کراچی سے تقربیاً 450 کلومیٹر شمال کی جانب ہندوستان کی دو ریاستوں – راجستھان اور گجرات – سے جڑے سندھ کے ضلع خیرپور کی تحصیل ٹھری میرواہ اور اس کے درجنوں دیہات کا گزشتہ تین ماہ سے ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہے۔
اس سال 18 اگست کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث اس تحصیل کے بہت سے علاقوں میں اب بھی آٹھ سے 10 فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ بہت سے گھر، سکول، ہسپتال اور دیگر عمارتیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہاں کے باسیوں کو روزِمرہ معمولات کے لئے ایک سے دوسری جگہ کا سفر کشتیوں پر طے کرنا پڑتا ہے۔
مہیر ویسر نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فدا حسین بلوچ بتاتے ہیں کہ ’’سیلاب نے اس علاقے میں کھڑی تمام فصلوں کو تباہ کر دیا ہے، سینکڑوں مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں اور جو زندہ بچے ہیں ان کے لئے چارہ دستیاب نہیں ہے۔‘‘ اس کے علاوہ پانی جمع ہونے کے باعث پھوٹنے والی بیماریاں بھی بہت سے جانیں لے چکی ہیں۔
فدا بلوچ کے مطابق نقل و حمل میں دشواری کے باعث مقامی لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ سیلاب سے پہلے بھینس کا دودھ 50 روپے فی کلو ملتا تھا جو اب دو سو روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ سبزیوں اور دالوں کے نرخ بھی کئی گُنا بڑھ گئے ہیں ’’یہی وجہ ہے کہ جو لوگ خوراک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ فاقوں پر مجبور ہیں۔‘‘
مہیر ویسر کے کچھ حصوں سے تو پانی نکل چکا ہے لیکن اس سے متصل حاجی غلام محمد، بیگی واہ، حاجی شیر خان، محمد موسیٰ، پیر مسافر اور محمد پریل جیلانی نامی دیہات میں آج بھی کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔ ان دیہات میں 80 فیصد مکانات گر چکے ہیں یا رہائش کے قابل نہیں رہے جس کے باعث یہاں کی بیشتر آبادی اونچے ٹیلوں پر خیمے لگائے بیٹھی ہے۔ ان تمام دیہات کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی مرکزی شاہراہ کا ایک کلومیٹر حصہ 10 فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ شاہراہ خیرپور کو ضلع سانگھڑ سے ملاتی ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے 17 نومبر کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ضلع خیرپور میں سیلاب سے ایک لاکھ 81 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں جبکہ ایک لاکھ 20 ہزار 369 گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 34 ہزار 984 مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ سیلاب کے بعد کھڑے پانی سے پھوٹنے والی بیماریوں میں 92 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ضلع میں سیلاب سے 622 کلومیٹر پر پھیلی 110 سڑکیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
حاجی غلام محمد گاؤں مہیر ویسر سے تین کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جہاں تک جانے کے لئے کشتی پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ تقریباً 130 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے زیادہ تر مکانات گر چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ رہائش کے قابل نہیں رہے۔
اس گاؤں کے ایک متموّل زمین دار معشوق علی، جو پچاس ایکڑ زرعی رقبے اور ایک پیٹرول پمپ کے مالک ہیں، کا کہنا ہے کہ سیلاب سے انہیں 50 سے 60 لاکھ روپے تک کا نقصان ہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 20 اگست کی رات پانچ سے چھ فٹ تک بلند سیلابی ریلے نے اچانک ان کے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے باعث لوگوں کو عجلت میں دو کپڑوں میں اپنے گھروں سے نکلنا پڑا۔
ستاون سالہ معشوق علی اپنے گاؤں میں ایک ٹیلے پر خیموں میں مقیم تقریباً 15 خاندانوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان لوگوں کے گھروں کے ساتھ ساتھ ان میں پڑا اناج بھی سیلاب بُرد ہو گیا ہے۔ ٹیلے پر پناہ گزین 75 سالہ رفیق کُبر دمہ کے مریض ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے ان کے گاؤں میں دواؤں کی ترسیل بند ہے جبکہ شہر کو جانے والے راستوں پر کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔
معشوق کو دیکھتے ہی رفیق انہیں اپنی تکلیف کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ ان کی بات سن کر معشوق بھرائی ہوئی آواز میں اپنے گاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمارا سب کچھ برباد ہو گیا لیکن کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ نہ تو سویلین اداروں نے یہاں کا رخ کیا ہے اور نہ ہی فوج ہماری مدد کو آئی۔ اگر کوئی امداد آتی بھی ہے تو اسے بڑی شاہراہوں کے قریبی علاقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہاں یہ امداد پہنچ ہی نہیں پاتی۔‘‘
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
فدا حسین اور معشوق علی اس علاقے میں ہاکڑا دریا کی قدیمی گزرگاہ کو سیلاب سے ہونے والی تباہی کا بڑا سبب گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے خشک ہو جانے والے اس دریا کا لگ بھگ ایک کلومیٹر چوڑا اور 10 سے 12 فٹ گہرا راستہ یہیں سے گزرتا ہے۔ جولائی میں جب شدید بارشیں آئیں تو پورے بالائی سندھ کا پانی اسی علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔
معشوق علی کے بقول ’’جب سیلاب آیا تو قریبی نہر خانواہ کے دوسرے کنارے پر رہنے والے لوگوں نے اپنے علاقے کو بچانے کے لئے اس کے دونوں کناروں کو توڑ دیا۔ چونکہ ہمارے دیہات نشیب میں ہیں اس لئے سیلاب کا تمام پانی یہیں جمع ہو گیا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں
کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔
فدا بلوچ بتاتے ہیں کہ ہاکڑا دریا کی اس گزرگاہ میں سڑکیں بن جانے اور دیگر تعمیرات کے باعث ان کا گاؤں سیلابی پانی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس گزرگاہ کا ایک کلومیٹر گہرا حصہ اب بھی کئی فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ دریا کی قدرتی گزرگاہ سے رکاوٹوں کو ہٹا کر پانی نکالا جائے ’’لیکن سرکار ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد بالآخر مہیر ویسر اور دیگر قریبی دیہات کے لوگوں نے پانی نکالنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کر کے اس گڑھے کو بھرنے کا کام شروع کر دیا۔
چوبیس نومبر کی صبح اس گاؤں کے بیسیوں جوان ٹرالیوں کے ذریعے مٹی لا کر اس گڑھے میں ڈال رہے ہیں اور اسے کَسّی، بیلچوں اور ہاتھوں سے ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کام میں پیش پیش 42 سالہ جاوید احمد ویسر کو امید ہے کہ ایک ماہ میں وہ اس گڑھے کو بھرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 26 نومبر 2022