صوبہ سندھ کے مشرقی اضلاع سانگھڑ اور عمرکوٹ کے سنگم پر واقع قصبے پتھورو سے 10 کلومیٹر شمال میں مریم نگر نامی ایک ایسی بستی موجود ہے جس کی تمام آبادی مسیحی ہے۔ 15 سال پہلے یہ سب لوگ ہندو مذہب کے ماننے والے تھے۔
مریم نگر کے 60 سالہ باشندے، جیمس، کا کہنا ہے کہ اُس وقت "ہم سب ایک مقامی زمیندار کے پاس ہاریوں کے طور پر کام کرتے تھے اور اسی کی دی ہوئی زمین پر جھونپڑیاں بنا کر رہتے تھے"۔ اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے انہوں نے اُس سے بھاری قرضہ بھی لے رکھا تھا جسے ادا کیے بغیر وہ کہیں اور نہیں جا سکتے تھے۔
لیکن پھر زمیندار نے اپنی زمین بیچنے کا فیصلہ کر لیا اور، جیمس کے بقول، "ہمیں کہا کہ ہم فوری طور پر اس کا قرضہ ادا کریں"۔ چونکہ ان کے پاس اُسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا اس لیے وہ پریشان ہو گئے کہ کیا کریں۔
ایسے میں جو نامی ایک انگریز نے ان کی مدد کی۔ انہیں اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ایک مسیحی پادری تھا جو کافی عرصے سے ضلع سانگھڑ کے شہر کھپرو میں رہ رہا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جو کو اُن کے حالات کے بارے میں کیسے پتہ چلا۔
بہرحال اس نے نہ صرف اُن سب کا قرضہ اتار دیا بلکہ اسی زمیندار سے 16 ایکڑ زمین خرید کر انہیں دے دی تاکہ وہ اس پر اپنے گھر بنا سکیں۔ یوں مریم نگر وجود میں آیا۔ اب یہاں رہنے والے 80 خاندانوں میں سے ہر ایک کے پاس دو کچے کمروں پر مشتمل اپنا گھر ہے۔
مریم نگر کے وجود میں آنے کے بعد جو نے یہاں ایک سکول بھی کھولا تاکہ بستی کے بچے اس میں مفت تعلیم حاصل کر سکیں۔ ایک 36 سالہ مقامی باشندے جوزف کے مطابق "کچھ عرصے بعد جو نے اسی سکول میں بڑی عمر کے لوگوں کو بلا کر انہیں مسیحیت کی تبلیغ کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں بستی کے سبھی لوگ مسیحی ہو گئے"۔
جوزف کہتے ہیں کہ نیا مذہب اپنانے کے بعد ان کے حالاتِ زندگی تیزی سے بہتر ہونے لگے۔ ایک پکی سڑک کے ذریعے ان کی بستی باقی دنیا سے جڑ گئی اور اس میں پانی کا نلکا بھی لگ گیا۔ اسی طرح جو نے اُس میں سماجی تقریبات کے لیے ایک ہال بنوا دیا اور مذہبی اجتماعات کے لیے ایک چرچ تعمیر کرا دیا۔
تبدیلیِ مذہب کے بعد دو سال تک مریم نگر میں رہنے والے ہر خاندان کو ہر مہینے پانچ سو روپے نقد اور خشک راشن بھی ملتا رہا۔ جوزف کا کہنا ہے کہ "اب بھی مذہبی تہواروں پر ہر ایک کو مفت راشن اور کپڑے مل جاتے ہیں"۔
اس دوران مریم نگر کی خوش حالی سے متاثر ہو کر آس پاس کی کئی ہندو آبادیوں کے لوگ بھی مسیحی ہو گئے۔ جوزف کا خیال ہے کہ ان کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ ان کے اپنے خاندان کی طرح یہ سب لوگ کولہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہندو مذہب میں رائج ذات پات کے نظام کے تحت سب سے نچلے درجے پر رکھا جاتا ہے۔
تاہم کچھ عرصے بعد جو انگلینڈ واپس چلا گیا اور مریم نگر کی ترقی کا سلسلہ رک گیا۔ جوزف کے مطابق اب دراصل "سب لوگ پچھتا رہے ہیں کہ جانے سے پہلے وہ کیسے ہمیں ایک جہنم میں ڈال گیا ہے"۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مسیحی ہونے کے بعد ان پر ایسی سماجی مشکلات آ پڑی ہیں جن کا شروع میں انہیں خیال بھی نہیں آیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہماری بچیاں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں لیکن ان کی شادیاں نہیں ہو رہیں کیونکہ آس پاس کے دیہات کے رہنے والے ہندو ہم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے"۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلیِ مذہب کے بعد مریم نگر کے کچھ باسیوں کی پہلے سے ہوئی شادیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ مثال کے طور پر 15 سال پہلے نینا دلہن بن کر عمرکوٹ کے ایک کولہی گھرانے میں گئیں لیکن جیسے ہی ان کے سسرال کو پتہ چلا کہ ان کے خاندان والے مسیحی ہو گئے ہیں تو ان کے شوہر نے انہیں گھر سے نکال دیا۔
