شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

postImg

آصف ریاض

postImg

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

آصف ریاض

•    شوگر ملیں گنا تولنے میں دس سے پندرہ فیصد تک کی ڈنڈی مار رہی ہیں جس سے کسانوں کا 83 سے لے کر 125 ارب روپیہ شوگر ملوں اور ان کے ایجنٹوں کی جیبوں میں جا رہا ہے

•    حکومت ہر سال گنے کی کم از کم قیمت مقرر کرتی رہی ہے لیکن اس سال حکومت نے گنے کی کم از کم قیمت کا اعلان ہی نہیں کیا

•    پچھلے برس گنے کی کم از کم قیمت چار سو روپے فی من مقرر کی گئی تھی اس سال شوگر ملیں کسانوں کو  اس سے بھی کم ریٹ دے رہی ہیں

•    آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت حکومت اب زرعی اجناس کی کم از کم قیمت مقرر کر کے مارکیٹ میں مداخلت نہیں کر سکتی

•    کین کمشنر اس سیکٹر کا حکومتی نگران ہوتا تھا۔ حکومت نے یہ علیحدہ عہدہ ختم کر دیا ہے


چوہدری محمد اسلم نے گنوں سے لدی اپنی ایک ٹرالی کا وزن پرائیویٹ کنڈے سے 5 دسمبر 2024ء کو کروایا تو وہ 810 من تھا لیکن جب اسی روز اس ٹرالی کا وزن شوگر مل کے ترازو پر کیا گیا تو یہ اس سے 21 من کم بتایا گیا۔ مل نے انہیں ادائیگی اپنے ہی ترازو کے مطابق کی اور وزن میں اس فرق کی وجہ سے چوہدری اسلم کو اس ایک ٹرالی پر آٹھ ہزار  چار سو روپے کم ملے۔

پندرہ دن بعد انہوں نے دوبارہ پرائیویٹ اور شوگر مل کے ترازو پر اپنی ایک ٹرالی کے وزن کا موازنہ کیا تب بھی انہوں نے اس میں ساڑھے 19 من کا فرق پایا، جس کی مالیت آٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔

اسلم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں "اگر ایک ٹرالی پر مجھے آٹھ ہزار  روپے کا نقصان ہو رہا ہے، تو میری کل 35 ٹرالیوں پر صرف وزن میں بے ایمانی کے باعث ہونے والا میرا نقصان دو لاکھ 80 ہزار بنتا ہے۔"

یہ نقصان ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ چوہدری محمد اسلم ضلع رحیم یار خان کے ایک بڑے کاشت کار ہیں۔ اس سال انہوں نے اپنی 90 ایکڑ زمین پر گنا کاشت کیا تھا۔

اسی علاقے کے ایک اور کسان غلام مصطفی کو بھی شکایت ہے کہ مل نے ان کی ٹرالی کا وزن پرائیویٹ کنڈے کی نسبت 57 من کم کیا جس سے انہیں ملنے والی قیمت میں 12 فیصد کمی ہوگئی۔

کٹوتیاں: ملیں خود ہی معیار طے کرتی ہیں اور خود ہی ان کو پرکھتی ہیں

چوہدری اسلم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملوں کی ناانصافیوں کا سلسلہ صرف کم تولنے تک محدود نہیں۔ مل والے اس بنیاد پر بھی کٹوتی کر لیتے ہیں کہ گنے میں پانی کی مقدار زیادہ ہے، گنے کی قسم غیر منظور شدہ ہے اور ان تمام معاملات میں وہ خود ہی مدعی ہوتے ہیں اور خود ہی منصف۔

چوہدری لیاقت علی بھی ضلع رحیم یار خان کے گنے کے کاشت کار ہیں اور ساتھ ہی کسانوں کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے عہدے دار بھی ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کسان کئی دنوں تک لائنوں میں لگ کر جب شوگر مل کے کنڈے تک پہنچتا ہے تو پہلے اس کے گنے کا ٹرالی سمیت وزن کیا جاتا ہے پھر گنا اتار کر خالی ٹرالی کا وزن کیا جاتا ہے۔ "یہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں سے بے ایمانیوں کی ابتدا ہوتی ہے۔"

