ساجد شہزاد کی آنکھیں اس قدر لال ہیں جیسے ان میں خون اترا ہوا ہو۔
ان کی آنکھیں ہمیشہ سے ایسی نہیں تھیں۔ چند برس پہلے جب وہ معدے کی گرمی، بخار اور ہیضے کا شکار ہوئے تو اس دوران آہستہ آہستہ ان کی رنگت بھی بدلتی چلی گئی۔
لگ بھگ چالیس سال کی عمر کے ساجد شہزاد وسطی پنجاب کے شہر وزیر آباد سے چار کلومیٹر مشرق میں واقع سودھرا نامی گاؤں میں کریانے کی دکان چلاتے ہیں۔ اس گاؤں کی آبادی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن اس کے تقریباً ہر گھر میں ایک یا دو ایسے افراد موجود ہیں جو ساجد شہزاد کی طرح مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق ان بیماریوں کا بنیادی سبب گاؤں میں دستیاب پینے کے پانی کا ناقص معیار ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لئے سودھرا کے صاحبِ حیثیت لوگوں نے اپنے گھروں کے باہر صاف پانی کے نل لگا رکھے ہیں جن کے ارد گرد سائیکل سوار بچے سارا دِن گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بچے ان نلوں سے پانی جمع کرتے ہیں اور سائیکلوں پر اپنے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔ ساجد شہزاد کے دن کا کافی حصہ بھی ان نلوں سے پانی بھرنے میں گزرتا ہے۔
سودھرا کے پانی میں پائی جانے والی خرابیوں کی جڑ گاؤں سے باہر لاڈو پلی نامی مقام پر ہے۔
یہ پلی وزیر آباد سے سیالکوٹ جانے والی سڑک پر سودھرا سے لگ بھگ ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر تین برساتی نالوں کے سنگم پر بنائی گئی ہے لیکن اس کے نیچے سے گزرنے والا پانی گہرے سرمئی رنگ کا ایک زہر آلود سیال ہے۔ سودھرا جانے والے راستے کے دونوں طرف موجود کھیت اسی سیال سے سیراب ہوتے ہیں۔
ساجد شہزاد کو خدشہ ہے کہ سودھرا میں پانی کی آلودگی کی ذمہ دار کھیلوں کا سامان اور بیگ بنانے والی فارورڈ گیئر نامی ایک فیکٹری ہے جو ان کے گاؤں سے 29 کلو میٹر مشرق میں سمبڑیال نامی قصبے کے پاس واقع ہے۔
ان کا یہ خدشہ بے بنیاد نہیں۔
ان کے ایک دوست عون گرمانی گزشتہ کچھ سالوں سے ماحولیاتی آلودگی کی وجوہات اور اس کے مضر اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق مذکورہ فیکٹری "ہر سال 31 لاکھ بیگ بنانے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کا سامان بھی بناتی ہے۔ ان اشیاء کی تیاری میں پولی ایسٹر، نائلون اور فائبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دورانِ استعمال ان کی باقیات چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہو جاتی ہیں جو سیمنٹ کی نالیوں کے ذریعے فیکٹری کے گیٹ کے سامنے سے گزرنے والے بھید نامی برساتی نالے میں پھینک دی جاتی ہیں"۔
عون گرمانی اور ساجد شہزاد نے لاہور کی ماحولیاتی عدالت میں فیکٹری کے خلاف ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔ 26 جنوری 2021 کو اس عدالت میں بیان دیتے ہوئے ساجد شہزاد کا کہنا تھا کہ "فارورڈ گیئر کے آلودہ پانی کے نالے میں ڈالے جانے کی وجہ سے میں اور میرے گاؤں کے دوسرے لوگ بڑی تیزی سے ٹائی فائیڈ، پیلے یرقان اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں"۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ انہوں نے اس "فیکٹری کو 9 جنوری 2021 کو اطلاع دی کہ اس کا آلودہ پانی علاقے میں بیماریوں کا سبب بن رہا ہے لیکن اس مسئلے کا تدارک کرنے کے بجائے فیکٹری کے اعلیٰ عہدے داران نے مجھے ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ میں فیکٹری کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے باز آ جاؤں"۔
بھید نالہ دراصل جموں کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور سیالکوٹ کے پاس سے بہتا ہوا وزیر آباد جانے والی شاہراہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔ سمبڑیال پہنچنے سے پہلے یہ نالہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جس میں سے ایک حصہ وزیر آباد جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا رہتا ہے جبکہ دوسرا حصہ ایک نہر کے نیچے سے گزرتا ہوا سمبڑیال کی آبادی کے پہلو میں چلتا ہوا مغرب میں واقع کئی دیہات کے پاس سے گذرتا ہے اور بالآخر لاڈو ُپلی پر آ کر پہلے حصے سے مِل جاتا ہے۔
سمبڑیال کے رہائشی اعظم چوہدری کا خیال ہے کہ صرف فارورڈ گیئر ہی نہیں بلکہ چمڑا اور کپڑا بنانے والے کئی کارخانے پچھلے کئی سال سے اپنا گندا پانی اس نالے میں پھینک رہے ہیں جس کی وجہ سے "سمبڑیال اور اس کے اردگرد واقع دیہات کا پانی مکمل طور پر آلودہ ہو چکا ہے"۔
تعمیر کے شعبے میں ٹھیکیداری کا کام کرنے والے 50 سالہ اعظم چوہدری ایک نہر کے کنارے مزدوروں سے ایک ٹرالی میں ریت بھرا رہے ہیں۔ وہ مضبوط تن و توش کے مالک ہیں لیکن کافی عرصے سے مستقل طور پر سانس کی بیماریوں، کھانسی اور بخار میں مبتلا ہیں۔ ریت بھرانے کے دوران بھی وہ کئی بار ایک درخت کا سہارا لے کر اپنا سانس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک قریبی گاؤں رندھیر موڑ کے رہائشی محمد فاروق بھی پانی کی آلودگی کے بارے میں شاکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "آج سے دس سال پہلے ہمارے گاؤں میں صاف پانی 40 فٹ کھدائی کرنے پر مِل جاتا تھا لیکن اب 500 فٹ کھدائی کرنے کے بعد ہی ایسا پانی ملتا ہے جو پینے اور ٖفصلوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے"۔
