گلگت میں گندے پانی کی نکاسی کا ناقص انتظام: 'زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے بہت سی مقامی عمارتیں 2030 تک زمین بوس ہو جائیں گی'۔

postImg

کرن قاسم

postImg

گلگت میں گندے پانی کی نکاسی کا ناقص انتظام: 'زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے بہت سی مقامی عمارتیں 2030 تک زمین بوس ہو جائیں گی'۔

کرن قاسم

صابرہ بیگم کے مکان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، اس کا فرش بیٹھنے لگا ہے اور اس میں ہر وقت ایک ناگوار بدبو پھیلی رہتی ہے۔

ان مسائل کی وجہ ان کے محلے کا استعمال شدہ گندا پانی ہے جو نکاسی کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث زمین میں جذب ہو کر ان کے مکان کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ وہ گلگت شہر کے یادگار محلہ میں رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں کبھی کبھی زیرِ زمین پانی کی سطح اس قدر بلند ہوجاتی ہے کہ ان کے بیت الخلا کا گندا پانی اس کے اندر ہی پھیلنے لگتا ہے۔ ہر بار جب ایسا ہوتا ہے تو انہیں "تقریباً سات ہزار روپے خرچ کر کے اس پانی کے اخراج کا انتظام کرنا پڑتا ہے"۔

انہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال اس مکان میں گزارے ہیں لیکن اب وہ کسی ایسی جگہ منتقل ہونا چاہتی ہیں جہاں انہیں گندے پانی کی نکاسی کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔

ان کے محلے کے 12 سو کے قریب گھرانوں کے بیشتر افراد یہی چاہتے ہیں کہ وہ کہیں اور چلے جائیں کیونکہ وہ سب استعمال شدہ پانی کی نکاسی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نکاسی ایک کھلے نالے کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بہنے والا فضلہ نہ صرف زمین میں جذب ہو رہا ہے بلکہ اکثر گلیوں اور گھروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔ بعض نشیبی مقامات پر یہ پانی جوہڑوں کی صورت اختیار کر گیا ہے جو سردی کے موسم میں جم کر بدبودار برف بن جاتے ہیں۔

صابرہ بیگم کہتی ہیں کہ یہ جوہڑ ان کے خاندان کی ملکیتی اراضی سمیت قریبی زرعی زمینوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ نتیجتاً، ان کے مطابق، ان کی اراضی "ایک بدبودار تالاب بن گئی ہے جس میں فصلیں اور سبزیاں کاشت کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے"۔

تاہم یہ مسائل صرف یادگار محلے تک ہی محدود نہیں بلکہ کشروٹ، نگرل اور مجینی نامی محلوں سمیت گلگت کے کئی حصوں میں رہنے والے تقریباً پانچ ہزار گھرانے اسی طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان سب کو شکایت ہے کہ ان کے علاقوں سے استعمال شدہ گندے پانی کی مناسب طریقے سے نکاسی نہیں کی جا رہی۔ گلگت سپورٹس ایسوسی ایشن کے 35 سالہ صدر محمد ذاکر کہتے ہیں کہ انہیں شہر کے مشرقی حصے میں واقع سات ہزار آبادی پر مشتمل کشروٹ محلے سے اسی لیے نقل مکانی کرنا پڑی کہ سالہا سال سے زمین میں جذب ہونے والے گندے پانی نے ان کے گھر کی بنیادیں خستہ کر دی تھیں۔ اب وہ دو کلومیٹر دور جوٹیال نامی محلے میں رہتے ہیں اگرچہ وہاں منتقل ہونے کے اخراجات نے ان کی مالی حالت بہت خراب کر دی ہے۔

کشروٹ میں ہی فرنیچر سازی کے ایک کارخانے کے جواں سال مالک وقاص احمد خان کہتے ہیں کہ نالوں میں بہنے والا گندا پانی اکثر ان کے کارخانے میں داخل ہو جاتا ہے جس سے وہاں پڑی لکڑی خراب ہو جاتی ہے اور انہیں لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے دوسرے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کئی مرتبہ اس صورت حال پر احتجاج بھی کیا ہے تاکہ وہ شہری انتظامیہ تک اپنا یہ مطالبہ پہنچا سکیں کہ ان کے محلے میں نکاسی آب کے زیرِ زمین نظام کی فوری ضرورت ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کوششیں ابھی تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

<p>نالوں میں بہنے والا گندا پانی اکثر  کارخانوں میں داخل ہو جاتا ہے جس سے وہاں پڑا سامان خراب ہو جاتا ہے<br></p>

نالوں میں بہنے والا گندا پانی اکثر  کارخانوں میں داخل ہو جاتا ہے جس سے وہاں پڑا سامان خراب ہو جاتا ہے