"مل انتظامیہ وزن کرنے کے بعد اور  کسان کو سی پی آر (رسید) دینے سے پہلے اضافی کٹوتیاں کر دیتی ہیں۔ جب کسان ان پر اعتراض کرتا ہے، تو مل والے حیلے بہانے کرتے ہیں۔ اگر کوئی زیادہ واویلہ کرتا ہے، تو مل انتظامیہ اسے نان ورائٹی (گنے کی وہ قسم جو حکومت کی طرف سے منظور شدہ نہ ہو) قرار دے کر یا پھر یہ کہہ کر کہ گنے میں مکسنگ ہے، اسے مسترد کرنے کا ڈراوا دیتی ہے۔ کسان چونکہ ٹرالی سے گنا اتار چکا ہوتا ہے اس لیے وہ ان حربوں کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔"

چوہدری لیاقت مزید بتاتے ہیں کہ موجودہ سیزن میں یہ پہلی بار  ہو رہا ہے کہ شوگر ملز گنے کی مختلف اقسام کے مختلف نرخ لگا رہی ہیں، جو 320 روپے فی من سے لے کر 370 روپے فی من تک ہے۔

کم تول معمولی بے ایمانی نہیں، ارپوں روپے کا معاملہ ہے

مِلوں کی جانب سے کم تولنے اور دیگر کٹوتیوں کا معاملہ رحیم یار خان یا جنوبی پنجاب تک محدود نہیں بلکہ پورے صوبے میں یہی ہو رہا ہے۔

پنجاب کے وسطی ضلع سرگودھا کے گنے کے کاشت کار امجد علی نول پرائیویٹ کنڈے پر اپنی ایک ٹرالی کا وزن کرا کر چنیوٹ رمضان شوگر مل لے کر گئے تو مل کے کنڈے پر یہ 64 من کم کر دیا گیا۔

کسانوں کی غیر سرکاری تنظیم کسان بورڈ کے مرکزی صدر شوکت علی چدھڑ کے مطابق صوبے بھر میں شوگر ملوں کے لیے  ہر پانچ سو من کی ٹرالی پر 50 من کی کٹوتی کرنا تو معمول بن چکا ہے لیکن حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ کم تولنے کی شرح دس سے پندرہ فیصد تک ہے۔

امریکی محکمہ زراعت کے غیر ملکی زرعی سروس کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سیزن میں پاکستان میں گنے کی پیداوار کا تخمینہ 83.5 ملین میٹرک ٹن (20 کروڑ 87 لاکھ 50 ہزار من) لگایا گیا۔ اگر  کم تول اور کٹوتیاں کسان کی کل پیداوار کے 10 فیصد کے برابر ہوں تو شوگر ملز کسانوں کے 83 ارب 50 کروڑ روپے ہڑپ کر رہی ہیں اور اگر یہ 15 فیصد ہوں تو ملز کسانوں کی جیب سے 125 ارب 25 کروڑ روپے نکال رہی ہیں۔

Photo 1

کم تول چینی کی بلیک مارکیٹ اور ٹیکس چوری کی بنیاد ہے

شوگر ملوں کی کٹوتیوں کی ریت نئی نہیں ہے۔ 2020ء میں چینی کے بحران کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بنائی جانے والی شوگر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ان ناجائز کٹوتیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں گنے کے وزن کو کم ریکارڈ کرنے اور ناجائز کٹوتیاں کرنے کے شواہد فرانزک آڈٹ ٹیموں نے جمع کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 2017-2018ء کے سیزن کے دوران پنجاب کی کل 45 میں سے 43 شوگر ملز فعال تھیں۔ ان تمام نے گنے کے کل وزن سے 10 سے 25 فیصد تک کٹوتی کی اور صوبائی حکومت کے مقرر کردہ کم از کم نرخ  سے بھی کم پر گنا خریدا۔

ملیں کم تول کر اور کٹوتیاں کر کے کسانوں کا حق تو مار لیتی ہیں لیکن یہ 'اضافی' گنے ہوتے تو انہی کے پاس ہیں بس ریکارڈ میں ظاہر نہیں کیے گئے ہوتے۔ اس گنے سے چینی بھی بنائی جاتی ہے اور وہ بھی ریکارڈ پر نہیں لائی جاتی۔ یہ غیر دستاویزی پیداوار بدعنوانی کے ایک پورے سلسلے کو جنم دیتی ہیں۔ اس خفیہ اضافی پیداوار کو ملیں پچھلے دروازے سے مارکیٹ میں پہنچاتی ہیں اس لیے اس پر سیلز ٹیکس بھی نہیں دیتیں۔ اپنی اصل پیداوار کا ایک حصہ ریکارڈ سے غائب کرنے سے ملوں کے منافع کی مجموعی شرح بھی کم ظاہر ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے اوپر لگنے والے دیگر ٹیکسوں میں بھی کمی لے آتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے یہ ذمہ داری کین کمشنر کی ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملوں کے پاس خریدے گئے گنے کا مکمل ریکارڈ موجود ہو  اور وہ بدعنونیوں میں ملوث نہ ہوں۔

