معلومات تک رسائی کے قانون کی خلاف ورزی: سندھ میں کون سے محکمے اور دفتر کے خلاف سب سے زیادہ شکایات ہیں

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

معلومات تک رسائی کے قانون کی خلاف ورزی: سندھ میں کون سے محکمے اور دفتر کے خلاف سب سے زیادہ شکایات ہیں

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

باون سالہ بوٹا امتیاز مسیح حیدرآباد کی سینٹ جوزف کالونی کے رہائشی ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے سرگرم رکن اور شاہ لطیف ہسپتال میں بطور وارڈ سرونٹ ملازم ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 'معلومات تک رسائی کے قانون' کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل '19 اے' کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کے حامل تمام معاملات میں (قانون کے تحت عائد پابندیوں کے مطابق) معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور انہوں نے اپنا یہ حق پوری طرح استعمال کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پچھلے چار سال کے دوران چاروں صوبوں اور وفاقی اداروں سے معلومات لینے کے لیے تین سو سے زائد درخواستیں دی ہیں اور ان میں سے 90 کے جواب بھی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ درخواست بھیجنے کے لیے 'پاکستا ن پوسٹ 'کی رجسٹری سروس استعمال کرتے ہیں اور رسید اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ اسمبلی نے سندھ شفافیت اور معلومات کے حق کا بل (دی سندھ ٹرانسپرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016ء) 13 مارچ 2017ء کو منظور کیا تھا۔ جو گورنر کی منظوری کے بعد 8 اپریل 2017 ء کو قانون بن گیا تھا۔

رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) ایکٹ کہتا ہے کہ صوبے میں اس قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے 'انفارمیشن کمیشن' تشکیل دیا جائے گا اور شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ہر سرکاری ادارہ کم سے کم گریڈ 16 کا ایک افسر مقرر کرے گا۔ جن کا رابطہ نمبر عام کیا جائے گا۔

اس قانون کے تحت شہری کو مطلوبہ معلومات 15 دفتری دنوں کے اندر فراہم کرنا ضروری ہیں۔ اگر یہ معلومات تیار نہ ہوں تو درخواست گذار کو دس روز میں پیشرفت سے آگاہ کیا جا ئے گا۔ مقرر افسر معینہ مدت میں یہ معلومات فراہم نہیں کرتا تو درخواست گذار اندرونی جائزے(انٹرنل ریویو) کے لیے بالا افسر کو اپنی درخواست کے متعلق لکھے گا۔

سندھ حکومت نے جون 2022ء میں آر ٹی آئی ایکٹ 2016ء کے تحت 'سندھ انفارمیشن کمیشن ' تشکیل دے دیا تھا۔ تاہم بیشتر اداروں اور محکموں میں شہریوں کو معلومات فراہم کرنے والے افسر تعینا ت نہ کیے جا سکے۔

 آر ٹی آئی کمیشن کی ایک رکن( کمشنر )صائمہ آغا بتاتی ہیں کہ کمیشن نے مارچ 2023ء میں چیف سیکرٹری سندھ کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ آر ٹی آئی قانون پر عمل نہیں ہو رہا ۔ کیونکہ محمکوں میں شہریوں کو معلومات فراہم کرنے والے افسر ہی تعینات نہیں کیے گئے۔

جون 2023ء میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران صوبائی چیف سیکرٹری کو طلب کیا تھا ۔جس پر چیف سیکرٹری نے آر ٹی آئی قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حلف نامہ جمع کروایا تھا۔

صائمہ آغا کہتی ہیں کہ " انفارمیشن کمیشن نے چیئرمین سندھ پبلک سر وس کمیشن کو معلومات نہ دینے پر ایک بار نوٹس جاری کیا تو وہ ناراض ہوئے کہ مجھے کیسے بلایا گیا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ آپ معلومات تک رسائی کے لیے افسر مقرر کریں ورنہ ہر بار آپ ہی کو بلایا جائے گا۔ تب وہاں افسر کی تعیناتی ہوئی ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 صوبائی محکمے آر ٹی آئی قانون کے تحت معلومات مہیا کرنے کے لیے افسر تعینات کر چکے ہیں۔ تاہم اگر کسی سرکاری محکمے یا ذیلی ادارےنے افسر کا تقرر نہیں کیا تو جوابدہ چیف سیکرٹری سندھ ہوں گے۔

آر ٹی آئی قانون کہتا ہے کہ انٹرنل ریویو کی درخوست پر بھی شہری کو معلومات فراہم نہیں کی جاتیں تو وہ 'سندھ انفارمیشن کمیشن' سے رجوع کر سکتا ہے اور شکایت درج کرا سکتا ہے۔

