شمسی توانائی: بلوچستان نے کیسے دوسرے صوبوں کو مات دی

postImg

آصف ریاض

postImg

شمسی توانائی: بلوچستان نے کیسے دوسرے صوبوں کو مات دی

آصف ریاض

نیک محمد بلوچستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقے میں رہتے ہیں جہاں آج بھی صحت، تعلیم، نقل و حمل حتی کہ بجلی جیسی بنیادی سہولت نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں ایکڑ رقبہ، پانی کی کمی کی وجہ سے ویران پڑا ہے۔

وہ پیشے کے اعتبار سے زرعی مزدور ہیں۔ مقامی زمیندار کے ہاں مزدوری سے انہیں جنس یا پیسوں کی صورت میں جو اجرت ملتی ہے اسی پر ان کے چھ افراد پر مشتمل کنبے کا گزارہ چل رہا ہے۔ وہ زمیندار کی طرف سے دیے گئے ایک کمرے کے کچے مکان میں رہائش پذیر ہیں جس میں بجلی کی سہولت نہیں ہے، وہ رات کو روشنی کے لیے مٹی کے تیل والی لائلٹن جلایا کرتے تھے اور دن کی گرمی سے بچنے کے لیے درخت کا سایا ڈھونڈتے تھے۔

ایک ماہ پہلے نیک محمد کو زمیندار نے ایک سولر پلیٹ لاکر دی ہے جو ان کے بقول ان کی زندگی میں شاید راحت کا سب سے بڑا سامان بنی ہے کیوں کہ اب ان کے بچے رات میں بلب کی روشنی اور دن میں پنکھے جلا کر گرمی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

نیک محمد اور ان کا خاندان جھل جاؤ نامی قصبے میں رہتا ہے جو ضلع آواران کا تحصیل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ پہاڑوں میں گِھرے اس قصبے کی کل آبادی 28 ہزار سے زائد ہے جس کے زیادہ تر مکان کچے ہیں۔ اس قصبے کو ملک کے دوسرے حصوں سے جوڑنے والی ایک ہی سڑک ہے جو بیلا آواران جاتی ہے۔ نیک محمد کے بقول 1987ء میں بنائی گئی اس سڑک کی تعمیر سے پہلے یہاں صرف ہیلی کاپٹر یا خچر وغیرہ کے ذریعے ہی آیا جایا جاسکتا تھا۔ بجلی تو ان کے قصبے کیا ضلع بھر میں دور دور تک کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

حاجی ناصر عُمرانی کا شمار جھل جاؤ کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے ملکیتی ڈھائی سو ایکڑ زرعی رقبے پر کپاس، گندم اور پیاز کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ پہلے وہ اپنی زمین کا کچھ حصہ ہی کاشت کر پاتے تھے کیوں کہ ان کے بقول ڈیزل کے ذریعے فصل کو سیراب کرنا اتنا زیادہ مہنگا تھا کہ الٹا انہیں نقصان ہوجایا کرتا تھا لیکن ایک سال پہلے اپنے زرعی رقبے پر لگے 27 ٹیوب ویل سولر انرجی پر منتقل لیے ہیں اب ان کی آمدن کافی بہتر ہوگئی ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری نئی مردم شماری نشاندہی کرتی ہے 2017ء سے 2023ء تک پاکستان کے جن اضلاع میں گھر تیزی کے ساتھ سولر انرجی پر منتقل ہوئے ہیں ان میں ضلع آواران دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں 62 فیصد گھر اب روشنی اور دیگر ضروریات کے لیے سولر سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

اگر تحصیل جھل جاؤ کی بات کی جائے تویہاں پر کل تین ہزار 990 گھرانے ہیں جن میں سے 74 فیصد یعنی دو ہزار 984 سولر پر منتقل ہوچکے ہیں جبکہ 988 گھرانے آج بھی ایسے ہیں جو پرانے یعنی مٹی کے تیل یا ایندھن کے دوسرے ذرائع سے گھروں میں روشنی کا اہتمام کرتے ہیں۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق پوری تحصیل میں صرف 18 گھرانوں کو بجلی فراہم کی جارہی ہے۔

