دس سالہ فاطمہ چوتھی جماعت کی طالبہ ہیں اور ملتان کے نواح میں اپنے گاؤں سنگھڑ والا کے سرکاری پرائمری سکول میں زیرتعلیم ہیں۔ وہ 2017ء میں جب سکول میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت ملک میں شدید لوڈشیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ یہ سکول آم کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور بجلی نہ ہو تو کلاس روم میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان کی نظر شروع سے کمزور ہے جس کی وجہ سے انہیں عینک لگوانا پڑی۔ اس کے باوجود لوڈشیڈنگ کے دوران انہیں بلیک بورڈ پر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور کلاس میں بہت مشکل ہوتی تھی۔
لیکن پھر سکول میں سولر پینل لگ گئے اور آسانی ہو گئی تھی مگر سکول کے پینل چوری ہونے کے بعد اب دوبارہ وہی حالت ہے۔
پنجاب حکومت نے لوڈشیڈنگ کے پیش نظر صوبے کے 15 ہزار سکولوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اسے 'پنجاب سولرائزیشن پروگرام' کا نام دیا گیا تھا ۔ بعد ازاں بنیادی مراکز صحت کی سولرائزیشن کو بھی شامل کر لیا گیا اور اس منصوبے پر اخراجات کا تخمینہ ڈھائی سو ارب روپے لگایا تھا۔
2018ء میں صوبائی محکمہ توانائی کے ذریعے سرکاری سکولوں میں سولر پینل لگانے کا کام شروع کر دیا گیا۔
مسز عابدہ پرائمری سکول سنگھڑ والا میں چھ برس سے ہیڈمسٹریس ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس سکول میں 86 بجے زیرتعلیم ہیں جن کے لیے دو کلاس روم اور ایک واش روم ہے جبکہ چار اساتذہ پر مشتمل سٹاف ہے۔ یہاں فروری 2019ء میں چھت پر چار سولر پینل لگائے گئے تھے جن سے سکول میں پنکھے اور بلب چل رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ پچھلے سال 16 اپریل کی شب نامعلوم افراد سکول کی چھت سے سولر پینلز چوری کر کے لے گئے جن کی مالیت تقریبا تین لاکھ روپے ہے۔
"محکمہ تعلیم کے چیف ایجوکیشن آفیسر فیض عباس کو صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور انہوں نے متعلقہ تھانے سیتل ماڑی میں پینلز چوری کی ایف آئی آر بھی درج کرا دی ہے۔ تاہم ابھی تک سامان برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی کارروائی آگے بڑھی"۔
سولرائزیشن پروگرام کے تحت ملتان ڈویژن میں دو ہزار 741 پرائمری سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا تھا لیکن ایک ہزار 328 سکولوں سے کہیں پینلز تو کہیں پورا سولر سسٹم غائب ہے۔
آٹھ سالہ عبداللہ گورنمنٹ پرائمری سکول موضع کرپال پور قادر پور راں میں پڑھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سانس کی تکلیف ہے اور وہ بڑے ہو ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تاکہ سانس کے مریضوں کاعلاج کر سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں حبس کے باعث ان کی سانس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے اور پھر سکول میں اگر بجلی نہ ہو تو کلاس روم میں گھٹن کی وجہ سے پڑھنا تو کجا ان کے لیے بیٹھنا اور سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ لیکن سولر سسٹم چوری ہونے سے سکول میں اب پنکھے بھی نہیں چلتے۔
پرائمری سکول کرپال پور کے ہیڈ ماسٹر محمد شاہد بتاتے ہیں کہ یہاں طلبا کی تعداد 147 ہے جن کے لیے چار کلاس روم، ایک سٹاف روم اور چار اساتذہ ہیں۔ یہاں جنوری 2019ء کے آخری ہفتے میں چار سولر پینل، کنورٹر اور دو سولر پنکھے لگائے گئے تھے۔
