گلگت بلتستان کے شمال مشرق میں سیاری گاؤں پاکستانی حدود میں واقع آخری انسانی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس سے دو کلومیٹر دور فرانو گاؤں کے بعد انڈیا کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔سیاری اپنے خوبصورت قدرتی نظاروں کی وجہ سے بھی خاص پہچان رکھتا ہے۔ اسی گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔
یہاں کے لوگ سالہا سال سے صرف چارہ، گندم اور آلو کاشت کرتے آئے تھے لیکن اب انہوں نے جو، پلاگ (ساگ)، سٹرنما (مٹر) اور پیاز بھی اگانا شروع کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اس علاقے میں آبپاشی کے لئے تھوڑا سا پانی میسر ہوتا تھا جس کی اب فراوانی ہے۔
اس گاؤں کی کاشت کار خدیجہ بتول بتاتی ہیں کہ وہ پانی کی کمی کے باعث سال میں صرف ایک مرتبہ ہی کاشت کاری کر سکتے تھے۔ تاہم اِس سال حکومت نے شمسی توانائی کے ایک منصوبے کے ذریعے اس علاقے میں دریا کا پانی پہنچا دیا ہے جس سے ان کے لئے سال میں دو مرتبہ فصلیں بونا ممکن ہو گیا ہے۔
خدیجہ کا گھرانہ 13 افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے شوہر قریبی شہر خپلو میں دکان پر کام کرتے ہیں۔ خدیجہ گھریلو کام کاج کے علاوہ اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی بھی خود کرتی ہیں جس میں گھر کے دیگر افراد ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
2022ء سے پہلے ان کی زمین موسم گرما میں گلیشیئروں کے پگھلنے سے ندی نالوں میں آنے والے پانی سے سیراب ہوتی تھی۔ یہ پانی ہر سال مئی کے قریب دستیاب ہوتا تھا جس سے صرف ایک مرتبہ ہی فصل کاشت کی جا سکتی تھی۔ لیکن پچھلے سال گلگت کے واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے اشتراک سے اس گاؤں میں دو جگہوں پر شمسی توانائی کے پلانٹ نصب کر کے دریائے شیوک کا پانی اونچائی پر چڑھانا (اپ لفٹ) کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ پانی مئی سے بہت پہلے مل جاتا ہے جس کی بدولت یہ لوگ سال میں دو مرتبہ فصلیں بونے کے قابل ہو گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وافر پانی کی دستیابی کے بعد گاؤں کے لوگوں نے مزید 500 کنال بنجر زمین کو بھی قابل کاشت بنا لیا ہے۔
یہ لوگ اپنی فصلوں کو مقامی مارکیٹ میں بیچتے ہیں یا ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ضلع سکردو سے آنے والے بیوپاری گاؤں کے لوگوں سے براہ راست ان کی پیداوار خرید لیتے ہیں۔
اسی گاؤں کے غلام رسول پچھلے 20 سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مئی کے آخر تک یہ علاقہ پانی نہ ہونے کے باعث خشک پڑا ہوتا تھا لیکن اب اس مہینے میں یہاں سرسبز فصلیں لہلہا رہی ہیں کیونکہ اب یہاں مارچ سے پہلے ہی پانی مل جاتا ہے۔
"وقت پر پانی نہ آنے کی باعث یہاں کے لوگ علاقائی فصلیں کاشت نہیں کر پاتے تھے اور صرف گندم اور آلو ہی اگاتے تھے۔اب ہم یہاں ہر طرح کی فصل اور سبزیاں کاشت کر سکتے ہیں۔"
اس گاؤں کے سرکردہ (نمبردار) اشرف حسین بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت کے باعث لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنا شروع ہو گئے تھے۔ علاقے میں شمسی توانائی کے ذریعے دریائے شیوک کے پانی کی فراہمی کے بعد یہاں خوشحالی آئی ہے لوگ اور اپنے علاقے میں واپس آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پانی کی فراہمی کے اس منصوبے کے بدولت بنجر زمین تیزی سے آباد ہوتی جا رہی ہے جبکہ پانچ ہزار نئے درخت بھی اگائے گئے ہیں۔ اگر حکومت مزید سولر پلانٹ لگا دے تو مزید ہزاروں کینال زمین کو آباد کیا جا سکتا ہے۔
واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر وارث اقبال بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں مجموعی رقبے کا صرف دو فیصد قابل کاشت ہے اور باقی 98 فیصد حصہ پہاڑوں، چراگاہوں، نیشنل پارک اور گلیشیئروں پر مشتمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں
یہ اندھیرا جانے کتنوں کا اجالا کھا گیا: گلگت میں بجلی کی پیداوار میں کمی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟
"کہنے کو یہاں دریاؤں، جھیلوں اور گلیشیئروں سمیت پانی کے بہت سے ذرائع ہیں لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں پانی میسر نہیں ہوتا۔ علاقے میں آب پاشی کے لئے پانی کی بہت قلت تھی۔ سیاری گاؤں میں بھی پانی کا بحران رہتا تھا کیونکہ دریائے شیوک گاؤں سے نیچے بہتا ہے اس لئے ندی نالے کھود کر سیاری تک پانی پہنچانا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شمسی توانائی کے پمپ لگا کر یہ مسئلہ حل کیا گیا جس کے بہت اچھے نتائج آئے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ فی الوقت گلگت بلتستان میں 15 جگہوں پر ایسے پلانٹ نصب کئے گئے ہیں جبکہ محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت اور دیگر ادارے بھی اسی طریقے سے پانی حاصل کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
وارث نے بتایا کہ ایک پلانٹ کی تعمیر پر 12 سے 14 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مزید 10 مقامات پر یہ پلانٹ لگانے کا منصوبہ ہے جس پر کام جلد شروع ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 15 جون 2023