"چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زراعت مہنگی ہو گئی ہے، میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی مگر حالات اس طرف لے جا رہے ہیں"

postImg

راجہ نصرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"چھوٹے کاشت کاروں کے لیے زراعت مہنگی ہو گئی ہے، میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی مگر حالات اس طرف لے جا رہے ہیں"

راجہ نصرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

آج سے 30 سال پہلے 1993ء میں جب شمیم بی بی کے شوہر کا انتقال ہوا تو دو بیٹیوں کی کفالت کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ اس وقت ان کی ایک بیٹی کی عمر پانچ سال اور دوسری کی ایک سال تھی۔ شمیم بی بی پڑھی لکھی نہیں ہیں اور ان کے پاس سوائے کھیتی باڑی کے، جو وہ اپنے والد کے ساتھ شادی سے پہلے کرتی رہی تھی،  کوئی ہنر نہیں تھا۔

پنجاب کے شمالی ضلع گجرات کے نواحی گاؤں بھوتہ سے تعلق رکھنے والی 63 سالہ شمیم بی بی کے بقول زکوٰۃ و صدقات لینا انہیں اور ان کے خاندان کو قبول نہ تھا اس لیے والد نے ایک ایکڑ زمین دے دی جس پر کاشت کاری سے ناصرف اپنی بیٹیوں کو انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دلوائی بلکہ ان کی شادیاں بھی کر دی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنی زمین پر سردیوں میں گندم اور گرمیوں میں باجرے کی فصل کاشت کرتی تھیں، ساتھ میں تھوڑا بہت سبز چارہ۔ اس کے  ساتھ انہوں نے ایک بکری  پال رکھی تھی پھر گائے لے لی، دودھ سے گھر کے کچھ اخراجات چلنے لگے۔ گندم کا کچھ حصہ اور باجرے کی فروخت سے بچیوں کے کپڑوں، جوتوں اور تعلیم کے اخراجات نکل آتے تھے۔

"وہ بھلا زمانہ تھی، اس وقت نہ فصلوں پر اتنے زیادہ اخراجات تھے اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں اتنی زیادہ مہنگی تھیں۔"

وہ کہتی ہیں کاشت کاری بے شک بہت محنت طلب کام ہے اور خصوصاً ایک عورت کے لیے تو بہت ہی مشکل، لیکن اسی کاشت کاری نے انہیں ناصرف کسی کا محتاج ہونے سے بچایا بلکہ علاقے بھر کے لوگ انہیں عزت کی نگاہ دیکھتے ہیں۔

"لیکن اب کاشت کاری بہت مہنگی ہوگئی ہے، میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتی مگر حالات اس طرف  لے جا رہے ہیں۔"

وہ بتاتی ہیں کہ ان جیسے کاشت کاروں کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی ایسی سکیم نہیں جس کے تحت چھوٹے کاشتکار کو سستا بیج، سستی کھاد یا بلاسود قرضہ میسر ہو سکیں۔

دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان ضلع گجرات کا زرخیز زرعی علاقہ ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق اس ضلع میں کل زیر کاشت رقبہ پانچ لاکھ 81 ہزار 495 ایکڑ ہے۔ جس میں سے دو لاکھ ایک ہزار 182 غیر آب پاش ہے۔ آب پاش علاقوں میں میں گندم اور چاول کی فصلیں بکثرت کاشت کی جاتی ہیں جبکہ غیر آب پاش علاقوں میں گندم کے علاوہ باجرہ کی فصل کثرت کے ساتھ بوئی جاتی ہے۔

قومی ادارہ شماریات کی طرف سے آخری زرعی شماری (ایگری کلچرل سینسز) 2010ء میں ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق گجرات میں ایک ایکڑ رقبے سے کم ملکیت کے حامل کاشت کاروں کی شرح 26 فیصد ہے جو صوبہ پنجاب کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے کیونکہ پنجاب میں 16 فیصد کاشت کار ایسے ہیں جن کے پاس ایک ایکڑ سے کم زرعی رقبہ ہے۔

ضلع گجرات میں 35 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس ڈھائی ایکڑ سے کم اور 20 فیصد کسانوں کے پاس پانچ ایکڑ سے کم زرعی رقبہ ہے۔ جبکہ پورے صوبے میں ڈھائی ایکڑ سے کم رقبے والوں کی شرح 30 اور پانچ ایکڑ سے کم والوں کی 22 فیصد ہے۔

اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ضلع گجرات میں چھوٹے کاشت کاروں کی تعداد صوبے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

