جس طرح انتظار حسین کے ناول 'بستی' کا روپ نگر گاؤں "اپنے تین بندروں کی بھینٹ دے کر بجلی کے زمانے میں داخل" ہوا اسی طرح پاکستان ہزاروں پرندوں کی قربانی دے کر ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کے زمانے میں داخل ہو رہا ہے۔
قدرتی ماحول کی بہتری اور بقا کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے ورلڈ وائلڈلائف فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) میں پراجیکٹ منیجر کے طور پر کام کرنے والے سعید الاسلام کا کہنا ہے کہ ہر ماہ تین سو سے چار سو پرندے اُن پون چکیوں کے پروں سے ٹکرا کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو سندھ کے جنوبی ضلع ٹھٹہ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ انہوں نے خود تو ان پرندوں کو مرتے نہیں دیکھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی موت کی تصدیق بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اُن اہل کاروں نے کی ہے جن کا کام پون چکیوں کے اردگرد کے قدرتی ماحول پر نظر رکھنا ہے۔
ان میں سے ایک کمپنی میں کام کرنے والے ایک الیکٹریکل انجینئر کہتے ہیں کہ یہ "پون چکیاں ہر سال ایسے بہت سے پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں جو سائبیریا اور وسطی ایشیا سے ستمبر میں ہجرت کر کے سندھ میں موجود پانی کے مختلف ذخائر کے اردگرد اترتے ہیں اور جنوری میں واپس جاتے ہیں"۔ (تاہم یہ انجینئر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی نوکری کو خطرہ ہو سکتا ہے۔)
غلام سرور جمالی بھی پرندوں کی ہلاکت کے عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ سندھ کے محکمہ برائے تحفظ جنگلی حیات میں 33 سال کام کرنے کے بعد 2019 میں ڈپٹی کنزرویٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے پرندوں کو پون چکیوں سے ٹکرا کر ہلاک ہوتے دیکھا ہے۔
ٹھٹہ ہی میں واقع ہالیجی جھیل پر آبی پرندوں کی حفاظت پر مامور حکومتِ سندھ کے اہل کار رشید احمد خان بھی ان دعووں کو درست قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود 2016 میں ایسے بہت سے پرندے دیکھے جو پون چکیوں سے ٹکرا کر زخمی یا ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے مطابق اُس وقت وہ ایک غیرسرکاری ادارے کے لیے اسی موضوع پر ایک رپورٹ تیار کر رہے تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متاثرہ پرندوں میں بلبلیں، چڑیائیں، باز، فاختائیں، تلور اور بگلے شامل تھے۔ تاہم وہ ہلاک شدہ پرندوں کی تعداد اور اس ادارے کا نام نہیں بتانا چاہتے جس کے لیے وہ کام کر رہے تھے۔
مشینی دور کا آغاز
توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے والے وفاقی ادارے (آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ) اور نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ویب سائٹوں پر دستیاب معلومات کے مطابق صوبہ سندھ میں پچھلے 10 سالوں میں ہوا سے بجلی بنانے کے 36 منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار ضلع ٹھٹہ کے قصبے گھارو میں لگائے گئے ہیں جو کراچی سے تقریباً 67 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے جبکہ باقی 32 منصوبے جھمپیر نامی جگہ پر نصب ہیں جو کراچی سے ایک سو 29 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔
ان تمام منصوبوں کے تحت مجموعی طور پر ایک ہزار دو سو پون چکیاں لگائی گئی ہیں جن میں ہر ایک کا کھمبا لگ بھگ 80 میٹر اونچا ہوتا ہے جبکہ اس کے پر تقریباً 40 میٹر لمبے ہوتے ہیں۔ گویا ایک پون چکی کی زیادہ سے زیادہ بلندی ایک سو 20 میٹر ہو سکتی ہے (جو مینار پاکستان کی اونچائی سے دگنی ہے)۔
دوسری طرف، سرور جمالی کے مطابق، کونج، گِدھ، بگلے اور ماہی خور (پیلیکان) جیسے کئی پرندے زیادہ سے زیادہ 50 میٹر اونچا اڑ سکتے ہیں اس لیے دورانِ پرواز ان کا پون چکیوں کے پنکھوں سے ٹکرانا ایک یقینی امر ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا الیکٹریکل انجینئر کا بھی کہنا ہے پون چکیوں کے اردگرد پائے جانے والے بیشتر پرندوں کی اڑان ایک سو 20 میٹر سے نیچے ہی رہتی ہے۔
تاہم کراچی یونیورسٹی کے شعبہ زوآلوجی میں پرندوں پر پی ایچ ڈی کرنے والے الطاف حسین ناریجو اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ پون چکیاں پرندوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے عام طور پر ان چکیوں کے کھمبوں سے تین گنا زیادہ اونچائی پر اڑتے ہیں "اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان کے پروں سے ٹکرا کر ہلاک ہو جائیں"۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پرندوں کی ہلاکت کے واضح ثبوتوں کے باوجود یہ مان بھی لیا جائے کہ پون چکیاں انہیں ہلاک نہیں کر رہیں تو پھر بھی ان چکیوں کے دوسرے منفی ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جھمپیر کے نواحی گاؤں رمضان گوپانگ سے تعلق رکھنے والے وکیل اعظم گوپانگ ان اثرات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رات کے وقت ان "پون چکیوں کے کھمبوں پر لال بتیاں جلا دی جاتی ہیں جس کے باعث سائبیریا اور وسطی ایشیا سے آنے جانے والے پرندوں کی پرواز میں خلل پڑتا ہے کیونکہ وہ اکثر رات کو سفر کرتے ہیں"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چکیوں کے چلنے کا شور بھی پرندوں کی پرواز اور مساکن کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے جس کے باعث "تلور اور پیلیکان جیسے پرندے اب جھمپیر اور اس کے گردونواح میں شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں حالانکہ کچھ عرصہ پہلے وہ یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے"۔
