مومل محسن کپاس کے کھیت میں کام کر رہی تھیں جب اچانک ان کا سر چکرایا اور وہ بے ہوش ہوکر گر گئیں۔ وہ چھ ماہ کے حمل سے تھیں اس لیے انہیں فوری طبی امداد کی ضرورت تھی لیکن قریب ترین ہسپتال تقریباً 30 کلومیٹر دور تھا اور وہاں پہنچنے کے لیے کوئی سواری دستیاب نہیں تھی۔ چنانچہ ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین نے ایک گدھا گاڑی کا انتظام کیا تاکہ اس پر ڈال کر انہیں ہسپتال پہنچایا جا سکے۔ چار گھنٹے کی مسافت کے بعد جب وہ وہاں پہنچیں تو ان کا حمل ضائع ہو چکا تھا۔
یہ واقعہ 2013 میں وسطی سندھ کے ضلع مٹیاری میں واقع مومل کے گاؤں جمال ڈاہری سے تین کلومیٹر دور پیش آیا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔
ان کے ساتھ کام کرنے والی اور انہی کے گاؤں کی رہنے والی مزدور خاتون خاتل فیض کہتی ہیں کہ اُس دن مومل کی طبعیت صبح سے ہی ناساز تھی اور وہ بار بار کھیت کے مالک کو کہہ رہیں تھیں کہ انہیں یا تو تھوڑا سا آرام کرنے کی اجازت دی جائے یا انہیں چھٹی دے دی جائے۔ لیکن، خاتل کے بقول، "وہ اس پر تیار نہیں تھا اور کہتا تھا کہ اگر اس نے انہیں چھٹی کرنے یا آرام کرنے کی اجازت دے دی تو سبھی مزدور خواتین یہی مطالبہ کرنے لگ جائیں گی اور اس طرح اس کا کام وقت پر مکمل نہیں ہو سکے گا"۔
خاتل کہتی ہیں جس کھیت میں کام کرتے کرتے مومل بیمار پڑیں "وہاں نہ تو کوئی سایہ دار درخت تھا اور نہ ہی پینے کے لیے صاف پانی دستیاب تھا"۔ اس لیے جب وہ بے ہوش ہوئیں تو ان کی ساتھی مزدور خواتین نے انہیں قریبی جوہڑ میں جمع بارش کا پانی لا کر پلایا۔
وفاقی ادارہ شماریات کا 19-2018 میں کیا گیا ایک سروے ظاہر کرتا ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو اکثروبیشتر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، اس کے مطابق، کام کے دوران زخمی یا بیمار ہونے والی 84 فیصد مزدور خواتین کا تعلق زرعی شعبے سے ہوتا ہے۔
اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیمار یا زخمی ہونے والی مزدور خواتین میں سے صرف 8.6 فیصد اپنا علاج کسی ہسپتال میں کرا پاتی ہیں جبکہ ان میں سے محض 23.5 فیصد علاج کے لیے کسی مستند ڈاکٹر یا طبی ماہر کے پاس جاتی ہیں۔ باقی 67.9 فیصد یا تو گھریلو ٹوٹکوں کی مدد سے ٹھیک ہونے کی کوشش کرتی ہیں یا پھر وہ غیرمستند معالجین سے دوا دارو لے کر گزارا کرتی ہیں کیونکہ ان کے پاس باقاعدہ علاج کے لیے درکار پیسے نہیں ہوتے۔
دوسری طرف، سروے کے نتائج کے مطابق، 45.9 فیصد مزدور خواتین کو اپنی بیماری یا زخم پر قابو پانے کے لیے کام سے چھٹی کرنا پڑتی ہے (جو اکثر بغیر تنخواہ کے ہوتی ہے) جبکہ 22 فیصد مزدور خواتین بیمار یا زخمی ہونے کے باوجود کام جاری رکھتی ہیں۔
پاکستانی مزدوروں کی ایک ملک گیر تنظیم، پاکستان نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، کے مرکزی رہنما ناصر منصور اس صورتِ حال کی ذمہ داری خواتین سے کام لینے والے زمین داروں اور ٹھیکیداروں پر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہ لوگ نہ تو مزدور خواتین کو علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں مناسب تنخواہ دیتے ہیں تاکہ وہ خود اپنا علاج کرا سکیں"۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور زرعی مزدور بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کر پائے کیونکہ ایک طرف حکومت ان مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے درکار قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے تو دوسری طرف وہ خود بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم نہیں ہو سکے۔
تنظیم، اتحاد، اختیار
وفاقی ادارہ شماریات کے سروے کے مطابق صوبہ سندھ میں خواتین مزدوروں کی کُل تعداد 25 لاکھ 20 ہزار ہے جن میں سے 19 لاکھ کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ ان دیہی مزدور خواتین میں سے 85.39 فیصد (16 لاکھ 22 ہزار چار سو دس) زرعی شعبے سے وابستہ ہیں۔