ناصر عُمرانی بتاتے ہیں کہ یہاں پر بہت زیادہ غربت ہے اکثر لوگوں کے پاس ایک سولر پلیٹ لینے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔

"جس کسی کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل موجود ہیں وہ اپنے گھر یا اپنی زرعی ٹیوب ویل کو سولر انرجی پر منتقل کر رہا ہے اور امکان ہے کہ ایک سال کے دوران آواران کا ہر گھر شمسی توانائی سے روشن ہوگا۔"

توانائی کے شعبے کے ماہر ریونیوبل فرسٹ میں پروگرام منیجر مصطفیٰ امجد کا بھی یہی ماننا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی موجود ہی نہیں تھی وہ تو تقریباً 90 فیصد تک سولر پر منتقل ہوچکے ہیں یا پھر ایک آدھ سال میں ہو جائیں گے۔

مصطفی امجد کہتے ہیں کہ دیہات میں بیشتر لوگوں کو بجلی، بلب، پنکھا چلانے اور زمین سے پانی نکالنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یہ کام دو تین سولر پلیٹوں سے ہو جاتا ہے۔

"اب تو مارکیٹ میں ایسے پنکھے عام ہیں جو سولر سے چارج ہونے کے بعد چار پانچ گھنٹے نکال لیتے ہیں۔ اس لیے گرمیوں کی راتوں میں کھلے آسمان تلے ان سے بھی باآسانی گزارا ہو جاتا ہے۔"

پاکستان کی ساتویں مردم شماری رپورٹ  میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران سولر انرجی کے استعمال کے رجحان میں تیزی آئی ہے اور2017ء سے 2023ء تک پورے ملک میں آٹھ فیصد گھرانے روشنی کے لیے سولر توانائی پر منتقل ہو چکے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں قدرے پسماندہ صوبہ بلوچستان میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے اور صوبے کے کل 26 فیصد اور دیہی علاقوں کے 34 فیصد گھرانے سولر انرجی پر منتقل ہوچکے ہیں۔

ناصر عمرانی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے زیادہ تر اضلاع میں بجلی کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے اور جن جن علاقوں میں بجلی دستیاب نہیں وہاں پر لوگوں نے متبادل کے طور پر سولر انرجی کو اپنایا ہے۔ لوگوں نے اپنے گھروں کو روشن کرنے کے لیے ایک ایک، دو دو سولر پلیٹس لے رکھی ہیں۔

پاکستان میں جو آٹھ فیصد لوگ سولر پر منتقل ہوئے ہیں ان میں سے چار فیصد وہ ہیں جو پہلے گھر میں روشنی کے لیے مٹی کا تیل یا دوسرے ذرائع استعمال کرتے تھے جبکہ چار فیصد وہ ہیں جو پہلے بجلی استعمال کرتے تھے۔

افغانستان کی سرحد کے  قریبی ضلع شیرانی سے تعلق رکھنے والے اختر شاہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں پچھلے دس سال سے بجلی نہیں ہے۔لوگ سولر نہ لگاتے تو کیا کرتے؟

"جن کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل ہیں وہ ایک دو پلیٹس لگا کر دن میں پنکھا چلانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بیٹریوں سمیت مکمل سولر سسٹم لگا لیں اس لیے رات میں روشنی کے لیے بیشتر نے چائنہ کی ٹارچ لائٹس رکھی ہوئی ہیں جو دن میں چارج ہونے کے بعد رات کو روشنی فراہم کرتی ہیں۔"

شیرانی پاکستان کا وہ ضلع ہے جہاں پر سب سے زیادہ یعنی 86 فیصد گھرانے اب شمسی توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ اس ضلع میں کل خاندانوں کی تعداد 36 ہزار ایک سو ہے اس میں سے 30 ہزار 990 سولر پر شفٹ ہوگئے ہیں جبکہ چار ہزار 274 آج بھی مٹی کے تیل یا دیگر پرانے طریقوں سے گھروں میں روشنی کا بندوبست کرتے ہیں۔ یہاں پر صرف 836 گھروں کو ہی بجلی کی سہولت دستیاب ہے۔

ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ شمسی پینل اور متعلقہ آلات کی لاگت میں کمی آئی ہے، جس سے گھروں کے لئے شمسی توانائی زیادہ سستی ہوگئی ہے اور یہ ان علاقوں کے لیے پرکشش یا راحت کا ذریعہ ہے جہاں گرڈ بجلی کی قیمتیں زیادہ ہیں یا جہاں بجلی کی فراہمی کا  انفراسٹرکچر ہے ہی نہیں یا بھروسے کے لائق نہیں۔

مصطفی امجد کے مطابق بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں  دن طویل اور آسمان صاف رہتا  ہے۔ اس سبب سے سورج کی روشنی کی دستیابی زیادہ ہے جو لوگوں کے لیے سولر ٹیکنالوجی کو مزید قابل قبول بناتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں خصوصی طور پر سولر انرجی پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد اور سرکاری منصوبے بھی موجود ہیں، جو اس صنعت کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔

دیہی علاقوں کی لائف لائن

مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ 2017ء سے 2023ء تک پاکستان میں کل 29 لاکھ 62 ہزار 152 گھرانوں سولر پر منتقل ہوچکے ہیں جن میں سے 26 لاکھ 4 ہزار 924 دیہی علاقوں میں ہیں۔

اگر صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان کے بعد سندھ اور خیبر پختونخوا میں 13،13 فیصد جبکہ پنجاب میں دو فیصد گھرہی شمسی توانائی کی طرف آئے ہیں لیکن پورے ملک میں سولر انرجی اپنانے والوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ اکثریت کا تعلق قدرے پسماندہ علاقوں سے ہے جہاں پر بجلی کا تعطل زیادہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں خیبر، باجوڑ، اورکزئی، مہمند اور جنوبی وزیرستان، سندھ میں قمبر شہداد کوٹ، گھوٹکی، جیکب آباد، خیرپور اور کشمور میں سب سے زیادہ گھر سولر انرجی پر منتقل ہوئے ہیں۔

پنجاب میں ضلع راجن پور میں 11.4 فیصد خاندانوں نے اپنے گھروں کو روشن کرنے کے لیے سولرسسٹم لگایا ہے حالانکہ پورے صوبے میں یہ شرح دو فیصد ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی یہ رجحان کافی زیادہ ہے۔

ضلع راجن پور سے تعلق رکھنے والے کسان غلام فرید سولر انرجی پر منتقلی کو بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے جوڑتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں زیادہ پسماندگی ہے وہاں پر لوگ ایک پنکھے اور دو بلب کا ہزاروں روپے کا بل بھرنے کے قابل نہیں ہیں۔

"لوگ  کہیں سے ادھار پکڑ کر یا اپنی کوئی چیز بیج کر دو سولر پلیٹس لگا لیتے ہیں جس سے ان کا گزارہ ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں انھوں نے بیٹریوں سمیت مکمل سولر سسٹم نصب کرلیا ہے۔"

غلام فرید نے خود اپنے گھر اور ایک زرعی ٹیوب ویل کو سولر ٹیکنالوجی پر منتقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر کا ماہانہ بل 30 ہزار کے قریب تھا، چار لاکھ روپے لگا کر انھوں نے سولر سسٹم لگا لیا ہے جو ایک سال میں اپنی قیمت پوری کردے گا۔ پھر جتنی دیر تک وہ چلے گا مفت میں بجلی ملے گی۔

سرکار کو کیا کرنا چاہیے؟

پاکستان میں پچھلی دو دہائیوں میں بجلی کی کھپت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بہت سارے نئے منصوبے لگائے جو زیادہ تر پانی اور کوئلے سے چلنے والے تھے۔