سعید الاسلام بھی کم و بیش یہی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق ہر سال تقریباً 10 لاکھ مسافر پرندے پاکستان کی حدود میں آتے ہیں جن میں سے بہت سے موسم سرما میں جھمپیر کے پہلو میں واقع کینجھر جھیل اور گھارو کے ساتھ موجود ہالیجی جھیل کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سالوں میں ان جھیلوں پر اترنے والے مسافر پرندوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے کیونکہ پون چکیاں "ان کا راستہ روک دیتی ہیں"۔
سندھ زوآلوجیکل سروے کے سابق اہل کار سید علی غالب کی تحقیق بالواسطہ طور پر ان کے نکتہ نظر کی توثیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق 2012 اور 2014 کے درمیان، جب ابھی پون چکیوں سے بجلی کی پیداوار شروع نہیں ہوئی تھی، جھمپیر کے آس پاس پرندوں کی 79 سے زیادہ اقسام پائی جاتی تھیں۔ ان میں کئی طرح کے بگلے، تِلور، پیلیکان، پپیہے، جل مرغی، راج ہنس، سرخاب، اُلّو، کبوتر، چڑیا، بٹیر، تِلیر، نیل کنٹھ، گِدھ، باز اور بطخیں شامل تھیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی اقسام کے پرندے اب دکھائی بھی نہیں دیتے۔
سید علی غالب کی تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس علاقے میں دودھ دینے والے جنگلی جانوروں کی 15 اقسام اور رینگنے والے جانوروں کی 13 اقسام ملتی تھیں جو، اعظم گوپانگ کے مطابق، اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گیدڑ، سؤر اور لومڑی جیسے جانور اب اس علاقے سے چلے گئے ہیں "کیونکہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ان کے مساکن اجڑ گئے ہیں"۔
غلام سرور جمالی بھی کہتے ہیں کہ پون چکیاں لگنے کے بعد جھمپیر اور گھارو دونوں علاقوں میں لومڑی، گیدڑ، جنگلی بِلّے، سانڈ اور سؤر جیسے جنگلی جانوروں کے مساکن شدید متاثر ہوئے ہیں جو یہاں "صدیوں سے رہتے چلے آ رہے تھے"۔
کمپنیوں کی حکومت
ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ حکومت کو اس جگہ کا ایک تفصیلی ماحولیاتی جائزہ پیش کریں جہاں انہوں نے پون چکیاں لگانا ہوتی ہیں تاکہ حکومت یہ طے کر سکے کہ ان کی تنصیب سے قدرتی ماحول کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ اس جائزے کی روشنی میں ہی کمپنیوں کو کام شروع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
جھمپیر میں لگائی گئی پون چکیوں کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لاہور میں قائم ٹرائکن بوسٹن کنسٹلنگ کارپوریشن نامی کمپنی نے لیا۔ اگرچہ اس میں تسلیم کیا گیا کہ پون چکیوں کے شور سے پرندوں کی آمدوروفت اور رہن سہن میں خلل پڑ سکتا ہے لیکن اُن کی بقا کو درپیش زیادہ تر خطرات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ بیشتر مسافر پرندے دیگر وجوہات کی بنا پر پہلے ہی کینجھر جھیل پر نہیں آ رہے۔
رشید احمد خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینجھر اور ہالیجی پر اب بھی ہر سال ہزاروں پرندے آتے ہیں۔ وہ اپنے محکمے کے جمع کردہ اعدوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف 2021 میں ہالیجی پر 66 ہزار سے زیادہ پرندے اترے۔
تاہم پون چکیاں چلانے والی کمپنیاں بالواسطہ طور پر ان پرندوں کو لاحق خطروں کو تسلیم کرتی ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے مقامی لوگ بھرتی کر رکھے ہیں جن کا واحد کام جنگلی حیات خصوصاً پرندوں کی نگرانی کرنا اور ان میں سے زخمی یا ہلاک ہونے والے جانداروں کے اعدادوشمار اکٹھے کرنا ہے۔ سرکاری قواعد کے مطابق ان کمپنیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان اعدادوشمار کے بارے میں سندھ کے ادارہ برائے تحفظ ماحول (سیپا) کو باقاعدگی سے آگاہ کریں۔
اس لیے ایک کمپنی سے منسلک ایک ماحولیاتی انجینئر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ تقریباً "تمام کمپنیوں کو معلوم ہے کہ پون چکیوں کی وجہ سے کتنے پرندے زخمی اور ہلاک ہو رہے ہیں لیکن یہ معلومات کبھی نیوز میڈیا اور عام لوگوں تک نہیں پہنچتیں"۔
ان کی یہ بات کسی حد تک ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ بار بار رابطہ کرنے کے باوجود ان کمپنیوں کے اہل کاروں اور سیپا کے افسران نے اس معاملے پر مکمل چپ سادھ رکھی ہے اور اپنا موقف تک بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔
تاریخ اشاعت 10 ستمبر 2022