ان کی عمر اب 32 سال سے زیادہ ہو چکی ہے لیکن وہ ابھی تک اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ مریم نگر میں رہ رہی ہیں کیونکہ ان کی کبھی دوبارہ شادی نہیں ہو سکی۔ وہ کہتی ہیں کہ "کوئی ہندو اب مجھ سے کیوں شادی کرے گا کیونکہ ہم تو مسیحی ہو چکے ہیں"۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا
دھرم داس اور منور داس نامی دو چچا زاد بھائیوں کا 20 افراد پر مشتمل خاندان کبیر پنتھی مذہب کا ماننے والا ہے۔ پچھلے پانچ سال سے وہ سندھ کے جنوبی شہر بدین سے پانچ کلومیٹر مغرب کی طرف کراچی جانے والی شاہراہ پر واقع گاؤں جگو کولہی میں رہائش پذیر ہیں۔ تین درجن کے قریب گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے باقی سارے باشندے ہندو مذہب کے پیروکار ہیں اور کولہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
منور داس مزدوری کر کے روزی روٹی کماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے وہ ایک اور گاؤں میں مقیم تھے لیکن 2016 میں وہ اور ان کا خاندان کبیر پنتھ کی پیروی کرنے لگے تو وہاں کی کولہی برادری کے کچھ افراد نے انہیں کہا کہ وہ اپنے خاندان والوں کو لے کر گاؤں سے نکل جائیں ورنہ ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق "یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم نے مذہب بدل کر بہت بڑا گناہ کیا ہے جسکی کوئی معافی نہیں"۔
دھرم داس اپنا مذہب تبدیل کرنے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2016 میں رام چند نامی ایک شخص ان کے پرانے گاؤں آیا اور انہیں کبیر پنتھ کی تبلیغ کرنے لگا۔ انہیں اس کی باتیں اتنی اچھی لگیں کہ انہوں نے اسی وقت اس مذہب کے پیروکار بننے کا فیصلہ کر لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ بعدازاں ایک دن انہیں ان کے خاندان سمیت حیدرآباد میں واقع کبیر پنتھ کے مندر میں بلایا گیا جہاں ان کے مذہب کی باقاعدہ تبدیلی کی رسم ادا کی گئی اور انہیں نئے مذہب میں داخلے کے سرٹیفیکیٹ بھی دیے گئے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان پر اس ضمن میں کوئی دباؤ نہیں تھا بلکہ "یہ مذہب ہم نے اپنی مرضی سے اپنایا ہے" کیونکہ، ان کے بقول، "اس میں اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ کار بتایا گیا ہے"۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہم دن میں تین وقت عبادت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں ہم سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے"۔ لیکن انہیں شکایت ہے کہ اس کے باوجود "ہماری اپنی ہی برادری کے لوگوں نے ہمیں گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے"۔
جگو کولہی سے 25 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع قصبے ٹنڈوباگو کے نواحی گاؤں کھڈو میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے منور داس کہتے ہیں کہ کولہی آبادی پر مشتمل اس گاؤں میں 2018 میں کبیر پنتھ سے منسلک ایک شخص کی موت ہو گئی تو وہاں رہنے والے لوگوں نے اس کے اہلِ خانہ کو اسے مقامی ہندو قبرستان میں دفنانے سے منع کر دیا۔
منور داس کے مطابق یہ تنازعہ اس قدر بڑھا کہ متوفی "شخص کے اہل خانہ کو مقامی پولیس سے مدد کی درخواست کرنا پڑی جس نے بالآخر کئی روز بعد اپنی نگرانی میں اس کی تدفین کرائی"۔
جنوبی سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے والے کبیر پنتھی خاندانوں کو اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ مثال کے طور پر عمرکوٹ شہر میں نائی کا کام کرنے والے 28 سالہ ایسر داس کہتے ہیں کہ جب سے وہ ہندو مذہب کو چھوڑ کر کبیر پنتھ کے پیروکار ہوئے ہیں تب سے نہ صرف مختلف ہندو ذاتوں کے لوگوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا ہے بلکہ ان کے قریبی رشتے دار بھی انہیں چھوڑ گئے ہیں۔
