وسیم احمد، لاہور میں کاروں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ دسمبر 2018ء کی ایک صبح وہ جناح ہسپتال کے قریب اپنے گھر سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف روانہ ہوئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی رفتار مقررہ حد سے کچھ زیادہ تھی جو کینال روڈ کے نزدیک سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے نے چھ بج کر 33 منٹ پر ریکارڈ کر لی اور انہیں چالان جاری ہو گیا۔
"صرف دس منٹ بعد کینال روڈ ہی کے ایک اور مقام پر دوسرے کیمرے نے میری گاڑی کو چھ بج کر 43 منٹ پر نوٹ کیا اور مجھے تیز رفتاری (اوورسپیڈنگ) پر ہی دوبارہ چالان جاری کر دیا گیا۔"
ایک ہی روز میں ایک ہی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر بار بار چالان کا سب سے دلچسپ مگر ایک اور واقعہ ٹاؤن ہال کے قریب تعینات ایک سیف سٹی انسپکٹر نے سنایا۔
وہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ شیراز نامی موٹرسائیکل سوار جس نے ہیلمٹ نہیں پہن رکھا تھا شہر میں معمول کے کاموں کے دوران متعدد جگہوں پر گیا جس پر مختلف مقامات پر نصب کیمروں نے ان کی تصاویر لیں اور انہیں پانچ ای چالان (ڈیجیٹل)جاری کر دیے۔
"غریب موٹرسائیکل سوار پر ایک ہی روز میں مجموعی طور پر 10ہزار (فی چالان دو ہزار) روپے جرمانے کا بوجھ آن پڑا جو وہ فوراً ادا نہیں کر سکے۔ نتیجتاً ان کی موٹر سائیکل ضبط کر لی گئی۔"
مذکورہ سیف سٹی انسپکٹر انکشاف کرتے ہیں کہ یہ کیمرے روزانہ اگر 500 چالان کرتے ہیں تو ان میں سے ایک ہی خلاف ورزی پر بار بار جرمانوں کے ایک یا دو کیسز نکل ہی آتے ہیں۔
پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی(پی ایس سی اے) کے لیے تو بظاہر یہ "ایک یا دو کیسز" ہیں مگر لاہور کی سڑکوں پر روزانہ سفر کرنے والے شہریوں کے لیے ای چالان کا یہ نظام وبال جان بن چکا ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس نے ویسے تو لاہور کے کچھ حصوں میں تصویری ثبوت کے ساتھ ای چالان جاری کرنے کا آغاز 2016ء میں کر دیا تھا لیکن پورے شہر میں اس کا نفاذ ستمبر 2018ء میں عمل میں آیا۔
تاہم پنجاب سیف سٹی اٹھارٹی کے تحت ای چالان (ڈیجیٹل) کا سلسلہ جولائی 2022ء میں شروع کیا گیا تھا۔
ای ٹکٹنگ کیا اور کیسے؟
پی ایس سی اے کے مطابق لاہور شہر میں ٹریفک سگنل سے منسلک کیمرے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑی (بالخصوص نمبر پلیٹ کی) کی خود کار طریقے سے تصویر بناتے ہیں اور اسے سیف سیٹیز اتھارٹی کے کنٹرول روم کو بھیج دیتے ہیں۔
کنٹرول روم کا سسٹم ازخود اس خلاف ورزی کی تاریخ، وقت اور مقام کے ساتھ گاڑی کی رجسٹریشن کی تصدیق کرتا ہے جس کے بعد ای چالان یا جرمانے کا ٹکٹ جاری کیا جاتا ہے۔ یہ چالان 48 گھنٹے کے اندر پاکستان پوسٹ کے ذریعے گاڑی مالک کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
گاڑی مالک اگر خود گاڑی نہ بھی چلا رہا ہو تب بھی ای چالان کی صورت میں ٹکٹ یا نوٹس گاڑی مالک(جس کے نام گاڑی رجسٹر ہے) کے پتے پر بھیجا جاتا ہے اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
پی ایس سی اے اور سٹی ٹریفک پولیس ای چالان کے لیے موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء کی شق 116 اے کا استعمال کر رہے ہیں۔
