پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے اربوں مالیت کے ہوٹل اور موٹل کیوں بند پڑے ہیں؟

postImg

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے اربوں مالیت کے ہوٹل اور موٹل کیوں بند پڑے ہیں؟

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

اڑتالیس سالہ اختر مسیح راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ وہ ٹانگوں کی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن وہ گزر اوقات کے لیے تین پہیوں والی موٹرسائیکل کے ساتھ 'بائیکیا' میں کام کرتے ہیں۔ جہاں سے وہ پانچ سے سات سو روپے دہاڑی کماتے ہیں۔

اختر مسیح پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) میں 25 سال بطور سنیٹری ورکر کام کرتے رہے۔ اس دوران وہ سوات، مالم جبہ، گلگت، ہنزہ، چترال، ناران میں محکمے کے موٹلز میں ڈیوٹی کر چکے ہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن پی ٹی ڈی سی نے اچانک سیکڑوں ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا اور موٹلز سمیت تمام آپریشنز بند کر دیئے۔ فارغ ہونے والوں میں ان سمیت محکمے کے 272 مستقل ملازمین بھی شامل تھے۔ ساڑھے تین سال سے یہ موٹلز سیاحوں کے لیے نہیں کھولے گئے۔

پاکستان میں سیاحت کی فروغ کے لیے 1970ء میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت پی ٹی ڈی سی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم برسوں تک یہ ادارہ معلومات فراہم کرنے کے سوا سیاحوں کے لیے کوئی سہولت فراہم نہ کر سکا۔

وفاقی حکومت نے 1976ء میں پہلے راولپنڈی کا تاریخی لگژری 'فلیش مینز ہوٹل' پی ٹی ڈی سی کے سپرد کیا۔ ایک سال بعد مزید دو ادارے موٹلز(نارتھ) لمیٹڈ اور پاکستان ٹوورز لمیٹڈ اس میں شامل کر دیے تھے۔ یہ دونوں کمپنیز ایکٹ 1913ء کے تحت بنائے گئے تھے جو حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں۔

موٹلز(نارتھ) لمیٹڈ کے تحت پی ٹی ڈی سی ملک بھر میں 35 موٹلز اور چار ریستوران چلاتا رہا جبکہ پاکستان ٹوورز کے زیر اہتمام ایونٹس اور سیاحتی دوروں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ 1991ء سے اگست 2019ء تک لاہور دہلی بس سروس بھی اسی کے زیر انتظام تھی۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں واقع پی ٹی ڈی سی کے 19 موٹلز صوبائی حکومتوں کے حکومت کے حوالے کیے گئے تھے۔ تاہم صوبائی حکومتوں نے ملازمین لینے سے انکار کر دیا۔ یوں وفاق اور صوبوں میں تنازع طے نہ ہونے کے باعث یہ موٹلز بھی غیر فعال رہے۔

اسی دوران تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ پی ٹی ڈی سی کے تمام موٹلز اور ریستوران نجی شعبے کے حوالے کر دیے جائیں۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ سب نقصان میں جا رہے ہیں جس سے بجٹ پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی انتظامیہ میں زیادہ سے زیادہ 22 افراد کا بورڈ آف ڈائریکٹرز اور منیجنگ ڈائریکٹر بطور چیف ایگزیکٹو شامل ہیں۔ انچارج وزیر چیئرمین اور انچارج سیکرٹری بطور وائس چیئرمین کام کرتے ہیں۔

پی ٹی ڈی سی نے یکم جولائی 2020ء کو ایک ہی روز میں تین نوٹیفیکشن جاری کیے۔ جن کے تحت موٹلز(نارتھ) لمیٹڈ، پاکستان ٹوورز لمیٹڈ اور فلیش مینز ہوٹل کو بند کر دیا گیا۔ تینوں اداروں کے آپریشنز معطل کر کے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا۔

نوٹیفیکیشنز میں اس اقدام کی وجہ برسوں کا مالی خسارہ اور کورونا وبا سے ہونے والا نقصان بتائی گئی۔ 

اگلے روز 'پی ٹی ڈی سی کی ری سٹرکچرنگ' کے عنوان سے سرکولر کے ذریعے رائٹ سائزنگ کے نام پر ہیڈ کوارٹر کے 50 فیصد ملازمین بھی فارغ کر دیے گئے تھے۔ اس سرکلر کے مطابق یہ اقدام وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں اٹھایا گیا۔

یوں دو دن میں پی ٹی ڈی سی کے 272 مستقل ملازمین و افسروں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد دہاڑی دار کارکنوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔

بیروزگار ملازمین اب تک عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ انہیں نہ تو بقایا جات ملے اور نہ ہی نوکریاں بحالی ہو سکیں۔

ملازمین  نے احتجاج شروع کیا تو حکومت نے افسروں کو چار اور کارکنوں کو پانچ تنخواہیں دینے کی پیشکش کی تھی مگر متاثرین نے اسے 'ناکافی' قرار دے دیا اور عدالت چلے گئے۔

بتیس سال قبل پی ٹی ڈی سی میں بطور اکاؤنٹنٹ بھرتی ہونے والے جواد علی مختلف موٹلز میں کام کر چکے ہیں۔ وہ پی ڈی ڈی سی گلگت میں بطور منیجر انچارج  خدمات انجام دے رہے تھے جب انہیں 22 ساتھیوں سمیت نوکری سے نکالا گیا۔

