پنجاب کے پرائیویٹ سکولوں میں کیا ہو رہا ہے؟

postImg

عریج فاطمہ

postImg

پنجاب کے پرائیویٹ سکولوں میں کیا ہو رہا ہے؟

عریج فاطمہ

ام عائشہ نے گزشتہ برس ایم اے اردو کی ڈگری مکمل کی تو انہیں گھر کے قریب ایک نجی سکول میں ملازمت مل گئی۔ سکول کی پرنسپل نے انہیں ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے پریپ کلاس کی ذمہ داری سونپ دی۔ عائشہ بتاتی ہیں کہ وہ ماہانہ ساڑھے چار ہزار روپے کے عوض سکول میں مسلسل آٹھ گھنٹے کام کرتی تھیں۔

کلاس پڑھانے کے علاوہ ان کی اضافی ذمہ داریوں میں بچوں کو لنچ کروانا اور واش روم لے جانا بھی شامل تھا۔ انہیں سو سے زائد بچوں کی کاپیاں روزانہ چیک کرنا پڑتیں جو وہ ساتھ گھر لے آتیں۔

"پہلے مہینے کی تنخواہ انتظامیہ نے بطور سیکورٹی اپنے پاس رکھ لی تھی۔ میں دن بھر سکول میں بچے سنبھالتی اور گھر آ کر اگلے دن کے سبق بناتی، کاپیاں چیک کرتی، مجھے یوں لگنے لگا تھا کہ میں ایک ذہنی مریضہ بنتی جا رہی ہوں۔

اتنی جسمانی و ذہنی مشقت سے تنگ آ کر میں نے تین ماہ بعد نوکری چھوڑی اور جب سیکورٹی کی مد میں رکھی تنخواہ کا تقاضا کیا تو سکول والوں نے وہ بھی دینے سے انکار کر دیا"۔

پچھلی تین دہائیوں کے دوران، نجی تعلیمی اداروں نے بتدریج پاکستان میں ایک اہم تعلیمی خدمات فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی کے اوائل سے نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس 2017-18ء کے مطابق پنجاب میں سکول جانے والے بچوں میں سے تقریباً نصف نجی سکولوں میں داخل ہیں۔

یونیسف کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے  2 کروڑ 28 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ۔جبکہ ایشین ڈیویلپمنٹ فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال سکول جانے والے بچوں کی تعداد میں 20 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے ۔ایسی صورتحال میں تعلیم کی فراہمی کے لئے نجی شعبہ تعلیم اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اگرچہ نجی تعلیمی اداروں نے شرح خواندگی کو کم اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ گلی گلی کھلنے والےنجی فرینچائز سکول اساتذہ کا معاشی استحصال کر رہے ہیں۔

آسیہ بی بی پچھلے تین سال سے کندیاں کے ایک نجی سکول میں نرسری کلاس کو پڑھا رہی ہیں۔اٹھائیس سالہ آسیہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہیں مختلف سکولوں میں ملازمت کرتے ہوئے تقریبا آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ پچھلے سکول میں انہوں نے پانچ سال تک کام کیا لیکن ان کے تجربے یا پرفارمنس کی بنیاد پر ان کی تنخواہ یا عہدے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ماہانہ پانچ ہزار روپے کے عوض وہ سالہاسال کام کرتی رہیں لیکن وہ ہیڈ ٹیچر کے عہدے تک بھی نہیں پہنچ سکیں۔

"سکول پرنسپل کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ٹیچرز کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتاہے، حتٰی کہ اتنے برس کام کرنے کے بعد بھی مجھے ہیڈ ٹیچر نہیں بننے دیا گیا"۔

آسیہ مزید بتاتی ہیں، "سکول کے ڈائریکٹر کے دوست کی اہلیہ تعلیم اور تجربے میں مجھ سے کہیں کم تھی، اسے ہیڈ ٹیچر بنا دیا گیا"۔

