انچاس سالہ حاجی محمد نبی ضلع قلعہ عبداللہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے توبہ اچکزئی دو بندی یونین کونسل میں 76 ایکڑ اراضی پر باغ لگا رکھا ہے۔ باغ کے سوا ان کے خاندان کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں۔اس علاقے کو پہلے کچھ سال خشک سالی کا سامنا تھا۔پھر گزشتہ سال بارشوں اور سیلاب نے باغ اجاڑ کر رکھ دیا۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ تھی اور باغ کو پانی نہیں مل پا رہا تھا۔
محمد نبی بتاتے ہیں کہ کسی نے انہیں شمسی توانائی پر چلنے والا ٹیوب ویل لگانے کا مشورہ دیا۔ اور کہا کہ اس کی بدولت ان کا پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ انہوں جیسے تیسے 15 لاکھ روپے جمع کیے اور سولر ٹیوب ویل لگا لیا اور چند روز میں ان کا باغ دوبارہ ہرا بھرا ہو گیا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کی 2018 ء میں جاری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے اور یہ چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔
بلوچستان میں زمینداروں کی بڑی تعداد پھلوں کی کاشت سے وابستہ ہے جن میں انگور ،کھجور، سیب ،چیری ،آڑو اور خوبانی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے میں زیرکاشت رقبے کے ایک نمایاں حصے پر پیاز، چاول اور گندم بھی اگائے جاتے ہیں۔
زرعی ترقیاتی بینک کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 2.06 ملین ہیکٹر (5.9 فیصد) اراضی کاشت کی جاتی ہے۔ تاہم 54 فیصد تیار زمین پانی کی کمی کی وجہ سے خالی پڑی رہتی ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پانی دستیاب ہو تو یہاں مزید 4.85 ملین ہیکٹر(تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ایکڑ) رقبہ زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔
نیشنل جیو گرافک سوسائٹی کے لیے کاریز سسٹم پر 2016ء میں کی جانے والی ایک ریسر چ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کل زیر کاشت رقبے کا 43 فیصد حصہ نہروں اور باقی سارا ٹیوب ویل اور کاریز وں وغیرہ سے سیراب ہوتا ہے۔آبپاشی میں اب نہروں کا حصہ مزید کم ہو گیا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت ڈاکٹر احمد علی دعویٰ کرتے ہیں کہ صوبے میں زرعی مقاصد کے لیے 67 ہزار 181 ٹیوب ویل ہیں ۔ان میں 25ہزار 667 سولر پینل جبکہ 37 ہزار 193 ٹیوب ویل بجلی پر چلتے ہیں۔
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ڈپٹی مینجر تعلقات عامہ محمد افضل بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں اوسطاً یومیہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے۔یہاں اکثر علاقوں میں بجلی چوری کی جاتی ہےاس لیے زیادہ بجلی مہیا نہیں کی جاتی۔
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں زمینداروں کو سبسڈی ملتی ہے۔ اس کا 60 فیصد حصہ صوبائی اور 40 فیصد وفاق حکومت دیتی ہے۔اکثر ٹیوب ویلوں پر میٹر ہی نہیں ہوتے اس لیے چھ ہزار روپے فکس بل بھیجا جاتا ہے۔
اگرچہ چھ ہزار بل میں بلوچستان کے کاشتکار کو نقصان نہیں ہے تاہم سبسڈی کی رقم بھی قومی وسائل میں سے جا رہی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی پیداوار سے جنم لینے والی مشکلات اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔
پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی مشکلات سے دوچار ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کے شکار پہلے دس ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔
سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر' کی جاری کردہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں آلودگی کی بڑی وجوہات میں کوئلے اور فرنس آئل سےبجلی پیدا کرنے والے پلانٹ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کوئلے سے پانچ ہزار 90 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔چار ہزار 900 میگا واٹ بجلی والے کول پاور پلانٹ گزشتہ تین سال میں تعمیر کیے گئے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران 2019 ءمیں بلوچستان کے علاقے حب میں بھی ایک کول پاور پلانٹ مکمل کیا گیا۔اس سےایک ہزار 320 میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ اس مقصد کے لیے کثیر زرمبادلہ سے کوئلہ درآمد کیا گیا ہے۔
حاجی فریال اچکزئی ان کاشت کاروں میں سے ایک ہیں جن کے باغات کو گزشتہ سال آنے والی غیر معمولی بارشوں نے شدید نقصان پہنچایاتھا۔وہ قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں 35 ایکڑ رقبے پر باغ کے مالک ہیں۔
حاجی فریال کے باغ میں سیب، انگور اور خوبانی پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے پودوں کو پانی دینے کے لئے تین سولر ٹیوب ویل لگائے رکھے ہیں ۔تین سال پہلے تک یہ تینوں بجلی پر چلتے تھے۔
فریال اچکزئی بتاتے ہیں کہ 24 گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی آتی تھی۔ وولٹیج ڈراپ ہوتے توکئی بار موٹریں جل گئیں۔ مرمت کا اضافی خرچ الگ ہوتا تھا۔ ہر ٹیوب ویل پر سولر پینل سمیت 30 لاکھ روپے خرچ آئے تھے جبکہ ایک ٹیوب ویل 5 ایکڑ باغ کے لئے کافی ہوتا ہے۔
ماہر ماحولیات پروفیسر ثناء اللہ کہتے ہیں کہ تھرمل (فرنس آئل) یا کوئلے سے بجلی پیدا کرنا ماحول کیلئے تباہی ہے۔ان سے خارج ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں آلودگی پھیلا رہی ہیں۔ اس کے برعکس شمسی توانائی ماحول دوست ہے۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ زمینداروں کو سبسیڈائز ریٹ پر سولر پینل فراہم کیے جائیں۔اس سےتھرمل یا کول انرجی پر انحصار کم ہوگا۔ اگر بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویل ہی شمسی توانائی پر منتقل ہو جائیں تو ماحول پر بہت بہتر اثر پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں
شمسی توانائی کے واٹر پمپ اور گلگت بلتستان کے آخری گاؤں کا ننھا منا زرعی انقلاب
پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق بلوچستان میں 1970ء سے 2020ء تک ٹیوب ویل کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ کر 40 ہزار ہو گئی تھی۔ اب ٹیوب ویل لگانے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو ریا ہے۔ ٹیوب ویلوں کے باعث زیر زمین واٹر ٹیبل نیچے جا رہا ہے۔
باغبان حاجی محمد نبی بتاتے ہیں کہ وہ سولر ٹیوب ویل سے روزانہ بارہ گھنٹے پانی نکالتے ہیں۔اس پانی کو تالاب میں جمع کر کے حسب ضرورت باغ کو دیا جاتا ہے۔
پروفیسر ثناء اللہ پانی کواس طریقے سے استعمال کرنےکو خطرناک سمجھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ زمیندار عموماً سولر کے ذریعے صبح سے غروب آفتاب تک پانی نکالتے ہیں جس کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے اور اس سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔
وہ تجویز دیتے ہیں کہ کاشتکاروں کو جدید کاشتکاری اور پانی بچانے کے طریقوں کی تربیت دے جائے جبکہ زمینداروں کو ڈرپ ایریگیشن پا سپرنکلر سسٹم لگا نے پر تیار کیا جائے۔ اس طریقے سے ناصرف پانی کی بچت ہو گی بلکہ زیادہ سے زیادہ رقبے کو قابل کاشت بنایا جا سکے گا۔
تاریخ اشاعت 14 جولائی 2023