جواد علی پی ٹی ڈی سی کے خسارے میں ہونے کی بات کو 'سفید جھوٹ' قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کے دعوے کی تردید یا تصدیق کے لیے پی ٹی ڈی سی کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

 وہ بتاتے ہیں کہ کورونا میں موٹل بند ہونے سے پہلے انہوں نے دو کروڑ 65 لاکھ روپے کا خالص منافع پی ٹی ڈی سی کو دیا تھا۔ حالانکہ یہ موٹلز منافعے کے لیے نہیں بلکہ سیاحت کو فروغ دینے کی خاطر بنائے گئے تھے۔

 وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے انہیں 30 سالہ خدمات کا صلہ واٹس ایپ پر ٹرمینشن لیٹر کی صورت میں دیا ہے۔ یہاں تک کہ محکمے نے گولڈن ہینڈ شیک تو دور بقایاجات بھی ادا نہیں کیے۔ جس کی وجہ سے ان کے ساتھ کام کر نے والی خواتین اور مسیحی ملازمین کی حالت قابل رحم ہے۔

مانسہرہ کے رہائشی علی اصغر آخری دنوں پی ٹی ڈی سی ناران کے منیجر تھے۔ اب وہ نکالے گئے ملازمین کی کمیٹی کے چیئرمین اور سپریم کورٹ میں کیس کے مدعی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی ڈی سی میں کام کرنے والے ہزار سے زائد ڈیلی ویجز ویٹرز وغیرہ سب بے روزگار ہو چکے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ پہلے ہائی کورٹ اور اب سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ حکومت سے بات چیت بھی ہوتی رہی تاہم ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

"پی ڈی ایم حکومت نے آتے ہی ایم این اے عبدالقادر مندوخیل کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی۔ جس نے پی ٹی ڈی سی انتظامیہ کو احکامات جاری کیے تھے کہ ملازمین کے تحفظات دور کیے جائیں اور انہیں مالی پیکج دیا جائے۔"

علی اصغر کے مطابق 13 دسمبر 2022ء کو پی ٹی ڈی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں ہدایت کی گئی کہ ملازمین کو مالی پیکج دیا جائے گا جس کی رقم لگ بھگ 66 کروڑ 70 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس رقم کی ادائیگی پر ملازمین کیسسز واپس لیں گے اور موٹلز کو لیز پر دے دیا جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔

ساڑھے تین سال سے پی ٹی ڈی سی کے اربوں مالیت کے ہوٹلز، موٹلز بے کار پڑے ہیں، سیاحت کا نقصان الگ ہو رہا ہے۔ حکومت ان کو لیز پر پر دینے کے لیے مختلف اوقات میں ٹینڈرز تو جاری کر چکی ہے لیکن حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سیاحوں کی تعداد اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ: وادی نیلم میں ماحولیاتی آلودگی بڑھنے لگی

وقار احمد لاہور کے رہائشی اور سیاحت کے دلدادہ ہیں۔ انہوں نے کئی سفرناموں کے مصنف مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کا سفر کیا ہے۔

 وہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی ڈی سی موٹلز میں قیام ان کی ترجیح رہی ہے۔ ان  کا منفرد طرز تعمیر اور یہاں دستیاب تاریخ و ثقافت کی معلومات سیاح کو اپنے طرف راغب کرتی ہیں۔

" اکثر سرکاری ہوٹلز موٹلز خوبصورت مقامات پر واقع ہیں۔جیسے اباسین (دریائے سندھ کا پشتو نام) کنارے واقع پی ٹی ڈی سی بشام، جہاں شام کو حسین منظر اور دریا کے شور کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی سیاح رات یہیں گزار کر صبح نئی منزل کو روانہ ہو جاتے تھے۔ "
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے موٹلز کی بندش پر مستنصر حسین تارڑ سے بات کی تھی۔

"انہوں نے بتایا کہ میں خود بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر تھا اور میں نے کئی بار اجلاس میں ان کی بندش کے فیصلے کی مخالفت کی ہے کیونکہ میرے لیے پی ٹی ڈی سی موٹلز اور ہوٹل میوزیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ صرف کے ٹو موٹل ہی کو لے لیں، جس سے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی یادیں وابستہ ہیں۔ یہاں پر انہوں نے نشانیاں چھوڑی ہیں اور اپنے دستخط کیے ہیں۔ اس لیے انہیں لیز یا بند کرنا سنگین غلطی ہے جو سیاحت کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو گی۔"

پی ٹی ڈی سی کے ہیڈ آفس اسلام آباد میں موجود انفارمیشن منیجر مختار احمد بتاتے ہیں کہ انہیں اس مسئلہ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لوک سجاگ نے دو مرتبہ ایم ڈی کے دفتر جا کر بات کرنے کی کوشش کی لیکن اہلکاروں نے بتایا "صاحب دفتر میں نہیں ہیں"

 تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر سیاحت عبدالمنیم بتاتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد ہوٹلز صوبوں کے پاس آ گئے تھے مگر وفاق نے فنڈز نہیں دیے جبکہ موٹلز میں بیوروکریٹس اور وزیر و مشیر مفت میں مہمان ٹھہراتے تھے۔

"حالت یہ تھی کہ کورونا میں تو پی ٹی ڈی سی کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کے بھی پیسے نہیں تھے۔ ہم نے مزید نقصان سے بچنے کے لیے ہوٹلز کو لیز پر دینے کی کوشش کی تھی لیکن وفاقی حکومت نے کوئی پالیسی بنائے بغیر انہیں بند کر دیا تھا۔"

تاریخ اشاعت 2 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.