بوٹا امتیاز مسیح نے بھی معلومات نہ ملنے پر سندھ انفارمیشن کمیشن میں ڈپٹی کمشنر حیدرآباد کے خلاف درخواست دے دی تھی۔ جس کی اتوار 30 اکتوبر کو سماعت تھی۔ انہیں 13 اکتوبر کو تمام کاغذات سمیت پیش ہونے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے رواں سال 24 مئی کو درخواست میں ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے پوچھا تھا کہ  "ڈی سی آفس میں کل کتنے ملازمین ہیں؟ ان کی تنخواہ کے سالانہ اخراجات کتنے ہیں؟ یہاں کل گاڑیاں کتنی ہیں؟ ان گاڑیوں کے فیول اور مرمت کے سالانہ اخراجات کتنے ہیں؟ دفتر کتنے رقبے پر محیط ہے؟ اور ڈی سی ہاؤس کے یوٹیلیٹی بلوں کے سالانہ اخراجات کتنے ہیں؟"

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 15 دن تک جواب کا انتظار کیا۔ معلومات نہیں ملیں تو اندرونی جائزے(انٹرنل رویو) کے لیے دوبارہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں درخوست جمع کرائی۔ قانون کے مطابق وہ 45 سے 50 دن تک انتظار کرتے رہے پھر بھی معلومات نہیں ملیں۔ تب انہوں نے دو اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر کے خلاف انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔

 صائمہ آغا کا کہنا تھا کہ "چیف کمشنر اور دونوں کمشنرز پر مشتمل ٹربیونل شہری کی شکایت کی سماعت کرتا ہے۔ جس افسر کے خلاف شکایت ہو پہلے مرحلے میں ہم ان کو نوٹس جاری کرتے ہیں اور فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں شہریوں کو سرکاری معلومات کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ آگاہی کے حق میں خود رکاوٹ بن گیا

سندھ انفارمیشن کمیشن پہلے ایک شکایت پر سندھ سروسز ٹربیونل کے رجسٹرار وقاص عابد بلوچ پر جرمانہ عائد کر چکا ہے۔ ان کے خلاف شہری فھیم علی نے آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی شکایت کی تھی۔

 فیصلے کے مطابق وقاص عابد بلوچ کی ماہانہ بنیادی تنخواہ میں سے دس فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ عملدر آمد کے لیے فیصلے کی کاپی صوبائی چیف سیکریٹری، سیکریٹری فنانس اور چیئرمین سندھ سروس ٹربیونل کو بھیجی گئی ہے۔ یہ فیصلہ سات ستمبر 2023ء کو سنایا گیا۔

 انفارمیشن کمیشن کےریکارڈ کے مطابق سندھ میں پچھلے سال دو جون سے 20 اکتوبر 2023ء تک کمیشن کو 294 شکایات وصول ہوئی ہیں۔ان میں سے 155 کی معلومات فراہم کی جا چکی ہیں اور 48 کا جواب دینے کے لیے مزید دن باقی ہیں۔ جبکہ 23 فیصلے کے مرحلے پر ہیں۔

انفارمیشن کمیشن 68 شکایتیں خارج کر چکا ہے۔جن کی وجوہات میں قانونی تقاضے پورے نہ ہونا اور غیر متعلقہ اداروں (سندھ کمیشن کے دائرے کار سے باہر)کے خلاف شکایت تھیں۔

صوبہ سندھ میں معلومات فراہم نہ کرنے کی سب سے زیادہ شکایات میونسپل کمشنر حیدرآباد کے خلاف ہیں جو کہ 30 سے زائد ہیں۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے خلاف30، سندھ انوائرنٹمینٹل پروٹیکشن ایجنسی(سیپا) 20، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن 15 اور محکمہ بلڈنگ کے خلاف 20 شکایات ہیں۔

آرٹی آئی قانون کی خلاف ورزی پر محکمہ مال (ریونیو) کے خلاف 15 شکایات، سندھ پبلک سروس کمیشن کے خلاف پانچ، واسا حیدرآباد 20، سندھ پولیس دس اور محکمہ خزانہ کے خلاف 20 سے زیادہ شکایتیں سندھ انفارمیشن کمیشن کے پاس موجود ہیں۔

ان کے علاوہ سندھ انفارمیشن کمیشن کو حیدرآباد، میرپور خاص اور ضلع تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنرز اور صوبے کے سب سے بڑے سرکاری دفتر یعنی چیف سیکریٹری آفس کے خلا ف بھی شہریوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

 ڈپٹی کمشنر طارق قریشی کی حیدرآباد میں ایک ماہ قبل ہی تعیناتی ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آر ٹی آئی قانون کے مطابق شہریوں کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم بوٹا امتیاز مسیح کی درخواست سے متعلق انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا ہےکہ وہ اس معاملے کا جائزہ لیں گے۔

تاریخ اشاعت 31 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.