اس قانون میں ای ٹکٹنگ کا طریق کار یوں درج ہے کہ اگر کوئی شخص ٹریفک قانون (شیڈول 12) کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جاتا ہے تو مجاز افسر اسے جرم بتاتے ہوئے اس کے خلاف موقعے پر الزام عائد کر سکتا ہے۔
پولیس افسر یا مجاز شخص فارم-J کی پانچ کاپیوں پر چارج لگائے گا اور فوری طور پر (الف) فارم-J کی تین کاپیاں ملزم کو فراہم کرے گا اور اس کا اعتراف حاصل کرے گا۔
(ب) چوتھی کاپی اور ضبط شدہ دستاویز کو بینک برانچ، پوسٹ آفس یا ٹریفک سیکٹر کے دفتر کو بھیجے گا جہاں سے جرمانے کی ادائیگی کے بعد ملزم اپنی دستاویز حاصل کر سکتا ہے۔ اور (ج) پانچویں کاپی دفتر میں ریکارڈ کے لیے اپنے پاس رکھے گا۔
تاہم سیف سٹیز اتھارٹی کے کیمروں کی مدد سے ای چالان یا ڈیجیٹل ای ٹکٹنگ میں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی اس قانون کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔
سیف سٹی اٹھارٹی کی ای ٹکٹنگ، قانونی یا غیرقانونی
ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر چالان قابل اعتراض نہیں لیکن جب سیف سٹی اٹھارٹی کے کیمروں کی مدد سے ایک ہی خلاف ورزی پر ایک ہی دن میں ایک گاڑی کو کئی کئی چالان ملنے لگے تو متعدد شہریوں نے اس اقدام کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔
پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی 2015ء میں ایک آرڈیننس کے تحت وجود میں آئی تھی جس کو 2016ء میں ایکٹ بنا دیا گیا تھا۔ اس قانون کا ابتدائیہ کہتا ہے کہ
"صوبے کے بڑے شہروں میں ہر شہر کی سطح پر مربوط کمانڈ، کنٹرول اینڈ کمیونیکیشنز (آئی سی3) سسٹم کی تعمیر، ترقی اور دیکھ بھال کے لیے پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی کا قیام ضروری ہے تاکہ لوگوں کی حفاظت اور دوسرے مقاصد کو یقینی بنایا جا سکے۔"
"دوسرے مقاصد" اور مال روڈ کے تاجروں کی ایک درخواست پر عدالتی فیصلے کو جواز بنا کر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے کیمروں کا استعمال ای چالان یا ای ٹکٹنگ کے لیے شروع کر دیا جس کے لیے الگ سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔
غیرمنصفانہ چالانوں پر شہریوں نے ای ٹکٹنگ کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور موقف اختیار کیا کہ سیف سٹیز اتھارٹی کو کیمروں کے ذریعے چالان کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ لہٰذا اس اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس طارق سلیم شیخ نے یکم جون 2022ء کو ایک ہی نوعیت کی ان درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے ای چالان کو غیر قانونی (116 اے کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے) قرار دے دیا۔
عدالت عالیہ نے فیصلے میں قرار دیا کہ لاہور میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کی مدد سے گاڑیوں کے ای چالان کابینہ کی منظوری اور قانون سازی کے بغیر کیے جا رہے ہیں۔
فیصلے میں اگرچہ اعتراف کیا گیا ہے کہ پی ایس سی اے کے انٹیلی جنس ٹریفک منیجمنٹ سسٹم سے لاہور کی ٹریفک کے انتظام میں بہتری آئی ہے، لیکن اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت نے مذکورہ نظام مکمل تیاری اور قانونی فریم ورک کے بغیر متعارف کرایا۔
عدالت عالیہ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس قانونی خلا کو پر کرنے کے لیے معاملہ فوری طور پر وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں لائیں۔
