقوں میں چھوٹے کاروبار کے مواقع مہیا کیے گئے ہیں جہاں ایس ای سی ایم سی کے منصوبے چل رہے ہیں۔ ایسی جگہوں پر ان لوگوں کو چائے خانے اور ہوٹل بنانے کی اجازت دی گئی ہے جہاں ایس ای سی ایم سی میں کام کرنے والے مزدور ان کے بڑے گاہک ہیں۔'
آباد کاری کے نئے منصوبے
آئندہ چند برس میں حکومت کا اس علاقے میں کان کنی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے مزید بہت سے لوگوں کو نئی جگہوں پر آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ مقامی لوگ اس آباد کاری کو اپنی بیدخلی بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کو ان کے آبائی گاؤں سے نکال کر 'ماڈل' بستیوں میں آباد کیا جائے گا۔
واروائی بھی ایسا ہی ایک گاؤں ہے جہاں مقامی لوگ سالہا سال سے رہتے چلے آئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے اب تک حکومت کی جانب سے انہیں نئی جگہوں پر منتقل کرنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ غلام مصطفیٰ اس گاؤں کے سکول میں استاد بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'حکومت انہیں جو متبادل جگہ فراہم کر رہی تھی وہ مرکزی سڑکوں پر بہت دور ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کا زیرزمین پانی بھی ان مویشیوں کو راس نہیں آتا۔'
ان کے مطابق 'ان کے گاؤں کے لوگوں کو دوسری جگہ منتقلی سے انکار نہیں مگر اس جگہ کا انتخاب ان کی مرضی سے ہونا چاہیے۔' ان کا کہنا ہے کہ 'یہ جگہ 300 سال سے مقامی لوگوں کی ملکیت ہے اور ملک میں زمین کی ملکیت سے متعلق ناقص پالیسیوں کے باوجود اس زمین کو اپنے پاس رکھنا ان کا حق ہے۔ تھر کے لوگوں کے لیے اپنا طرز زندگی تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ لوگ جس طرح کی زندگی کے عادی ہیں وہ ان ماڈل کالونیوں میں نہیں گزاری جا سکتی۔'
واروائی کے رہائشیوں نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھی بارہا اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مضر ماحولیاتی اثرات کے سبب دنیا کے بیشتر حصوں میں کوئلے سے بجلی بنانا بند کر دیا گیا ہے تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں کیا جاتا۔'
اروائی سے تعلق رکھنے والے غلام مصطفیٰ پاکستان نیوی میں نائیک رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'سیہری درس گاؤں کوئلے سے بجلی پیداکرنے والے کارخانے کی دو چمنیوں کے درمیان واقع ہے اور اس کے نتائج چند سال میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔' واروائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے چوبیس سالہ محمد رحیم نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'چین نے اپنے ملک میں کوئلے کی کان کنی بند کر دی ہے مگر یہاں وہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔'
کچھ ہی عرصہ پہلے محمد رحیم کی اہلیہ ہائی بلڈپریشر کی دوا بروقت دستیاب نہ ہونے کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔ رحیم ان کی موت کا ذمہ دار تھرپارکر میں صحت کی سہولیات کے فقدان کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اس علاقے میں ہونے والی صنعتی سرگرمیوں سے پھیپھڑوں کے مسائل جنم لینے کا خدشہ ہے اور اب وہ اپنے کسی اور عزیز کو نہیں کھونا چاہتے۔' انہوں نے بتایا کہ 'نیو سیہری درس گاؤں میں منتقل ہونے والے بعض لوگوں کو اب سانس کے مسائل کا سامنا ہے۔ جس طرح صنعتی دھوئیں نے کراچی کی فضا کو آلودہ کر دیا ہے اسی طرح یہاں کی آب و ہوا بھی متاثر ہو رہی ہے۔'
تاہم محمد رحیم اپنے تمام تر خدشات کے باوجود بنیادی ڈھانچے کی ترقی حتیٰ کہ کوئلے کی کان کنی کو بھی یکسر غلط نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'حکومت یہ تمام کام ضرور کرے مگر مقامی لوگوں کو صنعتی حدود سے باہر بسایا جائے تاکہ وہ صنعتوں کے مضر ماحولیاتی اثرات سے محفوظ رہیں۔'
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر میں پانی کی قلت: 'ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی'۔
دوسری جانب تھرپارکر میں کام کرنے والے کمپنیاں اپنے صنعتی منصوبوں کے مضر اثرات کی بات کو زور دار طریقے سے مسترد کرتی ہیں۔ ایس ای سی ایم سی کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں میں ناصرف تمام ملکی قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتی ہے بلکہ اس نے رضاکارانہ طور سے بہت سے عالمی ماحولیاتی ضوابط اور معیارات بھی اپنا رکھے ہیں۔
اس سلسلے میں صنعتی سرگرمی کے ماحول پر اثرات کی بابت غیر جانبدار اداروں کی رپورٹ باقاعدگی سے ہر مہینے تحفظِ ماحول کے صوبائی ادارے (ایس ای پی اے) کو بھیجی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تھر میں کوئلے کی کان کنی اور متعلقہ مںصوبوں میں تمام معیارات کا خیال رکھا گیا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ 'ایس ای پی اے' سندھ حکومت کا ادارہ ہے اور ایس ای سی ایم سی میں 51 فیصد حصہ سندھ حکومت کا ہے۔
ایس ای سی ایم سی کا کہنا ہے کہ اس نے تحفظ ماحول کے لیے کئی مزید اقدامات بھی کیے ہیں جن میں 'تھر ملین ٹری پروگرام' بھی شامل ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس پروگرام کے تحت اب تک ساڑھے سات لاکھ پودے لگائے جا چکے ہیں۔
آج تھر کے باسی انہی تضادات اور غیریقینی حالات میں جی رہے ہیں۔ جہاں بعض لوگوں کو اپنی آبائی زمینیں چھوڑنا گوارا نہیں وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں بہتر مستقبل کی خاطر اپنے گھر چھوڑنے اور نئی جگہ آباد ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چانڈو بھیل جیسے لوگوں کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہے۔ مگر اب ان کے لیے واپسی کی کوئی راہ نہیں رہی اور اسی طرح اس صحرا میں قدرت کے نفاست سے متوازن کردہ ماحولی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی ممکن نہیں جسے زیر زمین پایا جانے والا سیاہ سونا بتدریج زہرآلود کرتا جا رہا ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 4 ستمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2022