محمد عامر میانوالی شہر سے 40 کلو میٹر دور گاؤں رکھی کے رہائشی ہیں۔ وہ قریب ہی واقع سرکاری ایسوسی ایٹ کالج بن حافظ جی میں ایف ایس سی (پری انجینئرنگ) کر رہے ہیں۔ ان کے والد علی محمد خان محنت مزدوری کرتے ہیں جو عامر سے چھوٹے تین بچوں کو بھی پڑھا رہے ہیں۔
علی محمد خان نے بڑے بیٹے کو قریبی سرکاری ادارے میں اسی لیے داخل کیا تھا کیوںکہ وہ ان کے روزانہ میانوالی آنے جانے یا پرائیویٹ کالج میں تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مگر آج کل محمد عامر سخت پریشان ہیں۔
انہیں فکر لاحق ہے کہ سیکنڈ ائر کے امتحان سر پر ہیں اور انہوں نے ابھی تک آدھے مضامین ہی پڑھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اساتذہ پڑھاتے نہیں، بلکہ ان کے کالج میں سائنس مضامین کے اساتذہ ہی نہیں ہیں۔
عامر بتاتے ہیں کہ پچھلے سال جب انہوں نے سال اول میں داخلہ لیا تو اس وقت کالج میں پڑھانے کے لیےعارضی بنیاد پر کچھ اساتذہ رکھے گئے تھے جنہوں نے سال کے اختتام تک کورس مکمل کرا دیا تھا۔
"سیکنڈ ائر میں نہ تو کوئی نیا مستقل لیکچرر تعینات ہوا اور نہ ہی کوئی عارضی ٹیچر رکھا گیا۔ ہمارا سیشن ختم ہونے کے قریب ہے مگر ابھی تک تینوں سائنس مضامین یعنی فزکس، کیمسٹری اور میتھ کا ٹیچر نہیں ملا جس کی وجہ سے ہمارا کورس شروع ہی نہیں ہو پایا"۔
عامر بتاتے ہیں کہ ان کی طرح دیگر طلبا کے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ انہیں پورا سال ضائع ہونے کا خوف ہے۔
ضلع میانوالی کے ایسوسی ایٹ کالج بن حافظ جی میں لیکچراروں کی 24 منظور شدہ اسامیوں میں سے 19 خالی پڑی ہیں جبکہ باٹنی، زوالوجی، فزکس، کیمسٹری، میتھ، اکنامکس، شماریات جیسے مضامین کا کوئی ٹیچر میسر نہیں ہے۔
اس کالج میں سائنس کے 137 اور آرٹس کے سیکڑوں بچوں کو پڑھانے کے لیے پرنسپل سمیت صرف پانچ اساتذہ تعینات ہیں۔
یہی صورت حال تحصیل عیسیٰ خیل میں گورنمنٹ ایسوسی کالج (بوائز) کالا باغ کی ہے۔
اس کالج میں 22 منظور شدہ اسامیوں پر صرف چار اساتذہ کام کر رہے ہیں جبکہ سائنس مضامین پڑھانے کے لیے ایک بھی ٹیچر دستیاب نہیں ہے۔
میانوالی کے بیشتر گرلز سرکاری کالج بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔
گورنمنٹ ایسو سی ایٹ کالج برائے خواتین موسیٰ خیل میں سائنس کی 240 طالبات ہیں جبکہ میتھ، بیالوجی، فزکس، کیمسٹری، کمپیوٹر، اکنامکس اور شماریات کی سیٹوں سمیت 11 لیکچراروں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے تحت ضلع میانوالی میں کل 18 کالج کام کر رہے ہیں جن میں سے 15جنرل کیڈر اور تین کامرس کیڈر میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ان تمام میں منظور شدہ اسامیوں کی مجموعی تعداد 400 سے زائد ہے جبکہ ان کالجوں میں صرف 241 اساتذہ کام کررہے ہیں۔
کل 241 اساتذہ میں سے بھی زیادہ تر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کے بڑے کالجوں یعنی گریجوایٹ کالج فار بوائز اور گریجوایٹ کالج برائے خواتین میانوالی میں تعینات ہیں۔
دیگر 16کالجز میں سے کوئی ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں تمام مضامین کے اساتذہ موجود ہوں اور سائنس کے لیکچراروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
محکمہ ہائر ایجوکیشن کالجوں میں مستقل اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہر سال کالج ٹیچنگ انٹرنز (سی ٹی آئی/ عارضی اساتذہ ) کا تقرر کرتا ہے جنہیں سات سے نو ماہ کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں ماہانہ 45 ہزار روپے وظیفہ (تنخواہ) دیا جاتا ہے۔
سی ٹی آئی اساتذہ میرٹ پر چنے جاتے ہیں جو کسی حد تک ان تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے تعلیمی سال23-2022ء کے لیے صوبے بھر میں تین ہزار 650 سی ٹی آئی اساتذہ بھرتی کیے تھے جن میں سے کچھ صرف پانچ ماہ کے لیے رکھے گئے تھے۔
تاہم اس بار پورے تعلیمی سال کے دوران ایک بھی عارضی استاد تعینات نہیں کیا گیا۔
گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین موسیٰ خیل کی وائس پرنسپل انمول نیازی کو بھی یہی شکوہ ہے کہ حکومت نے رواں سال سی ٹی آئیز کی تعیناتی کے لیے کچھ نہیں کیا جس سے بچوں کی تعلیم متاثر رہی ہے۔
