'میرٹ' کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، کیاسندھ پبلک سروس کمیشن اپنی روش پر قائم رہے گا؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

'میرٹ' کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، کیاسندھ پبلک سروس کمیشن اپنی روش پر قائم رہے گا؟

اشفاق لغاری

سندھ پبلک سروس کمیشن کے زیرنگرانی بلدیاتی افسروں کی بھرتی کے لیے گزشتہ سال ہونے والے امتحان کے نتائج پر ابھی احتجاج جاری تھا کہ دو ہفتے قبل 20 فروری کو سیکنڈری سکول ٹیچرز( مرد۔گریڈ 16) کے امتحان کا پرچہ آؤٹ ہو گیا اور یہ پیپر ملتوی کرنا پڑا۔

ایس پی ایس سی ترجمان حفظ اللہ کاکا کے مطابق پرچہ آؤٹ ہونے کی اطلاع اس وقت ملی جب حیدر آباد، کراچی، سکھر اور لاڑکانہ کے امتحانی مراکز میں 40 ہزار امیدوار پیپر دینے کے لیے امتحانی مراکز میں بیٹھے تھے۔

صوبائی محکموں میں بھرتیوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور ان کے نتائج اکثر زیر بحث رہتے ہیں۔ 2003ء اور 2020ء کے مقابلے کے امتحانات (کمبائنڈ کمپیٹٹو ایگزامینشن) کے نتائج پر ہائیکورٹ کو تحقیات کا حکم دینا پڑا تھا۔

رواں سال بھی ایس پی ایس سی نے اپنی یہ روایت برقرار رکھی ہے۔

پیپر ملتوی ہونے پر ہزاروں امیدواروں نے حیدر آباد میں کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر اور صوبہ بھر میں احتجاج شروع کر دیا۔ جس کے بعد اسی روز سیکرٹری ایس پی ایس سی نذیر قریشی کی جانب سے تین تین گھنٹے کے وقفے سے اعلامیے جاری ہوتے رہے۔

پہلے اعلامیہ میں پرچہ ملتوی ہونے اور دوسرے میں اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات زین العالم، دو سینئر کمپیوٹر آپریٹرز سجاد احمد چاولی، احسان ظہیر ابڑو اور پانچ نائب قاصدوں کو معطل کرنے کی اطلاع دی گئی۔

 اگلے اعلامیے میں پرچہ آؤٹ ہونے کی انکوئری کے لیے دو سینئر افسروں رضوان احمد اور محمد حنیف پر مشتمل دو رکنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا اور بتایا گیا کہ اس کمیٹی کو 24 گھنٹے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

چوتھے اور اس روز کے آخری اعلامیے میں پرچہ آؤٹ ہونے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کرانے اور ملتوی ہونے والا پیپر اپریل میں لینے کا اعلان شامل تھا۔

پرچہ آؤٹ ہونے کی محکمانہ انکوائری رپورٹ تو نہیں آئی البتہ تین روز بعد ایس پی ایس سی شعبہ امتحانات کے کنٹرولر عبد الحفیظ لغاری کی طرف سے آٹھ معطل ملازمین کے خلاف تھانہ جی او آر میں مقدمہ درج کرا دیا گیا۔

ایف آئی آر میں اسسٹنٹ کنٹرولر زین العالم کھوڑو کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے جو آؤٹ ہونے والے پرچے کے کسٹوڈین تھے۔

 ایس ایچ او جی او آر اعجاز لاکھو کہتے ہیں کہ پولیس مرکزی ملزم کا موبائل فون پہلے ہی ایف آئی ای سائبر کرائم سرکل حیدر آباد کو بھیج چکی ہے۔ انہیں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نعیم اللہ مہر سے بھی تفتیش کرنی ہے جنہوں نے سب سے پہلے پرچہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے شیئر کیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق مرکزی ملزم زین العالم حکمران جماعت کی ایک سیاسی شخصیت کے عزیز ہیں جن کی وجہ سے حکام نے ملزم کو دفتر سے باہر جانے کا موقع فراہم کیا اور اب وہ روپوش ہیں۔