تاہم اس فیصلے کے خلاف سیف سٹی اتھارٹی نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی۔ جس پر 23 جون 2022ء کو جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اتھارٹی کو تاحکم ثانی ای چالان جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
حکومت نے تاحال سیف سٹی اتھارٹی کے انٹیلی جنس ٹریفک منیجمنٹ سسٹم(کیمروں کی مدد سے ای چالان) سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا مگر ای ٹکٹنگ یا چالان کا سلسلہ جاری ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس لاہور کی سرکاری ویب کے مطابق ٹریفک رولز کی مجموعی طور پر 24 خلاف ورزیوں پر موٹر سائیکل، کار، گاڑی(پبلک سروس/پرائیویٹ/پبلک کیریر) چلانے والوں کو جرم کی نوعیت کے مطابق 200 روپے سے لے کر دو ہزار تک جرمانے کیے جاتے ہیں۔
رولز کی خلاف ورریوں کی اس فہرست میں حد رفتار سے تجاوز، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا، ہیلمٹ نہ پہننا وغیرہ سے دھواں دینے والی گاڑی چلانا تک شامل ہیں۔
پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی کے میڈیا نمائندے حافظ طیب صوبے میں تقریباً ڈھائی ہزار ای چالان روزانہ جاری ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
کیا ٹریفک جرمانے محض ریونیو جمع کرنے کاذریعہ ہیں؟
کار ڈیلر وسیم احمد الزام عائد کرتے ہیں سیف سٹی اتھارٹی کا ای چالان سسٹم اب ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہیں، صرف سرکاری ریونیو(آمدنی) بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
مالی سال 24-2023ء کے اختتام پر جون میں سامنے آنے والی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کی ٹریفک پولیس نے سال بھر میں زیادہ چالان کرنے کا نیا ریکارڈ بنایا تھا۔
ٹریفک پولیس کو مالی سال کے دوران جرمانوں کی مد میں ساڑھے چار ارب روپے کا ہدف دیا گیا تھا لیکن اس مد میں لگ بھگ پانچ ارب 25 کروڑ وصول کیے گئے جو ٹارگٹ سے 16.8 فیصد زیادہ تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ رواں سال چھ ماہ (جنوری سے جون کے آخر تک )کے دوران لاہور میں شہریوں کو جرمانوں کے 28 لاکھ ٹکٹ (ای چالان) جاری کیے گئے جن میں سے دو لاکھ 20 ہزار موٹر سائیکل سواروں کو صرف ہیلمٹ نہ پہننے پر بھیجے گئے۔
اگرچہ اعدادوشمار سے ٹریفک جرمانوں سے ریونیو جمع کرنے کی بات بھی زیادہ غلط نہیں لگتی تاہم ان اقدامات سے لاہور شہر کی ٹریفک میں بلاشبہ بہتری آئی ہے۔
تاہم ٹریفک کے نظام میں بہتری کے باوجود ای ٹکٹنگ یا ای چالان پر شدید اعتراضات موجود ہیں، خاص طور پر لاہور کے مکین اس سسٹم سے تنگ ہیں۔
سیف سٹی کی ای ٹکٹنگ میں آخر خرابی کیا ہے؟
شیخوپورہ کے رہائشی ہارون شبیر اپنی گاڑی پر اکثر ریگل سٹی آتے جاتے ہیں جنہیں دو ماہ قبل سیف سٹیز اتھارٹی سے موصول ہونے والے ایک چالان نے حیران کر دیا۔
چالان میں لکھا گیا تھا کہ انہوں نے فیصل آباد روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا جس پر ان کو دو ہزار جرمانہ عائد کیا گیا ہے جبکہ گاڑی کے ڈرائیور سے ہیلمٹ پہننے کی توقع کرنا ہی غلط ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملا جس پر انہوں نے اپنے احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔ یہ وڈیو وائرل ہونے پر جب تنقید بڑھی تو سیف سٹی انتظامیہ بھی جاگ گئی۔
