سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں نئی ترمیم: غیر منتخب افراد بھی میئر کا الیکشن لڑ سکتے ہیں

postImg

اشفاق لغاری

postImg

سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں نئی ترمیم: غیر منتخب افراد بھی میئر کا الیکشن لڑ سکتے ہیں

اشفاق لغاری

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں نے حلف اٹھا لیا ہے اور اب ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہونا ہے۔

انتخابات میں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بڑی جماعتوں کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں تاہم تینوں ہی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ اب اول الذکر دونوں جماعتیں اپنے امیدوار کو میئر منتخب کرانے کے لئے دوسری جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

کراچی کی کونسل شہر کی 246 یونین کونسلوں کے منتخب چیئرمینوں پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ کونسل میں خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں، مزدوروں، معذوروں اور ٹرانس جینڈر افراد کی 121 مخصوص نشستوں پر بالواسطہ منتخب ہونے والے ارکان بھی شامل ہیں۔ اس 367 رکنی ایوان کو اب میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرنا ہے۔

تاہم 12 مئی کو سندھ اسمبلی نے صوبے کے بلدیاتی قانون میں ایک ترمیم منظور کی ہے جس کے مطابق کوئی غیرمنتخب فرد (یعنی 367 ممبران کے علاوہ) بھی شہر کا میئر یا ڈپٹی میئر بن سکتا ہے لیکن اسے عہدہ سنبھالنے کے بعد چھ ماہ میں کسی حلقے سے انتخاب جیت کر ایوان میں آنا ہو گا۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن بھی میئرشپ کے امیدوار ہیں۔ وہ حالیہ انتخابات میں نارتھ ناظم آباد ٹاؤن سے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ وہ حالیہ ترمیم کو بددیانتی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کرتے ہیں کہ انتخابی عمل کے آخری مرحلے میں یہ کام کسی اچھی نیت سے نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب جو فرد پہلے ہی میئر کے عہدے پر ہو تو اس کا اپنے انتخاب میں سرکاری وسائل اور اختیارات کا استعمال کا امکان زیادہ ہو گا۔

حافظ تسلیم کرتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے ان کی جماعت نے بھی حکومت سے کہا تھا کہ غیرمنتخب فرد کو بھی میئر بننے کی اجازت ہونی چاہئیے تاہم اس وقت سندھ حکومت نے ان کے نقطہ نظر کو اہمیت نہیں دی تھی۔

بلدیاتی قانون میں کی جانے والی یہ تبدیلی 2001ء اور 2005ء والے بلدیاتی نظام سے مماثلت رکھتی ہے جس میں غیرمنتخب فرد کو بھی شہر کا میئر (ناظم) منتخب ہونے کا حق حاصل تھا اور ان دونوں ادوار میں کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال کا انتخاب اسی طرح عمل میں آیا تھا۔

سندھ حکومت کے ترجمان اور وزیر قانون مرتضیٰ وباب کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے قانون کو پرانی صورت میں بحال کیا ہے اور یہ ترمیم ملکی آئین سے مطابقت رکھتی ہے جس کے مطابق کوئی فرد منتخب ہوئے بغیر بھی وفاقی یا صوبائی وزیر بن سکتا ہے تاہم اسے چھ ماہ کے اندر قومی یا صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت لینا ہو گی۔

سندھ کی سیاسی جماعت عوامی تحریک کے کارکن اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں قمبر۔شہدادکوٹ کی ٹاؤن کمیٹی وارہ سے نومنتخب رکن کامریڈ سرتاج چانڈیو کا کہنا ہے یہ ترمیم غیر جمہوری ہے اور منتخب نمائندوں کی حق تلفی اور عوام کے ووٹ کی توہین ہے۔

وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس ترمیم کے ذریعے پیپلزپارٹی اپنے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ہی بلدیاتی نظام میں تمام اہم عہدے دینا چاہتے ہے۔

تاہم آئینی ماہر اور سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں ہونے والی اس ترمیم کو آئین کی رو سے درست سمجھتے ہیں۔

 

ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 9 کے مطابق کوئی وزیر اسمبلی کی رکنیت لئے بغیر چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک وزیر نہیں رہ سکتا اور جب تک اسمبلی کی مدت باقی ہو وہ منتخب ہوئے بغیر دوبارہ وزیر نہیں بن سکتا۔

ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے سابق میئر نعمت اللہ کسی یونین کونسل کے رکن نہیں تھے۔ اسی طرح خیرپور میرس میں ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور نواب شاہ میں فریال ٹالپر کو پیپلز پارٹی نے ضلعی ناظم بنایا جبکہ وہ کسی یونین کونسل سے منتخب ہوکر نہیں آئی تھی۔

صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے علاوہ 36 دیگر شہروں کی میونسپل کارپوریشنیں ہیں، 22 اضلاع کی ڈسٹرکٹ کونسلیں، 45 تحصیلوں کی ٹاؤن میونسپل کونسلیں اور 143 ٹاؤن کمیٹیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے: خیبرپختونخوا کی مقامی حکومتوں کے اختیارات کیوں واپس لے لیے گئے؟

بلدیاتی قانون میں ترمیم کے بعد غیرمنتخب افراد ان سب کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہو سکیں گے۔

اس مقصد کے لئے ایوان میں موجود ارکان ہاتھ کھڑا کر کے اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گے۔

ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ اس ترمیم سے جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر کہیں کسی غیرمنتخب فرد کو چھ ماہ کے لئے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا وائس چیئرمین کے عہدے پر منتخب کیا جاتا ہے تو اس عرصہ میں اس کی کارکردگی بھی سامنے آ جائے گی اور جب وہ اپنے انتخاب کے لئے عوام سے رجوع کرے گا تو ان کے لئے اسے پرکھنا اور اسے منتخب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا آسان ہو گا۔

تاریخ اشاعت 30 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.