ایس ایس پی حیدر آباد امجد شیخ بتاتے ہیں کہ پولیس کو اسسٹنٹ کنٹرولر زین العالم کے موبائل فون سے پرچہ آؤٹ کرنے کے شواہد ملے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ دیگر سات ملازمین سے تفتیش کے دوران پولیس کو کوئی سراغ نہیں ملا۔

پاکستان میں تعلیمی بورڈز کے پرچے آؤٹ ہونے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن بپلک سروس کمیشن  جیسے ادارے کا پپیپر آؤٹ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایس پی ایس سی کے امتحانی نتائج تنازعے کا شکار ہوتے ہیں۔

تینتیس سالہ غلام مرتضیٰ شاہ ضلع سجاول کے شہر دڑو کے رہائشی ہیں جنہوں نے مکینکل انجنیئرنگ میں ماسٹر ڈگری کر رکھی ہے۔ وہ ایس پی ایس سی کے زیرنگرانی میونسپل افسر (گریڈ-17) اور ٹاؤن افسر (گریڈ-16) کے مئی 2023ء میں ہونے والے امتحان میں امیدوار تھے۔ تاہم وہ ناکام رہے اور اب سندھ ہائیکورٹ میں اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے امتحان میں 100 میں سے 80 نمبر لیے مگر انہیں انٹرویو میں 100 میں سے صرف 33 نمبر دیے گئے۔ اسی طرح ان کے ساتھی پٹیشنر اور چھاچھرو تھر کے گاؤں سوبھی جوتڑ کے رہائشی زاہد راہموں نے تحریری امتحان میں 93 نمبر لیے اور انہیں بھی انٹرویو میں 17 نمبر دے کے فیل کر دیا گیا۔

غلام مرتضیٰ شاہ کہتے ہیں کہ انٹرویو بس رسمی کارروائی تھی جس میں صرف والدین اور بہن بھائیوں سے متعلق پوچھا گیا جبکہ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ایک دو سوال کیے گئے۔ یعنی گریڈ17 کی نوکری کے لیے پورا انٹرویو کل ملا کر تین منٹ کا بھی نہیں تھا۔

"ہم پانچ امیدواروں نے اکتوبر میں میونسپل افسر کے نتائج کو ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ تاہم فروری میں جب ٹاؤن افسر(گریڈ16) کے نتائج آئے تو ہم پانچوں کو کامیاب قرار دے دیا گیاجن میں مجھے ٹاؤن افسر کے تحریری امتحان میں 75 اور انٹرویو میں 65 نمبر ملے ہیں"۔

ایس پی ایس سی کے مطابق میونسپل افسر کے لیے ایک لاکھ پانچ ہزار 748 امیدواروں نے امتحان دیا تھا جن میں سے ایک ہزار 440 تحریری امتحان پاس کر سکے۔ صرف 418 امیدوار انٹرویو میں پاس ہوئے جنہیں تعیناتی کے لیے موزوں قرار دیا گیا۔ اس طرح محکمے کی کل 464 خالی اسامیوں سے 46 اب بھی رہ گئی ہیں۔

غلام مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف اسامیوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت سات بار تحریری امتحان پاس کیا ہے مگر انٹرویو میں فیل کیا جاتا رہا۔ اسی وجہ سے ان کا تو میرٹ سے یقین ہی اٹھ گیا ہے۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے ایک سابق کنٹرولر امتحانات نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوکریوں کے لیے اشتہار آتے ہی 'سیاسی پہنچ' اور پیسے والے تعلقات استعمال کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ چیئرمین ایس پی ایس سی کو وزیر اعلیٰ ہاؤس سے آنے والی لسٹوں پر جوں کا توں عمل کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ انتظامی عہدے اور ریونیو، اینٹی کرپشن، آبپاشی، بلدیات پولیس اور پبلک ہیلتھ انجنیرنگ جیسے محکموں کی پوسٹیں مہنگے داموں بکتی ہیں۔ کم سے کم ریٹ 25 لاکھ روپے ہے جو گریڈ 17 کی لیکچرار کی پوسٹ کا ہوتا ہے جبکہ کچھ نوکریاں دو کروڑ روپے تک بکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چیئرمین ایس پی ایس سی اور دو تین بااثر ارکان اور کنٹرولر سب کچھ منیج کرتے ہیں۔ان میں کنٹرولر کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جوابی کاپیاں تبدیل کر کے نمبر بڑھائے جاتے ہیں اور اگر پرچے میں ایم سی کیوز زیادہ ہوں تو منیج کرنا آسان ہوتا ہے۔ میونسپل افسروں کے کامیاب امیدواروں کے پیپروں کا فارینزک کرایا جائے تو سب کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔

ان الزامات پر موقف کے لیے چیئرمین ایس پی ایس سی محمد وسیم اور ترجمان حفظ اللہ کاکا سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر جواب نہیں ملا۔ آخر کار ترجمان نے سوالات بھیجنے کو کہا جن کو واٹس ایپ پر سوالات بھیجے گئے مگر تین روز انتظار کے بعد رابطہ کرنے پر انہوں نے نے کال اٹینڈ کرنا ہی بند کر دی۔

 محمد سلیم شیخ اب گریڈ 20 میں ڈائریکٹر جنرل زراعت تعینات ہیں جنہوں نے 2003ء کے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی تھی، تب ان کی عمر 26 سال تھی۔ تاہم نتائج آنے پر انہوں نے اس وقت ایس پی ایس سی کے خلاف ہائیکورٹ میں کیس کر دیا تھا جس کا فیصلہ 13 فروری 2020ء کو ان کے حق میں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کام وہ آن پڑا ہے جو بنائے نہ بنے: بلوچستان میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان دینے والے امیدواروں کی مایوس کن پریشانی

عدالت عالیہ کے فیصلے میں چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی گئی وہ تین سینئر ترین عہدیداروں پر مشتمل تین رکنی کمیشن تشکیل دیں جو جامع تحقیقات کرے کہ 2003ء کے سی سی ای امتحان میں فیل ہونے والے امیدواروں کو کیسے نوکریاں دی گئیں؟

عدالت عالیہ نے امتحان کو زیادہ وقت گذر جانے کے حوالے سے قرار دیا کہ 'اب پلوں کے نیچے بہت پانی گذر چکا ہے اس لیے کوئی راستہ تجویز کیا جائے کہ اہل امیدواروں کے ساتھ انصاف ہو سکے'۔

محمد سلیم شیخ بتاتے ہیں کہ 2003 ءکے امتحان میں انہیں 726 نمبر دیے گئے تھے جس سے وہ پاس تو ہو گئے مگر انہیں کوئی گروپ ایلوکیٹ نہیں کیا گیا یعنی کوئی شعبہ نہیں ملا۔

وہ کہتے ہیں 2003ء کے امتحان کے نتائج پر جب زیادہ شور ہوا تو پبلک سروس کمیشن نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی جس کے ایک رکن ابرار مرزا نے انتہائی مثبت کردار ادا کیا تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کامیاب قرار دیے گئے 77 امیدواروں میں سے 51 کے مارکس ردو بدل کر کے بڑھائے گئے تھے۔ ان میں اس وقت کے چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن کے صاحبزادے بھی شامل تھے۔

سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی یہ رپورٹ اور دیگر شواہد ہائیکورٹ میں پیش گئے تھے۔ طویل قانونی جنگ لڑنے کے بعد فیصلہ آیا مگر اس پر آج تک عمل نہیں ہوا نمبروں میں ردو بدل کے ذریعے کامیاب قرار پانے والے آج گریڈ 19 کے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں۔

ایسا ہی مقابلے کے امتحان 2020ء میں ہوا جس کے نتائج کو امیدواروں نے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے انہیں سلیم شیخ کی طرح انصاف کے لیے طویل انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کو معاملے کی انکوئری کا حکم بھی دیا تھا۔

انکوئری میں ایس پی ایس سی شعبہ امتحانات کے گریڈ 19 کے دو افسرون ہادی بخش کلہوڑو اور شوکت اجن پر جوابی کاپیاں میں تبدیلی، مارکس بڑھانے اور جعل سازی سے امیدواروں کو پاس کرنے الزامات ثابت ہوئے۔ جس کے بعد تین ماہ قبل دسمبر 2023ءمیں ان دونوں افسروں کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔

تاریخ اشاعت 6 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.