اس ناانصافی پرانہوں نے دلبرداشتہ ہو کر سکول کی ملازمت چھوڑ دی۔ اس وقت وہ کندیاں کے ایک اور نجی سکول میں پڑھا رہی ہیں۔ اگرچہ حالات یہاں بھی مختلف نہیں ہیں لیکن ملازمت ان کی مجبوری ہے تو وہ کسی طرح گزارہ کر رہی ہیں۔

ضلع میانوالی کی آبادی 17 لاکھ 98 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں شرح خواندگی 61.28 فیصد ہے، جس میں مردوں کی شرح خواندگی 78.54 فیصد جبکہ عورتوں کی 44.35 فیصد ہے ۔

پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ  کے مطابق اس وقت ضلع بھر میں 352 رجسٹرڈ نجی سکول ہیں، 108 سکول عارضی طور پر رجسٹرڈ ہیں، 88 سکولوں نے رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہوئی ہے، 64 سکولوں کی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے جبکہ 48 سکول ایسے ہیں جنہوں نے رجسٹریشن کے لیے درخواست ہی نہیں دی ہے۔

ان نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ میں اکثریت تاجر اور کاروباری حضرات کی ہے۔ جن کا تعلیمی شعبہ سے  دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہی وجہ ہے ان اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کے ساتھ ہر طرح کا ناجائز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، جہاں انہوں نے ان اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کو معاشی غلام بنا دیا ہے۔

پنجاب میں ایک مزدور کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے طے کی گئی ہے ،  جبکہ میانوالی میں نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ ماہانہ پانچ سے سات ہزار روپے کے عوض نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔

مسز کلثوم کی عمر بتیس سال ہے وہ عیسی خیل کے ایک نجی سکول میں کئی سال پڑھاتی رہی ہیں۔انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ نجی سکول کسی قسم کے اصول و ضوابط کے تحت نہیں چلتے۔ ان کے اپنے قاعدے ہوتے ہیں۔ موسم سرما اور موسم گرما کی چھٹیوں میں بلاجواز اساتذہ کو چھٹیاں نہیں دی جاتیں۔ معمولی تنخواہ کے بدلے خواتین اساتذہ کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

"نجی سکولوں میں پیرنٹ ٹیچنگ میٹنگ کا نام پر اساتذہ کی عزت نفس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،ان میٹنگز میں آنے والے مرد حضرات خواتین اساتذہ کو ہراساں بھی کرتے ہیں ،لیکن ان کے خلاف شکایت کرنے پر بھی سکول انتظامیہ کبھی کارروائی نہیں کرتی کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے فیس کی مد میں آنے والی رقم بند ہو جائے گی"۔

 مسز کلثوم بتاتی ہیں کہ وہ اپنی شادی کے بعد بھی ایک سکول میں پڑھاتی رہیں لیکن کم تنخواہ اور کسی بھی قسم کی سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے شوہر نے نوکری چھڑوا دی۔

ورلڈبنک کی ایک تحقیقاتی رپورٹ  کے مطابق پاکستان میں خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں کے قریب چند محدود پیشوں میں ہی کام کریں، جن میں تعلیم سرفہرست ہے۔ انہیں مردوں کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ نجی سکولوں والے والے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور مقامی مارکیٹ سے غیر تربیت یافتہ خواتین کو کم تنخواہوں پر بھرتی کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس اوئیرنس کی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق چھوٹے شہروں اور قصبوں میں رہنے والی 70 فیصد سے زائد خواتین ماہانہ تین سے پانچ ہزار روپے کماتی ہیں اور انہیں کسی قسم کا الاؤنس بھی نہیں دیا جاتا۔ شہروں میں رہنے والی خواتین ان سے پانچ فیصد زیادہ کماتی ہیں یعنی ماہانہ 12 ہزار روپے سے یا اس سے کچھ زیادہ۔

مسز شازیہ جو کندیاں کے ایک نجی سکول کی پرنسپل ہیں، انہوں نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجی سکولوں میں اساتذہ کو ان کے حقوق نہیں دئے جاتے۔ انہیں ملازمت کا کنٹریکٹ لیٹر جاری نہیں کیا جاتا، تنخواہوں سے سیکورٹی کے نام پر کٹوتی کر لی جاتی ہے، جاب ڈسکرپشن کے حوالے سے کوئی پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سکول مالکان کی اکثریت میں کاروباری حضرات شامل ہیں جو پیسہ کمانے سے غرض رکھتے ہیں۔فرنچائز سسٹم نے ان کی یہ مشکل اور آسان کردی ہے۔