کشروٹ میں دکان داری کرنے والے 40 سالہ عالم نور کا پتھروں سے بنا چار مرلے کا پورا مکان بھی زمین میں جذب ہونے والے پانی کی وجہ سے 2018 میں زمیں بوس ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے اس محلے میں رہ رہے ہیں لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہاں رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "مقامی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ محلے کی زمین میں جذب ہونے والے گندے پانی کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے"۔

مر کے بھی نہ چین پایا

گلگت شہر کا استعمال شدہ پانی متعدد چھوٹے بڑے کھلے نالوں کے ذریعے قریبی دریا میں ڈالا جاتا ہے۔ 2017 میں نیشنل انجینئرنگ سروس آف پاکستان (NESPAK) نے اس کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی جس میں کہا گیا کہ اس کی نکاسی کے موجودہ نظام کی وجہ سے شہر کے مرکزی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے۔ نتیجتاً مجینی، کھر، کشروٹ، نگرل، جوٹیال اور کنوداس نامی محلوں میں تعمیر شدہ بہت سی عمارتیں 2030 تک زمین بوس ہو جائیں گی کیونکہ وہاں زیرِ زمین پانی دو فٹ کی گہرائی پر آ گیا ہے حالانکہ کچھ سال پہلے یہ 18 فٹ کی گہرائی پر پایا جاتا تھا۔

یہ رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل نکاسی آب کے ایک ایسے نظام کی تعمیر ہے جو استعمال شدہ پانی کو شہر کی زمین میں جذب نہ ہونے دے۔

اس نظام کی عدم موجودگی میں فی الحال گلگت اور اس کے گردونواح میں جابجا گندے پانی کے جوہڑ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جوہڑ  کئی سال سے کشروٹ کے مرکزی قبرستان میں بھی موجود ہے۔

عباس نبی نامی مقامی شہری کہتے ہیں کہ سردی کے موسم میں یہ جوہڑ اس قدر پھیل جاتا ہے کہ قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ وہ اِس سال مارچ میں ہوئی اپنے چچا کی تدفین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے چند روز بعد ہی ان کی قبر میں گندا پانی داخل ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کی نعش سطحِ زمین پر آ گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس واقعے کی اطلاع مقامی انتظامیہ کو دی تو گلگت کے ڈپٹی کمشنر نے خود قبرستان کا دورہ کر کے صورتِ حال کا معائنہ کیا اور مقامی لوگوں کو اس میں بہتری کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن عباس نبی کہتے ہیں کہ تاحال اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کو بھی ان کے دورِ حکومت کے دوران قبرستان میں گندے پانی کی موجودگی سے آگاہ کیا تھا۔ "لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوا حالانکہ حافظ حفیظ الرحمان کے اپنے بھائی اسی جگہ مدفون ہیں"۔

تین جماعتیں ایک منصوبہ

گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نائب صدر اور علاقائی قانون ساز اسمبلی کے سابقہ ڈپٹی سپیکر جمیل احمد کہتے ہیں کہ 2010 میں جب اس علاقے میں ان کی جماعت کی حکومت بنی تو اس نے گلگت شہر میں نکاسی آب کا زیرِ زمین نظام تعمیر کرنے اور مقامی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے ایک فلٹریشن پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے مطابق اس منصوبے پر تین ارب روپے لاگت آنا تھی اور اسے تین سال میں مکمل ہونا تھا۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ 2015 میں اس پر کام کا آغاز ہوتے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہو گئی جبکہ اس کے بعد آنے والی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے، ان کے بقول، بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ معطل کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پیاس کے شہر میں دریا کا سراب: حکومتی نا اہلی کے باعث گلگت کے شہری آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھںے والے سابق وزیرِاعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ اسے معطل کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں وفاق حکومت سے اس کی باقاعدہ منظوری لے لی تھی اور اس کے لیے درکار رقم بجٹ میں مختص کرنے کے بعد جوٹیال کے مقام پر پانی صاف کرنے والے پلانٹ کی تعمیر بھی شروع کر دی تھی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ 2020 میں ان کی حکومت کا دورانیہ ختم ہو گیا تو یہ سب کام ٹھپ ہو گیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے 2020 میں گلگت بلتستان میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ کام دوبارہ شروع کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ اس دوران اس کی لاگت تین ارب روپے  سے بڑھ کر سات ارب روپے ہو چکی ہے۔ تاہم گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات و منصوبہ بندی فتح اللہ خان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے اس کے لیے درکار تمام رقم کا انتظام کر لیا ہے لہٰذا، ان کے مطابق، "اس پر عملی کام بھی جلد ہی شروع ہو جائے گا"۔

تاریخ اشاعت 31 جولائی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کرن قاسم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ گزشتہ 11 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.