پانچ سال پہلے میاں شاہد علی جولائی کی ایک صبح اپنے والد کے ساتھ اپنے کپاس کے کھیتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جیسے جیسے وہ کھیت میں آگے بڑھ رہے تھے ویسے ویسے ہی ان کے والد کے چہرے پر پریشانی کے اثرات نمودار ہو رہے تھے کیونکہ انہیں بیشتر پودوں پر لگے ٹینڈوں پر کالے دھبے دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے ایک ٹینڈا توڑ کر کھولا تو اس میں ایک گلابی رنگ کی سنڈی نظر آئی جس نے روئی کا ریشہ بننے سے پہلے ہی اس کا پچاس فیصد حصہ کھا لیا تھا۔
شاہد علی کہتے ہیں کہ ان کے والد نے گلابی سنڈی کے حملے کو روکنے کے لئے فصل پر ہر ہفتے کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کرنا شروع کیا۔ لیکن ان کے مطابق "پھر بھی اس فصل سے حاصل ہونے والی روئی نا صرف معمول سے دو تہائی کم تھی بلکہ اس کا معیار بھی اچھا نہیں تھا لہٰذا بیوپاری نے بھی اسے کم داموں پر خریدا"۔
فصل اچھی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں گھر میں رکھی ہوئی گندم اور تین بکریاں فروخت کر کے کیڑے مار دوا کی قیمت چکانا پڑی جس سے ان کے والد کا دل بجھ گیا اور انھوں نے کپاس لگانے سے توبہ ہی کر لی۔
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے گاؤں چک 38 عباسیہ کے رہنے والے شاہد علی نے ان دنوں ابھی تازہ تازہ بی اے کیا تھا۔ انہیں لگا کہ شاید ان کے والد سے فصل کی دیکھ بھال میں کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے۔ لہٰذا اگلے سال انہوں نے اپنے والد کی مخالفت کے باوجود دو ایکڑ کپاس کاشت کرلی۔
شاہد علی کہتے ہیں کہ انہوں نے غیر تصدیق شدہ بیج استعمال کرنے کے بجائے حکومت کا منظور شدہ بیج استعمال کیا اور اس کی خوب نگہداشت کی جس کی وجہ سے فصل کی پیداوار بہت اچھی تو نہیں لیکن مناسب رہی۔ کم از کم انہیں اس میں خسارہ نہیں ہوا۔ اس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور اگلے سال انہوں نے پھر دو ایکڑ کپاس کاشت کر لی۔
اس فصل کے لئے انہوں نے سرکاری طور پر منظور شدہ بیج کاشت کرنے کا فیصلہ کیا جو ابھی کچھ سال پہلے ہی مارکیٹ میں آیا تھا۔ اس کی پیداوار اتنی اچھی تھی کہ انہیں ہر ایکڑ سے بیس من کپاس حاصل ہو گئی۔ اس سال کپاس کے نرخ بھی بہتر تھے اس لیے انہیں فصل کے تمام اخراجات ادا کرنے کے بعد 50 ہزار روپے کی بچت بھی ہوگئی۔
انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ فصل کے معاملے میں ان کی سوچ اور فیصلہ لینے کی صلاحیت اپنے والد سے بہتر ہے۔ اسی زعم میں 2019 میں انہوں نے دو ایکڑ کے بجائے پانچ ایکڑ پر کپاس لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن ان کے بقول اس سال بد قسمتی یہ ہوئی کہ مون سون میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سفید مکھی جھنڈوں کی شکل میں فصل پر امنڈ آئی۔ اس نے کپاس کے پتوں کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ اس کی پیداوار پھر وہی پانچ چھ من فی ایکڑ تک رہ گئی اور ان پر ایک لاکھ 30 ہزار روپے کا قرض چڑھ گیا۔
چنانچہ 2020 میں شاہد علی نے اپنے والد کے کہنے پر کپاس کی جگہ پانچ ایکڑ گنا لگایا جس کی فصل بہت اچھی ہوئی اور اس سے آمدن بھی خوب ہوئی۔ اب انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنی 10 ایکڑ اراضی میں سے پانچ ایکڑ پر وہ ہر سال گنا ہی کاشت کیا کریں گے۔
ضلع رحیم یار خان ہی سے تعلق رکھنے والے حسیب اللہ خان نیازی نے ابھی کپاس کاشت کرنا ترک نہیں کیا وہ ایک بڑے کاشت کار ہیں اور پچھلے 10 سال سے پانچ سو ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کر رہے ہیں۔ کپاس کے بیج کے معاملے میں وہ نہ تو نجی کمپنیوں کی اشتہاری مہم سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی سرکاری اداروں کے بڑے بڑے دعوؤں سے۔ ان کے تجربے نے انہیں سکھایا ہے کہ بیج کا انتخاب کرتے ہوئے بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2020 سے پہلے 15 سالوں میں انہیں کپاس کی کاشت میں کبھی خسارہ نہیں ہوا کیونکہ وہ کہتے ہیں: "میں اپنے کھیتوں میں صرف وہی بیج لگاتا ہوں جسے میں نے بار بار آزمایا ہوتا ہے"۔
حسیب اللہ خان کا کہنا ہے کہ کپاس کے کاشت کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ ناقص بیج ہیں کیونکہ سوائے چند ایک کے اس وقت مارکیٹ میں جتنے بھی بیج دستیاب ہیں انہیں مکمل بھروسے کے ساتھ بویا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ مارکیٹ میں ہر سال کئی نئے بیج آتے ہیں لیکن ان کے بقول حالیہ سالوں میں ایسا کوئی نیا بیج مارکیٹ میں نہیں آیا جس کی کارکردگی پہلے بیجوں سے بہتر ہو۔