" سولر سسٹم کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ سے جان چھوٹ گئی تھی اور بل کی فکر بھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن پچھلے سال گیارہ مارچ کو رات گئے نامعلوم چور سکول میں داخل ہوئے اور چاروں سولر پلیٹیں،کنورٹر، پنکھے اور واٹر پمپ لے گئے جن کی کم از کم قیمت دو لاکھ 25 ہزار روپے بنتی ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ چوری کی ایف آئی آر تھانہ قادر پور راں میں درج کرائی گئی۔ وہ سامان کی برآمدگی کے لیے کئی بار تھانے سے رابطہ کر چکے ہیں مگر ابھی تک سکول کا چوری شدہ سامان برآمد نہیں ہو سکا۔
چیف ایجوکیشن افسر ملتان فیض عباس نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملتان ڈویژن کے ایک ہزار 328 سکولوں سے چوری کی وارداتوں پر صرف 589 ایف آئی آر درج کرائی گئیں جس کی وجہ سے متعلقہ سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں سے جواب طلبی کی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ سولر پینلز اور دیگر سامان کی چوریوں کے معاملے پر ایک محکمانہ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کا سربراہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالجبار کو بنایا گیا تھا جنہوں نے اپنی سفارشات محکمہ تعلیم کو بھجوا دی ہیں۔
کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ تمام سکول جہاں سے سولر پینلز یا پورا سسٹم چوری کیا گیا ہے ان میں چوکیدار کی اسامی ہی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے چوری کی واداتیں ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محکمے کا کروڑوں روپے مالیت کاسامان چوری ہوا ہے لیکن پولیس نے کوئی ریکوری نہیں کی۔ اس طرح سولر منصوبہ عملاً ناکامی سے دوچار ہوا اور سکول دوبارہ اندھیروں میں گھر گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
اُجالا چوری: پنجاب کے دو سو سے زائد سرکاری سکولوں سے چور شمسی توانائی کا سامان لے اُڑے۔
سرکاری دستا ویزات اور محکمہ تعلیم کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ خانیوال میں 637 سکولوں میں سولر سسٹم لگایا گیا تھا جن میں سے 210 سکولوں سے پینل چوری ہو گئے۔ ان وارداتوں کے صرف 149 مقدمات درج کرائے گئے جبکہ 61 سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے گئے اور انہیں جلد مقدمات درج کرانے کی ہدایات دی گئیں۔
ضلع ملتان میں 721 سکولوں میں سولر پینل نصب کئے گئے تھے جن میں سے 191 کے پینل چوری ہوئے تاہم تمام وارداتوں کے مقدمات درج کرا دیے گئے۔ لودھراں کے 534 سرکاری سکولوں میں سولر پینل لگائے گئے جن میں سے 92 کے پینلز چوری ہوئے اور 91 ایف آئی آرز درج ہوئیں۔
ضلع وہاڑی میں 849 سکولوں میں سولر سسٹم لگایا گیا تھا جن میں سے 835 سکولوں سے سولر پینل چوری ہو گئے اور صرف 158 وارداتوں کے مقدمات درج کرائے گئے جبکہ 681 ہیڈ ماسٹروں کو نوٹس جاری کر کیے گئے ہیں۔
سٹی پولیس افسر ملتاں کے ترجمان فیاض بلوچ بتاتے ہیں کہ جب کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو متعلقہ تھانہ کارروائی کرتا ہے اور پولیس نے پینلز کی برآمدگی کے لیے مختلف مختلف علاقوں میں چھاپے بھی مارے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پینلز کی برآمدگی کا تناسب کم ہے تاہم پولیس اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ان مقدمات میں ایک واردات کے دو ملزمان سامان سمیت گرفتار کر لیے گئے جن سے45 لاکھ روپے مالیت کی سولر پلیٹیں اور دیگر سامان بھی برآمد ہوا۔ دیگر سکولوں میں وارداتیں کرنے والے افراد کو بھی جلد گرفت میں لے لیں گے۔
تاریخ اشاعت 17 فروری 2024