سودھرا میں ایک نِجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر محمد یوسف ان شکایات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کا "زیرِ زمین پانی مکمل طور پر آلودہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے یہاں ٹائی فائیڈ، ہیضہ، پیلا یرقان اور معدے کی دیگر بیماریاں کثرت سے پیدا ہو رہی ہیں"۔
ان کے بقول "اگر وہ دن میں 20 مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں تو ان میں سے کم ازم پانچ ایسے ہوتے ہیں جو آلودہ پانی پینے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوئے ہوتے ہیں"۔ ان کے خیال میں ان بیماریوں کے زیادہ تر متاثرین بچے اور بڑی عمر کے لوگ ہیں۔
حکومتی منصوبے
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے 2019 میں سیالکوٹ اور اس کے گرد و نواح میں پانی کی آلودگی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی جس کے مطابق اس علاقے میں موجود 264 چمڑا بنانے کے کارخانے، 244 کپڑا بنانے کی فیکٹریاں، 900 کھیلوں کا سامان بنانے کے ادارے، 57 چاول چھڑنے والے شیلر اور 14 آٹا بنانے والی ملیں اپنا انتہائی آلودہ پانی پلکھو، بھید اور ایک نامی تین برساتی نالوں میں پھینکتے ہیں جو سیالکوٹ، سمبڑیال اور وزیر آباد کے نواحی علاقوں سے گزرتے ہوئے دریائے چناب میں جا گرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان نالوں میں بڑی مقدار میں ڈالا جانے والا انسانی اور صنعتی فضلہ زیر زمین پانی کو شدید آلودہ کر رہا ہے۔ کئی مقامات پر یہ پانی نالوں سے خارج ہو کر قریبی آبادیوں اور فصلوں کو براہِ راست نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس علاقے میں پانی کی آلودگی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا تو چند سالوں میں سمبڑیال اور وزیر آباد کے درمیان واقع دیہات موذی امراض کا گڑھ بن جائیں گے۔
حال ہی میں سیالکوٹ میں ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات کے طور پر کام کرنے والے امتیاز احمد بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاقے میں پانی اور اور ماحول کی آلودگی ایک سنگین طِبی اور ماحولیاتی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا محکمہ اس بحران پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
لاہور کا آلودگی میں پہلا نمبر مگر حکومت کا اصرار ہے کہ 'سب اچھا' دکھایا جائے۔
ان کے مطابق چمڑے کے دو بڑے کارخانوں کو لگ بھگ دس سال پہلے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر نوٹس جاری کیے گئے تھے تاہم لاہور میں تحفظِ ماحولیات کی عدالت کے سامنے متعدد سماعتوں کے باوجود ابھی تک ان کارخانوں کے مالکان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
امتیاز احمد کا یہ بھی کہنا ہے حکومت نے سیالکوٹ اور اس کے گرد و نواح میں ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے دو بڑے منصوبوں کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔ ان میں سے پہلا منصوبہ سیالکوٹ ٹینری زون کہلاتا ہے جس کا مقصد سیالکوٹ شہر اور اس کے ارد گرد قائم چمڑے کے کارخانوں کو آبادی سے دور منتقل کرنا ہے۔ امتیاز احمد کے مطابق "اس منصوبے کی کل لاگت 3.96 ارب روپے ہے اور اسکی تعمیر محکمہِ ماحولیات اور سیالکوٹ ٹینری ایسوسی ایشن کے باہمی تعاون سے کی جا رہی ہے"۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل اگلے سال یعنی 2022 میں ہونا ہے لیکن عملی طور پر ابھی تک محض اس کے لئے اراضی ہی حاصل کی جا سکی ہے جبکہ اس کے لئے درکار بِجلی، پانی اور سڑکوں کا انتظام ابھی کیا جانا ہے۔
دوسرے منصوبے کے تحت آلودہ پانی کی صفائی کے لئے سیالکوٹ شہر کے شمال میں 230 ایکڑ اراضی پر ایک پلانٹ لگایا جائے گا جو سرکاری دستاویزات کے مطابق 2029 میں مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت سیالکوٹ اور اس کے نواحی علاقوں میں سیوریج اور پانی کی صفائی کا ایک جدید نظام بھی قائم کیا جائے گا۔
تاہم اس منصوبے پر ابھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ در حقیقت اس کے لئے درکار اراضی کا بیشتر حصہ ابھی بھی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
اگر یہ منصوبہ مکمل ہو بھی جائے تو سودھرا اور اس کے قریبی دیہاتوں میں پانی کی آلودگی کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے شاید اور شدید ہو جائے گا کیونکہ اس کے تحت شہری سیوریج کا مزید پانی برساتی نالوں پلکھو، بھید اور ایک میں ہی ڈالا جائے گا جو پہلے ہی مقامی زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر چکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں کو اس منصوبے کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ سمبڑیال کے ایک قریبی گاؤں کوٹلی مغلاں کے رہائشی محمد وسیم کے مطابق "اگر نئے منصوبے کے تحت بھی آلودہ پانی کا اخراج انہیں نالوں کے ذریعے ہو گا تو اس سے مقامی دیہی آبادیوں میں مزید مصائب اور بیماریاں جنم لیں گی"۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2022