نومبر 2024ء کے ابتدائی دو ہفتوں میں لاہور میں رہنے والوں کو دنیا کی بدترین فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا، جس میں سانس لینا ایک سنگین چیلنج بن چکا تھا۔
ان دنوں میں لاہور کا ائیر کوالٹی انڈکس 600 سے لے کر 2000 تک گیا۔ جو عالمی ادارہ صحت کے فضائی آلودگی کی بدترین حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت 300 سے اوپر کی ریڈنگ کو صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتا ہے۔
کبھی باغات اور خوشبوؤں کا شہر کہلانے والا لاہور، سموگ کی ایسی گھنی چادر میں ڈوبا کہ خلا سے سموگ کے سوا شہر کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔
ڈاکٹر کرن سراج لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) میں موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے تحقیق کررہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ فضائی آلودگی کی اس سنگینی کے محرکات میں انسانی اور قدرتی دنوں اقسام کے عوامل شامل ہیں۔
قدرتی عوامل میں موسم، محل وقوع اور ہوا کی رفتار جبکہ انسانی عوامل میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں شامل ہے جس میں آلودہ ذرات اور گیسیں پائی جاتی ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ سموگ، دھند (fog) میں فضائی آلودگی کی آمیزش ہے۔ پنجاب میں سردیوں کے موسم میں دھند تو اکثر ہوتی ہے جو دراصل درجہ حرارت گرنے کی وجہ سے نمی کے فضا میں معلق ہونے سے بنتی ہے اور آہستہ آہستہ زمین پر اترتی ہے۔
اسی دوران جب زمین سے اٹھنے والی مضر گیسیں اور زہریلے ذرات فضا میں پہنچتے ہیں تو وہ نمی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ کاربن اور دیگر گیسوں کے ان ذرات کے نمی سے ملاپ کے بعد کی صورتحال کو سموگ کہا جاتا ہے۔
وہ اس بات کی سائنسی توضیح اس طرح کرتی ہیں کہ سموگ زمینی اوزون، مضر صحت پرائمری اور سیکنڈری ذرات کا مرکب ہے۔
صوبہ پنجاب میں نومبر کے دوسرے ہفتے سموگ اتنی شدت اختیار کرگئی کہ پنجاب حکومت کو سکولوں میں چھٹیوں سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ صحت کی ہنگامی صورت حال کا نفاذ کرنا پڑا۔
محکمہ صحت پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق 14 نومبر تک فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس سے جڑی بیماریوں کے صوبہ میں 19 لاکھ 30 ہزار کیس رپورٹ ہوئے جن میں 12 لاکھ 62 ہزار مریض صرف لاہور میں تھے۔
ڈاکٹر کرن کے مطابق سموگ میں پائے جانے والے صحت کے لیے انتہائی مضر ذرات کی دو اقسام ہیں۔پہلی قسم گردوغبار، فصلوں کی باقیات، لکڑی، پیٹرول اور کوئلے کو جلانے سے پیدا ہونے والے ٹھوس ذرات ہے جنہیں پارٹیکل میٹیریلز کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم کے ذرات انہی ذرائع سے پیدا ہونے والی مائع یا گیس کی حالت میں ہوتے ہیں اور فضا ئی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔
مضر ذرات سموگ کا باعث کیسے بنتے ہیں؟
سائنسی تحقیق کے مطابق گاڑیوں، فیکٹریوں اور کوئلے کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھویں میں موجود مختلف گیسیں اور مادے زمین پر اوزون گیس بنانے کا سبب بنتے ہیں۔ اوزون انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر گیس ہے۔
عام حالات میں اوزون دوبارہ سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ میں بدل جاتی ہے اور زمین کے قریب جمع نہیں ہوتی۔
