شمسی توانائی کے واٹر پمپ اور گلگت بلتستان کے آخری گاؤں کا ننھا منا زرعی انقلاب

postImg

نثار علی

postImg

شمسی توانائی کے واٹر پمپ اور گلگت بلتستان کے آخری گاؤں کا ننھا منا زرعی انقلاب

نثار علی

گلگت بلتستان کے شمال مشرق میں سیاری گاؤں پاکستانی حدود میں واقع آخری انسانی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس سے دو کلومیٹر دور فرانو گاؤں کے بعد انڈیا کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔سیاری اپنے خوبصورت قدرتی نظاروں کی وجہ سے بھی خاص پہچان رکھتا ہے۔ اسی گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔

یہاں کے لوگ سالہا سال سے صرف چارہ، گندم اور آلو کاشت کرتے آئے تھے لیکن اب انہوں نے جو، پلاگ (ساگ)، سٹرنما (مٹر) اور پیاز بھی اگانا شروع کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اس علاقے میں آبپاشی کے لئے تھوڑا سا پانی میسر ہوتا تھا جس کی اب فراوانی ہے۔

اس گاؤں کی کاشت کار خدیجہ بتول بتاتی ہیں کہ وہ پانی کی کمی کے باعث سال میں صرف ایک مرتبہ ہی کاشت کاری کر سکتے تھے۔ تاہم اِس سال حکومت نے شمسی توانائی کے ایک منصوبے کے ذریعے اس علاقے میں دریا کا پانی پہنچا دیا ہے جس سے ان کے لئے سال میں دو مرتبہ فصلیں بونا ممکن ہو گیا ہے۔

خدیجہ کا گھرانہ 13 افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے شوہر قریبی شہر خپلو میں دکان پر کام کرتے ہیں۔ خدیجہ گھریلو کام کاج کے علاوہ اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی بھی خود کرتی ہیں جس میں گھر کے دیگر افراد ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

2022ء سے پہلے ان کی زمین موسم گرما میں گلیشیئروں کے پگھلنے سے ندی نالوں میں آنے والے پانی سے سیراب ہوتی تھی۔ یہ پانی ہر سال مئی کے قریب دستیاب ہوتا تھا جس سے صرف ایک مرتبہ ہی فصل کاشت کی جا سکتی تھی۔ لیکن پچھلے سال گلگت کے واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے اشتراک سے اس گاؤں میں دو جگہوں پر شمسی توانائی کے پلانٹ نصب کر کے دریائے شیوک کا پانی اونچائی پر چڑھانا (اپ لفٹ) کرنا شروع کر دیا ہے۔

یہ پانی مئی سے بہت پہلے مل جاتا ہے جس کی بدولت یہ لوگ سال میں دو مرتبہ فصلیں بونے کے قابل ہو گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وافر پانی کی دستیابی کے بعد گاؤں کے لوگوں نے مزید 500 کنال بنجر زمین کو بھی قابل کاشت بنا لیا ہے۔

یہ لوگ اپنی فصلوں کو مقامی مارکیٹ میں بیچتے ہیں یا ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ضلع سکردو سے آنے والے بیوپاری گاؤں کے لوگوں سے براہ راست ان کی پیداوار خرید لیتے ہیں۔

اسی گاؤں کے غلام رسول پچھلے 20 سال سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مئی کے آخر تک یہ علاقہ پانی نہ ہونے کے باعث خشک پڑا ہوتا تھا لیکن اب اس مہینے میں یہاں سرسبز فصلیں لہلہا رہی ہیں کیونکہ اب یہاں مارچ سے پہلے ہی پانی مل جاتا ہے۔

"وقت پر پانی نہ آنے کی باعث یہاں کے لوگ علاقائی فصلیں کاشت نہیں کر پاتے تھے اور صرف گندم اور آلو ہی اگاتے تھے۔اب ہم یہاں ہر طرح کی فصل اور سبزیاں کاشت کر سکتے ہیں۔"

اس گاؤں کے سرکردہ (نمبردار) اشرف حسین بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت کے باعث لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنا شروع ہو گئے تھے۔ علاقے میں شمسی توانائی کے ذریعے دریائے شیوک کے پانی کی فراہمی کے بعد یہاں خوشحالی آئی ہے لوگ اور اپنے علاقے میں واپس آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پانی کی فراہمی کے اس منصوبے کے بدولت بنجر زمین تیزی سے آباد ہوتی جا رہی ہے جبکہ پانچ ہزار نئے درخت بھی اگائے گئے ہیں۔ اگر حکومت مزید سولر پلانٹ لگا دے تو مزید ہزاروں کینال زمین کو آباد کیا جا سکتا ہے۔

واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر وارث اقبال بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں مجموعی رقبے کا صرف دو فیصد قابل کاشت ہے اور باقی 98 فیصد حصہ پہاڑوں، چراگاہوں، نیشنل پارک اور گلیشیئروں پر مشتمل ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

یہ اندھیرا جانے کتنوں کا اجالا کھا گیا: گلگت میں بجلی کی پیداوار میں کمی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟

"کہنے کو یہاں دریاؤں، جھیلوں اور گلیشیئروں سمیت پانی کے بہت سے ذرائع ہیں لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں پانی میسر نہیں ہوتا۔ علاقے میں آب پاشی کے لئے پانی کی بہت قلت تھی۔ سیاری گاؤں میں بھی پانی کا بحران رہتا تھا کیونکہ دریائے شیوک گاؤں سے نیچے بہتا ہے اس لئے ندی نالے کھود کر سیاری تک پانی پہنچانا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شمسی توانائی کے پمپ لگا کر یہ مسئلہ حل کیا گیا جس کے بہت اچھے نتائج آئے ہیں۔"

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت گلگت بلتستان میں 15 جگہوں پر ایسے پلانٹ نصب کئے گئے ہیں جبکہ محکمہ جنگلات، محکمہ زراعت اور دیگر ادارے بھی اسی طریقے سے پانی حاصل کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔

وارث نے بتایا کہ ایک پلانٹ کی تعمیر پر 12 سے 14 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مزید 10 مقامات پر یہ پلانٹ لگانے کا منصوبہ ہے جس پر کام جلد شروع ہو جائے گا۔

تاریخ اشاعت 15 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نثارعلی کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے سے ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے علاوہ شمالی علاقوں کے ایشوز پر نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کو رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

تھرپاکر میں پانی ملا تو سولر نے زندگی آسان بنادی

thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.