گجرات شہر سے 48 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع پنڈ لاہوریاں کے رہائشی 55 سالہ چوہدری امجد علی کا ملکیتی رقبہ ڈھائی ایکڑ ہے جس پر ان کا خاندان سالوں سے کھیتی باڑی کرتا چلا آیا ہے۔ وہ بھی پچھلے 20 سال سے کاشت کار ہیں لیکن اب ان کے بقول ہمت جواب دے چکی ہے۔

" کاشت کاری پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں جبکہ فصل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن بہت کم"۔ اسی لیے وہ اپنی زمین کسی کو کرایے پر دے کر خود محنت مزدور کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ان کے خیال میں ایک دو ایکڑ رقبے کے مالک کاشت کار کو اب شاید اپنی زمینیں بیچ دینی چاہیئں یا پھر انہیں کرایے پر دے کر مزدوری کرنی چاہیے کیوں کہ اس سے تو ان کی دال روٹی نہیں چل سکے گی۔

گجرات کے قصبہ اجنالہ سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ  کاشت کار حاجی غلام رسول دو ایکڑ زرعی رقبے کے مالک ہیں۔چار سال پہلے تک وہ 15 ایکڑ رقبہ ٹھیکے پر لے کر اس پر کاشت کاری کیا کرتے تھے لیکن اب وہ صرف دو ایکڑ ٹھیکے پر لیتے ہیں۔

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ تو فصلوں پر اٹھنےاخراجات میں اضافہ ہے دوسرا جب فصل تیار ہوتی ہے تو مارکیٹ میں اس کے مناسب نرخ نہیں ملتے۔

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ زرعی مداخل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے پورے پاکستان کا کاشت کار مشکل میں ہے لیکن گجرات جیسے وہ اضلاع جہاں پر بہت زیادہ فصلیں کاشت کرنے کی آپشن موجود نہیں ہے وہ بہت ہی زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

" فصلوں کی لاگت میں اضافے نے چھوٹے کاشت کار کو اپنی زمین فروخت کرنے یا کرایے پر دینے پر مجبور کر دیا ہے، یا پھر وہ اپنے گزر بسر کے لیے مال مویشیوں کا سہارا لے رہا ہے"۔

ان کے خیال میں تو خود کو زرعی ملک کہلوانا یا زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دینا کسانوں کے ساتھ مذاق ہے کیوں کہ یہاں پر کسان بھی مشکل میں ہے اور اس کو خریدنے والے صارفین بھی، لیکن ذخیرہ اندوز مافیا کی چاندی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کاشت کار کی نہ تو مدد میں دلچسپی لے رہی ہے اور نہ مارکیٹ کو کنٹرول کرنے پر اس کی توجہ ہے۔ ایک دو ایکڑ رقبے کا کاشت کار تو زرعی بنک سے قرض تک نہیں لے سکتا۔

گجرات میں زرعی ترقیاتی بنک کی طرف سے سال 2023ء میں اب تک کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں کی تفصیل سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس بنک نے جتنے بھی قرض دیے ہیں وہ دو ایکڑ سے زائد رقبے کے حامل کاشت کاروں کو فراہم کیے گئے ہیں۔

گجرات میں زرعی ترقیاتی بنک کے مینجر محمد اعتزاز کے مطابق رواں سال اب تک دو سے پانچ ایکڑ زمین کے مالک کاشت کار کو سات فیصد مارک اپ پر تقریباً چار کروڑ روپے کے قرضے فراہم کیے گئے ہیں جبکہ پانچ ایکڑ سے زائد زرعی رقبے کے حامل کاشت کاروں کو تقریباً 22 کروڑ روپے کے قرض دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق دو سے پانچ ایکڑ رقبے کا مالک کاشت کار 25 لاکھ اور اس سے بڑا کاشت کار 50 لاکھ روپے تک قرض وصول کرسکتا ہے۔

محمد اعتزاز کہتے ہیں کہ زرعی قرضوں کے علاوہ حکومت کسانوں کو زرعی مشینری کی خریداری کے لیے بھی قرض فراہم کر رہی ہے۔

حاجی غلام رسول اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں حکومت کی طرف سے کسانوں کو قرض یا زرعی مشینری کی فراہمی کے لیے سبسڈی دینے کے تمام دعوے غلط اور من گھڑت ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ایک تو چھوٹے کاشت کار کو قرض ملتا ہی نہیں۔ اگر وہ بنک سے رابطہ بھی کرتا ہے تو اس قدر زیادہ شرائط رکھ دی جاتی ہیں جنہیں وہ پوری نہیں کر پاتا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"جدید کاشتکاری اچھی بات ہے لیکن غریب کسان کیا کرے؟"