لیکن زیادہ نمی، ہوا کی کم رفتار اور 20 سے 24 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت جیسے فضائی اور موسمیاتی عوامل کی وجہ سے اس میں موجود آلودہ ذرات اور گیسیں اسی حالت میں فضا میں معلق ہوجاتے ہیں۔
سموگ میں موجود چھوٹے ذرات میں سب سے خطرناک پی ایم 2.5 ہے، یہ ذرات بھی گاڑیوں، فیکٹریوں اور گھروں میں استعمال ہونے والے ایندھن، فصلوں کی باقیات کو جلانے سے بنتے ہیں۔
پی ایم 2.5 اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ انسانی آنکھ ان کو ںہیں دیکھ سکتی کیوں کہ یہ حجم میں انسانی بال سے بھی 30 گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔
ان ذرات کی ہوا میں مقدار عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن کے مطابق سالانہ اوسط پانچ جبکہ تین سے چار روز تک کی اوسط 15 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
مطلب یہ ہے کہ 2.5 مائیکرومیٹر حجم کے ذرات ایک کیوبک میٹر ہوا (ایسا ڈبہ جو چاروں اطراف میں ایک میٹر ہو، یعنی تقریبا ایک ریفریجریٹر کا سائز)میں 15 مائیکرو گرام سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔
لیکن لاہور میں 14 نومبر کو ان ذرات کی مقدار 631.7 تک ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح دو نومبر سے 15 نومبر تک یہ مقدار کسی دن بھی214.7 سے کم نہیں ہوئی۔
یہیں چراغ جلے تھے دھواں کہاں جائے
حکومت پنجاب کے محکمے اربن یونٹ کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں ٹرانسپورٹ، انڈسٹری، فصلوں کی باقیات اور کوڑے کو جلانے کے ساتھ کاروباری اور گھریلو ذرائع آلودہ ذرات اور گرین ہاؤس گیسز کا باعث بنتے ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اوزون، نائٹرس آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن اور پانی کے بخارات شامل ہیں۔ پانی کے بخارات کو گرین ہاؤس گیس میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ یہ درجہ حرارت کی تبدیلی پر ان گیسوں کے ساتھ مل کر ان کا اثر بڑھاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹ سیکٹر کا آلودگی میں حصہ 83.15 فیصد ہے، انڈسٹری 9.7، زراعت 3.9 اور کوڑےجلانے سے 3.6 فیصد آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ کمرشل اور گھریلو ذرائع 0.14 اور 0.11 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کا شعبہ لاہور کی فضائی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اربن یونٹ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ 2011ء سے لے کر اب تک پچھلے 13 سالوں میں لاہور میں گاڑیوں کی تعداد میں تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
2011ء میں شہر میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 90 ہزار تھی جو ایکسائز ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے مطابق بڑھ کر اب ساڑھے 73 لاکھ ہوچکی ہے، یہ صوبے میں کل گاڑیوں کا 31 فیصد ہیں۔
ڈاکٹر کرن سراج بھی تائید کرتی ہیں کہ لاہور میں ٹریفک کا بہت زیادہ دباؤ سموگ کی مقدار بڑھاتا ہے۔
گاڑیوں کے تعداد زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ تیزی سے ہوتی ہوئی اربنائزیشن ہے، جس سے ناصرف گاڑیوں کی تعداد بلکہ تعمیرات میں بھی اضافہ اور سبز ے میں کمی آئی ہے۔
پچھلے 30 سالوں میں لاہور کے سبز رقبے میں 392.78 مربع کلومیٹر کمی آئی ہے، جو کہ تقریباً 97 ہزار ایکڑ کے برابر بنتی ہے۔ اسی دوران تعمیر شدہ رقبہ 113.85 مربع کلومیٹر بڑھا ہے، جو تقریباً 28 ہزار ایکڑ کے برابر ہے۔