تاہم اسی کالج میں فرسٹ ائیر (پری انجینئرنگ) کی طالبہ سمیرا یاسمین سی ٹی آئیز سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فزکس اور کیمسٹری کی اساتذہ تو ہیں ہی نہیں جبکہ دیگر مضامین کے سلیبس کا کچھ حصہ عارضی ٹیچرز نے مکمل کرایا لیکن جب ان کا طریقہ تدریس طالبات کو سمجھ آنا شروع ہوا تب تک ان کی مدت ملازمت ختم ہو گئی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز میانوالی عزیز اللہ خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت سی آئی ٹیز کی بروقت تعیناتیاں کرتی آ رہی ہے لیکن اس بار نگران حکومت کی عدم توجہی کے باعث سی ٹی آئیز کا تقرر نہیں ہو سکا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سال تمام کالجز کے پرنسپلوں کو خاص طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کالج کے فنڈز میں سے پرائیویٹ اساتذہ رکھ لیں تاکہ بچوں کے کورسز بروقت مکمل ہو سکیں۔
تاہم انمول نیازی کا کہنا تھا کہ کالج کے پاس جو بجٹ آتا ہے اس میں سے 99 فیصد ملازمین کی تنخواہوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ باقی رقم اتنی نہیں ہوتی کہ پرنسپل خود سے اساتذہ رکھ سکیں اور نہ ہی سٹاف اپنی جیب سے پرائیویٹ ٹیچرز ہائر کر سکتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر، کالجوں میں اساتذہ کی کمی کو 'سنگین مسئلہ' قرار دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لیکچراروں کی بھرتی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے جس کا ضلعی یا ڈویژنل کوٹہ نہیں ہوتا اور میرٹ بھی صوبائی سطح پر بنتا ہے۔
مختلف وجوہات (تعلیمی پسماندگی اور امیدواروں کی قلت) کے باعث ضلع میانوالی کے رہائشی افراد بہت کم تعداد میں لیکچرار سلیکٹ ہو پاتے ہیں۔
"دوسرے اضلاع کے لیکچرار ہمارے ضلعے میں تقرری کے خواہشمند نہیں ہوتے بلکہ جو چند مقامی لوگ سلیکٹ ہوتے ہیں وہ بھی میانوالی شہر کے کالجوں کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے تحصیل ہیڈ کوارٹرز تک کے کالجز کی اسامیاں سالہا سال سے خالی ہیں"۔
پرنسپل ایسوسی ایٹ کالج بن حافظ جی پروفیسر عصمت اللہ بتاتے ہیں کہ مستقل اساتذہ کی کمی کے باعث ان کے کالج میں داخلوں کی تعداد ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق پچھلے سال یہاں 125 طلباء نے داخلہ لیا تھا لیکن جب تعلیمی سیشن کے دوران سی ٹی آئز تعینات ہوئے تو انگلش، فزکس اور بیالوجی کے اساتذہ کے تبادلے ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی کے کالجوں میں اساتذہ کی راہ دیکھتے طلبہ اپنے مستقبل سے مایوس ہونے لگے
"رواں سال ہمارے پاس صرف 47 طلباء داخل ہوئے ہیں۔جس سرکاری کالج میں اہم مضامین کے لیکچرار ہی نہ ہوں وہاں کون اپنے بچوں کو داخل کرائے گا"؟
پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن ضلع میانوالی چیپٹر کے صدر پروفیسر حیات خان نیازی بھی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی حکومتی پالیسی سے نالاں ہیں۔
لوک سجاگ سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ایک تو پروفیسروں کی کمی ہے دوسرا غیر واضح پالیسی کے باعث اکثر اوقات سیشن کے دوران ہی اساتذہ کے تبادلے کر دیے جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ کالج میں کسی مضمون کے واحد ٹیچر کو بھی ٹرانسفر کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے سیٹ خالی ہو جاتی ہے اور طلباء کا نقصان بڑھ جاتا ہے۔
" ہمارے ہاں اساتذہ کی کمی اور بے وقت تبادلوں سے نہ صرف سرکاری کالجوں کی ساکھ پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ نظام تعلیم بھی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے"۔
وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان ہی مسائل کی وجہ سے سرکاری کالجوں پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے جس سے طلباء کے داخلوں میں کمی ہو رہی ہے۔
تاریخ اشاعت 26 مارچ 2024