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر کا بھی یہی ماننا ہے کہ کسانوں کی مدد کے لیے بنک قرض، سبسڈی یا پھر زرعی مشینری پر بلا سود قرض فراہم کرنے کے جتنے بھی اعداد و شمار ہیں وہ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔

"یہاں بنک کم شرح سود پر قرض ان لوگوں کو فراہم کرتے ہیں جو اربوں روپے کا کاروبار یا فیکٹری لگانا چاہتے ہیں لیکن کسان کو اول تو قرض ملے گا ہی نہیں، ملے گا بھی تو اس پر شرح سود بہت زیادہ ہو گی۔

ظہیر عباس گل محکمہ زراعت میں بطور فیلڈ آفیسر کام کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ گجرات میں کم رقبے کے مالک کاشت کاروں کے لیے مہنگے مداخل، فصلوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس ضلع میں چھوٹے کاشت کار کی زمین ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔

وہ اپنی بات کو یوں سمجھاتے ہیں کہ کاغذات میں تو بہت سارے کسان ڈھائی ایکڑ کے مالک ہوں گے لیکن ان میں سے بیشتر کی زمین ایک، ایک دو، دو کنال میں مختلف جگہوں پر بٹی ہوئی ہے۔ دیہات میں زرعی رقبے کا اشتمال(اس کا اکٹھا کیا جانا)  نہایت ضروری ہے۔

"اگر رقبہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے تو  اس پر کاشت کاری کیسے ہو سکتی ہے؟ ایسا  رقبہ ٹھیکہ پر کاشتکاری کرنے والوں کی بھی ترجیح نہیں ہوتا"۔

ان کے خیال میں کاشتکاری میں کم ہوتی آمدن کی ایک وجہ کسان بھی ہیں۔

" بیشتر کسان لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔ انہیں بیجوں اور کھادوں سے متعلق جدید تحقیق سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ دکاندار کے کہنے پہ چلتے ہیں جو انہیں زیادہ منافعے کی غرض سے غیر معیاری بیج اور کھاد بیچ دیتے ہیں"۔

ظہیر یہ بھی مانتے ہیں کہ محکمہ زراعت کے پاس عملے کی کمی ہے، ایک فیلڈ آفیسر کی  نگرانی میں تقریباً 100 دیہات ہوتے ہیں جو ان کے لیے کور کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ان کے مطابق چھوٹے زمیندار  کے لیے پانی  کا حصول مسئلہ ہوتا ہے۔ بقول ان کے  گجرات میں تقریباً 90 فیصد زرعی اراضی کو نہری پانی دستیاب نہیں ہے اس لیے انہیں ٹیوب ویل کا پانی خرید کر لگانا پڑتا ہے جو بہت زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹا کاشت کار پانی یا زرعی مشینری کے حوالے سے ملنے والی حکومتی مراعات سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا کیوں کہ اگر اس کے پاس 25 لاکھ روپے ہوں گے، تو ہی وہ ٹریکٹر خرید پائے گا اسی طرح سولر یا آب پاشی کی دوسری سکمیں بھی ان کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں۔

وہ تجویز دیتے ہیں کہ حکومت ایک یا دو ایکڑ کے کسان کو ہر فصل کے لیے ایک لاکھ روپے تک قرض فراہم کر دے تو اسے سے نہ صرف کسان کی آمدن بڑھے گی بلکہ پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا۔

حاجی غلام رسول چونکہ کئی بار بلدیاتی سطح کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں تو ان کے خیال میں کم رقبے کے مالک کاشت کاروں کو مشکلات سے نکالنے کا حل بھی مقامی حکومتوں کے نظام میں ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایم پی اے یا ایم این اے اسمبلیوں میں کسانوں کے مسائل پر بات نہیں کرتے۔

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر کی نظر میں کم رقبے کے حامل کاشت کاروں کی بقا کے لیے یونین کونسل کی سطح پر کم نرخوں پر کھاد بیج اور دیگر مداخل فراہم کرنا ضروری ہے۔

"اگر کسانوں کی رہنمائی کی جائے کہ وہ اس سال کون سی فصل لگائیں تو بہتر منافع حاصل کر سکتے ہیں، فصل کی انشورنس سے بھی کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکتا ہے"۔

تاریخ اشاعت 2 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کالم نگار اور فیچر رائٹر راجہ نصرت علی ضلع گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.