کین کمشنر کا دفتر کہاں اور کیوں غائب ہو گیا؟

سرگودھا کے کاشتکار امجد علی نول کہتے ہیں کہ 2020ء میں شوگر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے آنے کے بعد حکومت نے کین کمشنر کے دفتر کو زیادہ متحرک کر دیا تھا اسی لیے پچھلے کچھ سال حالات بہتر رہے۔

کسان بورڈ کے شوکت علی کہتے ہیں کہ اس بار حکومت سرے سے ہی غائب ہے اور بیشتر شوگر ملیں کسان کو ساڑھے تین سو روپے فی من ادا کر رہی ہیں حالانکہ پچھلے سال حکومت نے گنے کی کم از کم قیمت چار سو روپے مقرر کی تھی لیکن اس بار  نہ صرف کم از کم قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ کین کمشنر کا عہدہ ہی 'غائب' کر دیا گیا۔

پنجاب حکومت نے 4 اکتوبر 2024ء کو پنجاب گورنمنٹ رولز آف بزنس 2011ء میں ترمیم کا ایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس نے پرائس کنٹرول اینڈ کموڈیٹیز مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے نام سے ایک نیا محکمہ تشکیل دے کر فوڈ ڈائریکٹوریٹ، ایگریکلچر مارکیٹنگ ڈائریکٹوریٹ، اور صارف تحفظ کونسل کو اس میں ضم کر دیا۔ اس ادارے کے پانچ ونگز میں سے ہر ایک کا سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل ہے جن میں سے ایک ڈائریکٹر جنرل فوڈز ہے۔ کین کمشنر کا آفس بھی ڈائریکٹر جنرل فوڈز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میٹھا میٹھا ہپ ہپ: شوگر ملیں گنے کی مٹھاس میں کمی بیشی کر کے کس طرح کاشت کاروں کو لوٹ رہی ہیں۔

یہ نوٹیفیکشن تو 4 اکتوبر کو جاری ہوا تھا لیکن حکومت نے 29 اگست 2024ء کو  ہی کین کمشنر پنجاب عبدالرؤف کو عہدے سے ہٹا کر لیفٹینٹ (ر) محمد شعیب خان جدون کو  ڈائریکٹر جنرل فوڈ اور کین کمشنر پنجاب بنا دیا تھا۔ اس ادغام سے پہلے شعیب جدون ڈائریکٹر فوڈ تھے۔

کیا کین کمشنر کو آئی ایم ایف کی نظر لگ گئی؟

شوکت علی کا ماننا ہے کہ یہ تمام تبدیلیاں حکومت آئی ایم ایف کے ایما پر کر رہی ہے۔ 12 جولائی 2024ء کو حکومت کے ساتھ ہونے والے سٹاف لیول اگریمنٹ پر آئی ایم ایف نے جو پریس ریلیز جاری کی تھی وہ ان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان تسلیم کرتی ہے کہ وہ فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کرنے سے باز رہے گی اور زرعی شعبے میں سبسڈی یا کسی بھی ایسی مداخلت سے اجتناب کرے گی جو سرمایہ کاری کے اصولوں سے متصادم ہو۔

شوکت علی کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ کہ حکومت نے یہ تبدیلیاں با امر مجبوری کیے ہیں تو بھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ کین کمشنر کا آفس اگر ڈائریکٹرجنرل فوڈ کو دے بھی دیا گیا ہے تو بھی اسے اپنا کام تو کرنا چاہیے۔ "آئی ایم ایف نے یہ تو نہیں کہا کہ کین کمشنر ملوں کو کم تولنے اور ناجائز کٹوتیاں کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔"

شوکت علی کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود حکومت کو کسان کے ساتھ دینے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔

تاریخ اشاعت 13 جنوری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.