مصطفی امجد کہتے ہیں کہ ہماری حکومتوں نے عوامی دباؤ میں آکر بجلی پوری کرنے کے لیے ایسے وقت میں مہنگے اور کوئلے یا دوسرے ماحول دشمن ذرائع سے چلنے والے منصوبے شروع کیے جب ساری دنیا ان سے چھٹکارا حاصل کررہی تھی۔

قابل تجدید(رینوایبل) ٹیکنالوجی پرمنتقلی کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی ادارے "ایمبر انرجی تھنک ٹینک" کی رپورٹ کے مطابق میں پاکستان میں بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کوئلے سے بننے والی توانائی پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ 2016ء پاکستان میں توانائی کی پروڈکشن میں کوئلے کا شیئر ایک فیصد تھا جو 2023 میں بڑھ کر 18 فیصد ہوگیا۔

تازہ ترین معاشی سروے رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2011 میں پاکستان بجلی کی کل کھپت 77 ہزار 99 گیگا واٹ تھی جو 2020-21ء تک کر بڑھ کر ایک لاکھ 16 ہزار 816 گیگا واٹ تک پہنچ گئی، لیکن اس کے بعد اس میں تھوڑی سی کمی آنا شروع ہوئی، 2021-22ء میں پاکستان میں بجلی کی کھپت تقریبا ایک لاکھ 11 ہزار اور 2022-23ء میں تقریبا ایک لاکھ 14 ہزار گیگا واٹ رہ گئی۔ پچھلے مالی سال کے ابتدائی نو ماہ بجلی کی کل کھپت 83 ہزار 109 گیگا واٹ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

مصطفی امجد کا خیال ہے کہ بجلی کی طلب میں یہ کمی پاکستان میں سولر کی بڑھتے ہوئے رجحان کا ہی نتیجہ ہے۔

وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حال ہی میں ایک رپورٹ آئی ہے کہ پاکستان میں لگ بھگ 13 گیگا واٹ کے سولر سسٹم درآمد ہوئے ہیں، اگر یہ بات سچ ہے تو ایک بہت بڑی مقدار ہے اس کا مطلب ہے کہ آنے والے کچھ سالوں میں 20 سے 25 فیصد توانائی لوگوں کی اپنی مدد کے تحت سولر پر منتقل ہو جائے گی۔

ان کا ماننا ہے کہ چاہے مجبوری ہی سہی،  شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا رجحان ملک کے لیے خوش آئند ہے۔ لیکن حکومت نے مناسب پالیسیاں نہ بنائیں تو اس سے ملکی معیشیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس کی مثال وہ کچھ یوں دیتے ہیں کہ جو لوگ سولر پر منتقل ہورہے ہیں ان میں اکثر وہ ہیں جنہیں رات کو گرڈ سے بجلی لینا پڑتی ہے۔

"اس سے ہوگا یہ کہ حکومت کو ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کو کپیسٹی ییمنٹ کی مد میں بھاری ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ جن لوگوں کا انحصار صرف سرکاری بجلی پر ہے۔ ان پر بوجھ اور زیادہ بڑھ جائے گا۔"

مصطفیٰ کہتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کا نظام بہتر اور آسان بنایا جائے، دوسرا حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا اور انہیں مجبور کرے کہ وہ بھی سولر یا ونڈ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجائیں۔ یہی دنیا میں توانائی کے سستے اور ماحول دوست منصوبے ہیں۔

ایمبر تھنک ٹینک کی رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہوا اور شمسی توانائی کی وسیع صلاحیت اس کے جاری بحران سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پاکستان نے اپنی 59 فیصد بجلی کے لیے فوسل فیول پر انحصار کیا تھا جبکہ سورج اور ہوا سے حاصل ہونی والی توانائی کا حصہ صرف 2.7 فیصد ہے۔ جو عالمی اوسط 13 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت 10 فیصد اور افغانستان 13 فیصد سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کر رہے ہیں۔

تاریخ اشاعت 22 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.