ایگری کلچرل بائیو ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال کہتے ہیں کہ پنجاب سیڈ کونسل نے اس سال 17 بیج منظور کیے ہیں جن میں سینڑل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا دریافت کردہ بیج این آئی ایچ 343 بھی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سخت موسمی حالات میں بھی 50 سے 60 من فی ایکڑ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے ایک کاشت کار محمد صالح انکشاف کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیج 2018 ہی میں کاشت کر لیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے پہلے سال اسے کاشت کیا تو اس کی پیداوار 44 من فی ایکڑ رہی لیکن اگلے سال اس کی پیداوار کم ہو کر 20 من فی ایکڑ ہو گئی۔
ایگری کلچرل بائیو ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بیج منظور ہونے سے پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے نچلے درجوں کے کچھ ملازمین یہ بیج چوری چھپے بیچ دیتے ہیں۔ ان کے بقول اگر یہ بیج مکمل طور پر تحقیقی عمل سے گزرنے کے بعد کسانوں کے پاس پہنچتا تو شاید دوسرے سال بھی اس کی پیداوار اچھی رہتی۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ بریڈنگ کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال بندیشہ اس وقت کامیاب بیجوں میں سے ایک آئی یو بی 13 کے دریافت کنندہ ہیں۔ وہ مارکیٹ میں بکنے والے بیجوں کے معیار کے حوالے سے کسانوں کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں سرکاری تحقیقی اداروں نے کپاس کے بیج کی کوئی ایسی قسم نہیں بنائی جو اس فصل کے زیرِ کاشت کل رقبے کے پانچ فیصد حصے ہی پر اگائی گئی ہو۔ وہ کہتے ہیں: 'جہاں تک پرائیویٹ کمپنیوں کی بات ہے تو ان کے پاس بھی مناسب تحقیقی وسائل دستیاب نہیں اس لیے ان کے بنائے ہوئے بیجوں کی کوالٹی بھی سرکاری اداروں میں بننے والے بیجوں جیسی ہی ہے'۔
اقبال بندیشہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت کپاس پر ریسرچ کے چار بڑے ادارے کام کر رہے ہیں ان میں ایک ملتان میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلنے والا ادارہ سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ اسی طرح ملتان ہی میں پنجاب حکومت کا ایک ادارہ کاٹن ریسرچ انسٹیٹیویٹ، فیصل آباد میں کاٹن ریسرچ سٹیشن اور نیو کلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچرل اینڈ بائیولوجی کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں سائنسدانوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن کسان ان کے بنائے ہوئے بیجوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔
انھوں نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں پر بھی کسانوں کو بیجوں کے حوالے سے ایسے ہی مسائل ہیں لیکن انھوں نے اس کا حل کسانوں کی بہتر تربیت، مراعات اور کپاس کے زیر کاشت رقبے میں توسیع دے کر نکال لیا ہے۔ نتیجتاً انڈیا جو کبھی پاکستان سے بھی کم کپاس پیدا کرتا تھا اب دنیا میں سب سے زیادہ کپاس اگانے والا ملک بن گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے تو راجھستان کی ریتلی زمین میں بھی نہر نکال کر کپاس کی کاشت اور پیداوار کو کئی گنا بڑھا لیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً ایک جتنی ہی ہے۔ اگر پاکستان بھی کچھ ایسی ہی پالیسی اپنائے اور کپاس کو سندھ، بلوچستان کے ریتلے علاقوں تک لے جائے تو ملکی ضرورت کے مطابق پیداوار حاصل کرنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
حسیب اللہ خان حکومتی اداروں کے بیج کا معیار ناقص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تجرباتی طور پر یہ بیج ایک محدود رقبے پر لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک جگہ پر مخصوص موسمی حالت کے باعث اچھی پیداوار تو آ جاتی ہے مگر جب یہی بیج پورے ملک میں کاشت کیا جاتا ہے تو اس کا مجموعی نتیجہ ویسا نہیں نکلتا۔
تاہم اقبال بندیشہ حسیب اللہ نیازی سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ مکئی اور سبزیوں کے بیجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بیج آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ملکوں میں بنائے جاتے ہیں جہاں عام طور پر درجہ حرارت پاکستان سے کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ بیج پاکستان میں اچھے نتائج دیتے ہیں۔ انہی