شہر میں گرد و غبار، تعمیراتی میٹریل سے اڑنے والے ذرات اور گیسیں فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی اربنائزیشن دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی ایک اہم وجہ ہے۔ تاہم وسیع گرین ایریاز فضائی آلودگی میں کمی لاتے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کے بعد لاہور میں آلودگی کا دوسرا بڑا سبب صنعتیں ہیں۔
لاہور میں رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد 2015ء تک چار ہزار 800 اور بھٹوں کی تعداد 230 تھی۔ زیادہ تر فیکٹریوں اور بھٹوں میں دھویں کو صاف کرنے والے بفرز نہیں لگے ہوئے اور وہ رہائشی علاقوں کے 20 کلومیٹر کے فاصلے کے اندر واقع ہیں۔ان کے ساتھ لوکل کول اور گیس پر چلنے والے پاور پراجیکٹ بھی سموگ کا سبب ہیں۔
بڑھتی ہوئی گاڑیاں، اربنائزیشن، آبادی اور صنعتیں تو دنیا کے کئی شہروں میں بھی ہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی یہ تمام عوامل کار فرماء ہیں مگر سموگ کی شدت میں لاہور، دہلی ہی سرفہرست کیوں ہیں؟
جب فضائی آلودگی ان شہروں کے جغرافیائی محل و قوع اور مخصوص موسمیاتی عوامل سے مل جاتی ہے تو حالات سموگ کے لیے مزید سازگار ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں کچھ قدرتی عوام کو سمجھنا ہوگا۔
ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کیے بغیر - ٹمپریچر انورژن
درجہ حرارت کا پلٹنا یا ٹمپریچر انورژن کی موسمیاتی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے اس اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ عمومی حالات میں گرم ہوا زمین سے اوپر اٹھتی ہے اور زمین پر پیدا ہونے والے مضر صحت ذرات کو فضا میں بکھیرتی رہتی ہے۔
گرم ہوا بلا روک ٹوک اوپر جاتی رہے تو زمینی سطح کے قریب سرد ہوا اس کی جگہ لیتی رہتی ہے، اس عمل کو ہوا کا چلنا کہتے ہیں۔ ہوا کی رفتار جس قدر تیز ہوگی وہ اسی تیزی سے اوپر اٹھتی رہے گی اور ٹھنڈی ہوا اسی تیزی سے اس کی جگہ لیتی رہے گی۔
سردیوں کے آنے پر درجہ حرارت بتدریج گرتا ہے تو زمین کے قریب والی ہوا جلد ٹھنڈی ہوجاتی ہے لیکن اوپر والی ہوا قدرے گرم رہتی ہے۔ اسی دوران ہوا میں موجود ذرات گرم اور سرد ہوا کے درمیان پھنس کر معلق ہوجاتے ہیں اور ان کی وسیع تہہ بن جاتی ہے۔سموگ کی چادر ٹھنڈی ہوا اوپر کی گرم ہوا کے درمیان تن جانے سے ہوا چلنے کے امکانات مزید کم ہوجاتے ہیں۔یہ عمل ٹمپریچر انورژن کہلاتا ہے۔
دلی نزدیک است
لاہور اور دہلی ایسے مقام پر واقع ہیں جہاں شمال سے آنے والی ہواوں کے راستے میں کوہ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ رکاوٹ بنتا ہے جس کی وجہ سے یہاں ان کی رفتار شدید کم ہوجاتی ہے۔
ہوا کی کوالٹی ماپنے والے ادارے آئی کیو ایئر کے مطابق سموگ کی شدت والے دنوں میں لاہور میں ہوا کی رفتار 7.2 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے کم رہی ہے، 14 نومبر کو جس دن ایئر کوالٹی انڈکس 11 سو سے اوپر تھا اور ہوا میں آلودہ ذرات(پی ایم 2.5) کی مقدار 631 تھی اس دن لاہور میں ہوا کی رفتار 3.4 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی۔
سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ 7.2 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے کم رفتار کی ہوا فضائی آلودگی کی شدت کو بڑھا دیتی ہے۔
سموگ کی چادر کو بکھیرنے کے لیے ہوا کی سازگار رفتار10 سے 18 کلومیٹر کے درمیان ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر کرن سراج لاہور، ملتان، فیصل آباد یا دہلی کو درپیش سموگ کے مسئلے کی دوسری اہم وجہ ہوا کی سمت کو بھی بتاتی ہیں۔