سیف سٹیز اتھارٹی کے نمائندے نے اس ویڈیو پر کمنٹ کرتے ہوئے وضاحت دی کہ یہ ایک تکنیکی غلطی تھی، نظام کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ آئندہ ایسی غلطیاں نہیں ہوں گی اور یہ کہ ان کا چالان منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ممکن ہے یہ تکنیکی غلطی ہو مگر کار ڈیلر وسیم احمد اور موٹرسائیکل سوار شیراز کے ساتھ جو واقعات پیش آئے وہ اب بھی ٹریفک ای ٹکٹنگ نظام کا حصہ ہیں اور اس سسٹم کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
وسیم احمد آج چھ سال بعد بھی حیرت زدہ اور غصے میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سفر کے دوران چند منٹ کے وقفے سے دو چالان جاری کر دیے جائیں؟ یہ سسٹم انصاف کے کسی اصول پر پورا نہیں اترتا۔
اوہائیو سمیت کئی امریکی ریاستوں، متحدہ عرب امارات، سکاٹ لینڈ، برطانیہ اور متعدد دیگر ممالک میں مدتوں سے ای ٹکٹنگ کا نظام رائج ہے مگر کہیں بھی ایک ہی سفر کے دوران ٹریفک قانون کی ایک ہی خلاف ورزی پر دوبار چالان نہیں بھیجا جاتا۔
دوسرے لفظوں میں وہاں ای ٹکٹنگ یا چالان سسٹم کے اندر ایک بفرٹائم یا نظام موجود ہے جو ایک سفر یا خاص وقفے کے دوران رولز کی خلاف ورزی دہرانے پر دوبارہ چالان کو روکتا ہے۔
دنیا بھر میں اگر سسٹم سے دو مرتبہ ٹکٹ جاری ہو بھی جائے تو اسے ایک ہی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ میں اگر جج چاہے تو سنگین نوعیت کی خلاف ورزی پر دہرا جرمانہ کر سکتا ہے۔
لیکن پنجاب سیف سیٹیز اتھارٹی کا معاملہ الگ ہے۔
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ہر کیمرہ ایک علیحدہ یونٹ کے طور کام کرتا ہے جو ہر خلاف ورزی کو الگ کیس کے طور پر دیکھتا ہے چاہے اس میں چند منٹوں کا وقفے ہی کیوں نہ ہو۔
یعنی ایک طرف پی ایس ای اے کے انٹیلی جنس ٹریفک منیجمنٹ سسٹم میں کوارڈینیشن کی کمی ہے، دوسرا نگرانی کے الگوردم میں بفر سسٹم کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اوورسپیڈنگ کے حوالے سے بھی ابوظبی کے سوا عرب امارات کی بیشتر ریاستوں میں مقررہ حد رفتار کی خلاف ورزی پر 20 کلومیٹر کی رعایت دی جاتی ہے۔ لیکن لاہور میں ہر جگہ کسی بھی رعایت کے بغیر نیا چالان جاری کر دیا جاتا ہے۔
پی ایس سی اے کا دعویٰ ہے کہ ان کا نظام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے قوانین سے متاثر ہے لیکن قانوںی ماہرین اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔
لاہور کے وکیل علی عمران کا ماننا ہے کہ دنیا میں ٹریفک رولز کی خلاف ورزیوں پر سزا کے لیے جدید اور متوازن طریقہ کار اپنایا جاتا ہے تاکہ شہریوں کو غیر ضروری جرمانوں سے بچایا جا سکے۔
"تاہم پی ایس سی اے کی ای ٹکٹنگ کے طریقہ کار نے عوام پر غیرمنصفانه جرمانوں کا بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے ہی قلیل آمدنی کے باعث غربت میں جکڑے ہوئے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ محنت کش طبقے کے لوگ ان ٹریفک جرمانوں کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں جو اپنی روزی روٹی کے لیے موٹرسائیکلوں استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے پاس ای چالانوں کو چیلنج کرنے کے لیے نہ تو ڈیجیٹل تعلیم ہے اور نہ ہی وسائل ہیں۔