اپنی چھوٹی سی دکان میں ایک دیوار پر لگی ہوئی بھگت کبیر داس اور سنت رام پال کی تصاویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "جس ہندو کو پتہ چلتا ہے کی ان دو لوگوں کی وجہ سے میں نے ہندو مذہب چھوڑ دیا ہے وہ مجھ سے بال بھی نہیں کٹواتا"۔
تبدیلیِ مذہب: اصل وجہ کیا ہے؟
پندرویں صدی میں انڈیا کے شہر بنارس میں اپنی شاعری کے ذریعے مذہبی اور سماجی اصلاح کا کام کرنے والے بھگت کبیر داس مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کے خلاف تھے۔ اگرچہ انڈیا میں اب بھی ان کے ایک کروڑ کے قریب ماننے والے رہتے ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ان کے پیروکاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
تاہم حالیہ سالوں میں اس صورتِ حال میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ اس کا آغاز 08-2007 میں اس وقت ہوا جب سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں رہنے والے نچلی (شیڈولڈ) ذاتوں کے چند ہندوؤں کو انڈیا سے کبیر پنتھ کے سالانہ میلے میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ اسے بھیجنے والوں نے انہیں یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ میلے میں شرکت کرنا چاہیں تو ان کے سفر کے تمام انتظامات بھی ان سے کوئی پیسہ وصول کیے بغیر کر دیے جائیں گے۔
اس دعوت پر انڈیا جا کر میلے میں شرکت کرنے والے تین یا چار افراد وہیں کبیر پنتھ کے پیروکار بن گئے۔ اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
حیدرآباد میں مقیم چندن نامی ایک کبیر پنتھی شخص کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف ضلع بدین میں ان کے ہم مذہبوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ پورے سندھ میں اس مذہب کو ماننے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ سب لوگ پہلے ہندو تھے اور، چندن کے مطابق، "میگھواڑ، بھیل، کولہی، اوڈ اور راوڑا جیسی شیڈولڈ ہندو ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے"۔
بدین سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چون کولہی اس رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ شیڈولڈ ذاتوں کے ہندوؤں کی معاشی تنگ دستی ہے۔ ان کے مطابق یہ لوگ اس امید پر اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں کہ شاید انہیں تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع مل جائیں۔
یہ بھی پڑھیں
شادی کرنے والے مخنث افراد کو دی گئی سزائیں: 'ہمارا عدالتی نظام صنفی اعتبار سے بہت غیرمنصفانہ ہے'۔
ان کی نظر میں اپنا آبائی مذہب چھوڑنے والے ہندو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ شاید اس عمل سے ان کے پست ترین سماجی رتبے میں کچھ بہتری آ جائے۔ لیکن "یہ بس ان کی خام خیالی ثابت ہوتی ہے"۔ دراصل ایسا کرنے سے ان کے مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ، چون کولہی کے بقول، "ان کے اپنے بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں"۔
سندھ کے جنوب مشرقی ضلع تھرپارکر کے صدرمقام مٹھی میں مقیم چندر کولہی کہتے ہیں کہ تبدیلیِ مذہب کے اس رجحان کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مختلف مذاہب کا پرچار کرنے والے لوگ معاشرے کے سب سے پِسے ہوئے گروہوں کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان گروہوں کے غریب اور سادہ لوح لوگ ترقی اور برابری کے "جھوٹے وعدوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں لیکن بعد میں انہیں ایک کونے میں لگا دیا جاتا ہے"۔
چندر کولہی کا اپنا تعلق ایک شیڈولڈ ہندو ذات سے ہے اور وہ اپنے علاقے میں ذات پات کی بنیاد پر پیش آنے والے سماجی اور معاشی امتیاز کے واقعات کا باقاعدہ حساب کتاب بھی رکھتے ہیں۔ اپنے تجربات کے پیشِ نظر وہ سمجھتے ہیں کہ "ایسے لاچار لوگوں کو سماجی ذلت سے بچانے کا طریقہ ان کے مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ انہیں تعلیم یافتہ بنانا اور ان کے لیے باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنانا ہے"۔
تاریخ اشاعت 17 جنوری 2022