"ہوائیں مختلف اطراف سے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں، تاہم ان کی سمت ایسی ہوتی ہے کہ وہ باہر کی جانب نکلنے کے بجائے مخصوص جگہ پر چکر کاٹتی رہتی ہیں۔ ان کے ساتھ آلودگی پیدا کرنے والی گیسیں اور ذرات بھی ایک ہی جگہ گھومتے رہتے ہیں۔
درجہ حرارت میں اضافہ
سموگ کی چادر میں پھنسے مضر صحت ذرات اور گیسوں کی "رہائی" کے لیے ضروری ہے کہ اوپر والی ہوا قدرے ٹھنڈی ہوجائے یا پھر اس کی حرکت تیز ہوجائے۔
ایشین ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق پچھلے 50 سال میں پاکستان کے سالانہ اوسط درجہ حرارت میں 0.5 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور گرم موسم کا دورانیہ بھی زیادہ ہوگیا ہے۔
وفاقی محکمہ موسمیات کی حالیہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اکتوبر 2024ء پاکستان کی تاریخ کا گرم ترین اکتوبر تھا۔
ملک میں اس ماہ کا اوسط درجہ حرارت 23.59 سینٹی گریڈ ہے لیکن اکتوبر 2024ء میں درجہ حرارت 25.46 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو معمول سے 2.48 سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ اسی طرح نصف نومبر تک دن کا درجہ حرارت 20 اور24 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے، درجہ حرارت کا کم نہ ہونا زمینی اوزون اور آلودہ ذرات کو قید کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتا ہے۔
بارش میں کمی
سموگ کو کم کرنے میں ہوا کی تیز رفتاری کے ساتھ بارش کا ہونا بھی مدد گار ہوتا ہے کیونکہ بارش ہوا میں معلق آلودہ ذرات کو زمین پر بیٹھا دیتی اور فضا کو صاف کرتی ہے، اس کے علاوہ زمینی اوزون میں مقید گرین گیسوں کو ختم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟
لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ رواں سال اکتوبر میں بارش بھی اوسط سے 40 فیصد تک کم ہوئی، پنجاب میں اس مہینے بارش کی اوسط مقدار 8.1 ملی میٹر ہے لیکن اکتوبر 2024 میں صرف 4.8 ملی میٹر ہی بارش ریکارڈ کی گئی۔
حل کیا ہے؟
ڈاکٹرکرن سراج کا کہنا ہے کہ مسئلے کا فوری حل ممکن نہیں، لیکن مختصر مدتی منصوبے اس میں کمی لا سکتے ہیں۔
"مثال کے طور پر2020 میں کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران صنعتی اور گاڑیوں کی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے پی ایم 2.5 ذرات میں تقریباً 50 فیصد کمی ہوئی تھی۔"
وہ کہتی ہیں کہ صنعتیں بند اور گاڑیاں کم استعمال ہوں گی تو آلودگی میں کمی آئے گی، لیکن اس سے معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے معیشت پر منفی اثر نہ پڑے، جیسے سمارٹ لاک ڈاؤن، جسے دیگر ممالک میں کامیابی سے اپنایا گیا ہے۔
"پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ لوگ اپنی گاڑیوں کے بجائے اس پر سفر کریں۔ شہری منصوبہ بندی میں پیدل چلنے والوں کے لیے محفوظ راستے، درختوں کا سایہ، اور دیگر سہولیات فراہم کرنی ہوں گی تاکہ لوگ زیادہ فاصلے تک پیدل چل سکیں۔"
وہ کہتی ہیں کہ اس مسئلے سے مستقل نمٹنے کے لیے فوسل فیول سے چلنے والے پلانٹس کو قابل تجدید توانائی میں تبدیل کرنا، کاربن اخراج کے قوانین سخت کرنا، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا، اور کسانوں کو فصل کی باقیات کے بہتر استعمال کے لیے تربیت دینا ضروری ہے۔
تاریخ اشاعت 28 نومبر 2024