"ایسے  لوگ خود تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتے تو وہ سکول بھی اسی طرز پر چلاتے ہیں جیسے فیکڑیاں چلائی جاتی ہیں"۔

پنجاب میں نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے لئے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے باقاعدہ ایک نظام مرتب کر رکھا ہے۔ نجی سکول مالکان، پرائیویٹ ایجوکیشن پرووائیڈر اینڈ انفارمیشن سسٹم کی ویب سائٹ  پر نجی تعلیمی ادارے کے سربراہان اپنے سکول کو رجسٹر کرواتے ہیں۔ لیکن صوبے بھر میں نجی سکولوں میں اساتذہ کے حقوق یا مسائل کو حل کرنے کے لیےکسی قسم کی ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں ہے۔

مسز شازیہ کہتی ہیں یہی بات مسائل کی جڑ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کے لیے کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جہاں وہ اپنے حقوق کی بات کر سکیں۔ حکومت نے پرائیویٹ ٹیچرز  کے حقوق کے لیے کوئی پالیسی مرتب کی نہ ہی ایسا ادارہ ہے جو  سکول انتظامیہ کو بنیادی قوانین کا پابند بنائے"۔

کندیاں کے پرائیویٹ سکول دی اسپرٹ سکول کے ڈائریکٹر محمد نذ رنے  لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ٹیچرز کو ان کے تجربے اور مہارت کی بنیاد پر تنخواہ دی جاتی ہے، وہ اپنی مرضی سے پیش کش قبول کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے 389 سکولوں کے اساتذہ تین مہینوں سے تنخواہ کے منتظر

"علاقے کے دیگر سکولوں میں ایک ٹیچر کی جو تنخواہ مل رہی ہے ہم بھی وہی دے رہے ہیں"۔

محمد نذر نے مزید بتایاکہ  قصبوں اور دیہی علاقوں میں بچوں سے کم فیس لی جاتی ہے، یوں کاروبار میں رہنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سکول اپنے اخراجات کو کم رکھے۔

"اب چونکہ سکول کے بجٹ میں بڑا حصہ ٹیچرز کی تنخواہوں کا ہوتا ہے اس لئے مجموعی لاگت کو کم کرنے کے لئے لازمی طور پر ان کی تنخواہوں کو محدود رکھنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے"۔

تاہم، محمد نذر نے ٹیچرز کے زیادہ دیر کام کرنے اور لوڈ ہاورز  کےبارے میں سوال کا جواب نہیں دیا۔

میانوالی کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، حمیرہ یاسمین نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، نجی سکولوں کی رجسٹریشن کے وقت جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ سکول کا انفراسٹرکچر کیسا ہوگا، طلبا کی تعداد کیا ہوگی، اساتذہ کی تنخواہوں کتنی دی جائیں گی۔لیکن بارہا وزٹ کے دوران پتہ چلتا ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہیں کی گئیں پھر بھی سکول حکومت سے رجسٹرڈ شدہ ہے۔اس سلسلے میں ان تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کو اپنے حق کے لیے خود بھی آواز اٹھانی چاہئے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں اساتذہ کی جانب سے کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی، اس لیے ایسے اداروں کے خلاف ایکشن کس بنیاد پر لیا جاسکتا ہے؟

کندیاں کے پرائیویٹ سکول کے ٹیچر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پورے ملک میں پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کی کوئی یونین نہیں البتہ سکول مالکان نے اپنی تنظیم بنا رکھی ہے جس کی آڑ لے کر وہ من مانے فیصلے کرتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 2 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عریج فاطمہ کا تعلق کندیاں، ضلع میانوالی سے ہے۔ عریج نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ تعلیم، خواتین اور دیہی ترقی ان کے دلچسپی کے شعبے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.