بیجوں سے ہم مکئی کی 100 من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوار لے رہے ہیں۔
اقبال بندیشہ نے ماضی میں کامیاب رہنے والے کچھ بیجوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پچھلے 20 سال میں ایم این ایچ 786، ایم این ایچ 886، سی آئی ایم 496، ایف ایچ 142، بی ایس 15، این 121، ایم ایم 58، نایاب 878، آئی یو بی 13 اور آئی یو بی 222 ایسے بیج ہیں جنہوں نے کسانوں کو فائدہ پہنچایا۔ خاص طور پر پاکستان نے 2005 میں جب ایک لاکھ 40 ہزار گانٹھوں کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی تھی تو اس میں ایم این ایچ 786 بیج کا بڑا کردار تھا۔اسی طرح اب جو بیج بہتر نتائج دے رہا ہے وہ آئی یو بی 13 ہے اور اس سے بھی ہر علاقے میں اچھی پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔
کسان وقت سے پہلے فصل کاشت کرنے کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں؟
محمد صالح نے اپنے علاقے میں کچھ کسانوں کی قبل از وقت کاشت کردہ فصل کی اچھی پیداوار دیکھ کر اس مرتبہ اپنے چار ایکڑ رقبے پر مارچ ہی میں کپاس کاشت کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سال میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کسانوں نے فروری یا مارچ میں کپاس کاشت کی ہے انہیں اچھا منافع ہوا جبکہ اپریل کے آخر اور مئی کے شروع میں کپاس کاشت کرنے والے ناکام رہے۔
صالح کے مطابق پاکستان میں جتنے بھی بیج بن رہے ہیں ان میں موسم کی سختی، بارش، گلابی سنڈی اور سفید مکھی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وقت سے پہلے کاشت کی گئی کپاس اس لیے فائدہ مند رہتی ہے کہ اگست اور ستمبر میں سخت موسم اور بارشوں سے پہلے ہی اس سے کافی پیداوار حاصل کی جا چکی ہوتی ہے جبکہ اپریل کے آخر یا مئی میں لگائی جانے والی فصل پر پھول اور پھل لگنے کا مرحلہ ہی ستمبر میں شروع ہوتا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے اس پر سفید مکھی حملہ کر دیتی ہے جو پتوں کو اجاڑ کر رکھ دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔
وہاڑی سے تعلق رکھنے والے کسان لیاقت علی چٹھہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال انھوں نے 125 ایکڑ رقبے پر وقت سے پہلے کپاس کاشت کی تھی جبکہ 65 ایکڑ پر اپریل کے آخر میں جو فصل وقت سے پہلے لگائی تھی اس کی پیداوار 20 من فی ایکڑ رہی۔ اسی طرح انہوں نے جو کپاس بعد میں کاشت کی اس سے بمشکل پانچ، چھ من فی ایکڑ پیداوار حاصل ہوئی۔ اس لیے اس مرتبہ وہ گندم کی کٹائی کے بعد خالی ہونے والے رقبے پر کپاس کی بجائے مکئی اُگائیں گے۔
کسان غیر تصدیق شدہ بیج کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
شاہد علی کہتے ہیں کہ کسانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون سا بیج تصدیق شدہ ہے اور کون سا غیر تصدیق شدہ۔ انہیں تو بہتر پیداوار چاہیے۔ چونکہ یہ بیج کئی سال سے اچھی پیداوار دے رہے ہیں اس لیے کسان ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ بے موسمی بارشوں اور زیادہ درجہ حرارت کے باعث بھی لوگ غیر تصدیق شدہ بیج کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے سخت موسمی حالات میں سرکاری بیج کی پیداوار کم رہتی ہے جبکہ غیر تصدیق شدہ بیج اچھے نتائج دیتا ہے۔
کپاس کے کسانوں کے مسائل کیسے کم کیے جا سکتے ہیں؟
کسانوں کا کہنا ہے کہ کپاس کے مسائل پر قابو پانے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ان میں ایک معیاری بیجوں کی فراہمی اور دوسرا کسانوں کو بیجوں اور انہیں لگنے والے بیماریوں کے بارے میں آگاہی کی فراہمی ہے۔
حسیب اللہ نیازی کہتے ہیں کہ ریسرچ کے ادارے کو چاہیے کہ تجرباتی طور پر نیا بیج لگانے کے بعد کسانوں کو اس کا مشاہدہ کروائیں اور اس کی خوبیوں، خامیوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ بعدازاں اسی بیج کو دوسرے اضلاع میں لگا کر اس کی کارکردگی دیکھی جائے۔ اسی صورت ہی نئے بیج پر کسان کا بھروسہ بڑھے گا اور کپاس سے متعلق مسائل حل ہوں گے۔
لیاقت علی چٹھہ کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں نئی ٹیکنالوجی اور فصلی کیڑوں کے بارے میں کسانوں کی آگاہی محدود ہے۔ محکمہ زراعت (توسیع) کا کام ہی یہ ہے کہ وہ کسانوں کی ہر سطح پر رہنمائی کرے۔ اگر اس حوالے سے سرکاری ادارے متحرک ہو جائیں تو کپاس کے بہت سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 20 اپریل 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 5 جنوری 2022