ای چالان اور شہریوں کی لاعلمی
علی عمران کا دعویٰ ہے کہ شہر میں ناخواندہ اور نیم خواندہ ڈرائیوروں کی اکثریت اس چالان کے طریقہ کار سے ناواقف ہے جو بے خبری میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف مصنوعی ذہانت کے ذریعے بلا تفریق ای چالان ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ای چالان وبالِ جان
اس دعوے کی تصدیق کے لیے لوک سجاگ نے مال روڈ، فیروزپور روڈ، مین بلیوارڈ گلبرگ اور کینال روڈ سمیت لاہور کے پانچ مقامات پر سروے کیا۔ اس سلسلے میں 25 ڈرائیوروں سے بات کی گئی جن میں آٹھ رکشہ ڈرائیور، آٹھ موٹرسائیکل سوار اور نو کار ڈرائیور شامل تھے۔
نتائج حیران کن تھے۔ پچیس میں سے 15 افراد یعنی 60 فیصد ڈرائیور ای-چالان کے نظام سے مکمل طور پر لاعلم تھے، 10 یعنی 40 فیصد نے بتایا کہ انہوں نے اس نظام کے بارے میں سنا تو ہے لیکن چالان کو چیک کرنے اور جرمانہ کی ادائیگی کا طریقہ نہیں جانتے۔
تاہم ایم اے او کالج چوک پر ڈیوٹی کرنے والے ٹریفک سارجنٹ عرفان احمد بتاتے ہیں کہ جونہی کسی کا ای چالان کٹتا (جنریٹ ہوتا) ہے اسی وقت گاڑی کی رجسٹریشن میں درج مالک کے فون نمبر پر پیغام (ایس ایم ایس) بھیجا جاتا ہے۔ چالان گھر بعد میں پہنچتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اعتراض ہو کہ انہیں غلط جرمانہ کیا گیا ہے تو وہ پی ایس سی اے کو ای میل(etclhr@psca.gop.pk) پر شکایت بھیج سکتے ہیں۔ تاہم ٹرک ڈرائیوروں، رکشہ آپریٹروں و دیگر عام شہریوں کے لیے جرمانہ منسوخ کرانا آسان نہیں۔
سیف سٹیز اتھارٹی، ٹیکنالوجی کی مدد سے عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی تھی جس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد شہروں کو محفوظ بنانا اور پولیس کی استعداد کار میں اضافہ کرنا ہے۔ لیکن اس کا سارا زور ای چالان پر ہی نظر آتا ہے۔
سماجی و قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اتھارٹی کو اپنے بنیادی مقاصد پر توجہ دینی چاہیے۔ تاہم پی ایس سی اے کے ترجمان عمیر خیام کا اصرار ہے کہ ہر ٹریفک خلاف ورزی پر فوری چالان جاری کرنا شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
لاہور کے رہائشی ماہر قانون میاں عبدالمتین بتاتے ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے جس کے شہریوں پر وسیع اثرات ہوتے ہیں۔ سیف سٹی اتھارٹی کو ای چالان کا اختیار دینے کے لیے باضابطہ قانون سازی ضروری ہے ورنہ انصاف اور شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی بفر سسٹم کے بغیر، خودکار نظام کے تحت ایک ہی خلاف ورزی پر متعدد چالان جاری ہونا سنگین مسئلہ ہے۔ پی ایس سی اے کے نظام کو قانونی اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔
پبلک پالیسی کے ماہر عبدالرؤف کہتے ہیں کہ ایسی پالیسیاں جن میں عوامی پیسہ شامل ہو انہیں لوگوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ ورنہ عوام انہیں پولیس کا ہتھیار سمجھتے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
لیکن ترجمان سیف سٹیز اتھارٹی کا ایک ہی موقف تھا کہ ای چالان کا عمل لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے فیصلے کی بنیاد پر جاری ہے تاہم اس کے لیے قانون سازی پر غور ہو رہا ہے۔
تاریخ اشاعت 18 دسمبر 2024