لیکن دیہی سندھ میں کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے اور زرعی معیشت کے ماہرین کہتے ہیں کہ کھیتوں میں مزدوری کرنے والی خواتین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی نظر میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چند سال پہلے تک قانونی طور پر یہ طے ہی نہیں تھا کہ زرعی شعبے میں کس طرح کا کام کرنے والے لوگوں کو مزدور کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی یا غیرسرکاری ادارہ ان مزدوروں کو کہیں رجسٹرڈ کر رہا تھا۔ نتیجتاً زرعی مزدور خواتین کو شمار کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔
یہ بات اس حد تک درست ہے کہ صوبہ سندھ کے کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والے لوگوں کو پہلی بار مزدور کا درجہ مارچ 2013 میں دیا گیا جب صوبائی اسمبلی نے سندھ انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ منظور کیا۔ اگرچہ ناصر منصور کا کہنا ہے کہ یہ قانون ابھی تک زرعی مزدوروں کی حکومتی اداروں کے ساتھ رجسٹریشن اور ان کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں بنا سکا لیکن، ان کے مطابق، اس کے منظور ہوتے ہی انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں سے مل کر زراعت کے شعبے میں ایسی مزدور تنظیمیں بنانے کی کوشش شروع کر دی تھی جو صنعتی شعبے میں کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 2013 میں ہی صوبے کے ماہی گیروں اور کھیت مزدور ہاریوں پر مشتمل پہلی تنظیم، سندھ ایگریکلچر اینڈ فشنگ ورکرز یونین، وجود میں آئی۔ پچھلے نو سالوں میں زراعت اور ماہی گیری کے شعبوں سے وابستہ مزدوروں کی دو مزید تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جبکہ مجوعی طور پر ان تینوں نتظیموں سے وابستہ مزدوروں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہو گئی ہے۔ ان میں سینکڑوں خواتین بھی شامل ہیں۔
ناصر منصور کہتے ہیں کہ سندھ ایگریکلچر اینڈ فشنگ ورکرز یونین کے مرکزی ارکان گاؤں گاؤں جاکر زرعی مزدوروں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ لوگ 2013 میں مومل کے گاؤں جمال ڈاہری بھی گئے جہاں مزدور خواتین نے ان کی باتیں سن کر اپنے حق کے لیے کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کا پسِ منظر بتاتے ہوئے خاتل کہتی ہیں کہ "مومل کے ساتھ پیش آنے والے طبی مسئلے نے ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو یہ احساس دلایا کہ انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا"۔ اس لیے جب سندھ ایگریکلچر اینڈ فشنگ ورکرز یونین کے کارکنوں نے انہیں بتایا کہ وہ اس وقت تک اپنے حقوق کے لیے موثر طریقے سے آواز نہیں اٹھا سکتیں جب تک وہ کسی تنظیم کی شکل میں اکٹھی نہ ہوں تو "ان کی باتیں سن کر کئی مزدور خواتین نے انہی کی یونین میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا"۔ یوں، خاتل کے الفاظ میں "سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے جہاں زرعی مزدور خواتین اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک یونین کی شکل میں منظم ہوئیں"۔
وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس تنظیم سے وابستگی کے نتیجے میں ان کے گاؤں کی مزدور خواتین کے حالاتِ کار میں خاصی بہتری آئی ہے۔ ان کے بقول "پہلے انہیں جو معاوضہ بھی ملتا تھا وہ اسے کوئی اعتراض کیے بغیر قبول کر لیتی تھیں لیکن اب وہ اپنے اوقات کار اور اجرت کا باقاعدہ حساب کتاب رکھتی ہیں"۔ اسی طرح انہوں نے نہ صرف کم اجرتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے بلکہ، خاتل کے مطابق، "زمینداروں کو کھیتوں میں مزدوروں کے لیے چھپر بنانے اور صاف پانی مہیا کرنے پر بھی مجبور کیا ہے"۔
بہتر اجرت یا حقوق کا تحفظ؟
سندھ کے مشرقی ضلع سانگھڑ کے گاؤں سرہاند فقیر بخش خاصخیلی سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ حنیفاں کوثر کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ گزشتہ چند سال میں ان کی اجرت میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے ساتھ زمینداروں کے رویے میں بھی بہتری آئی ہے۔ ان کے مطابق پہلے انہیں 40 کلوگرام کپاس چننے کے عوض دو سو روپے اجرت ملتی تھی جو اب ساڑھے تین سو روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح 40 کلوگرام گندم کی کٹائی کا معاوضہ 40 روپے سے بڑھ کر 50 روپے، مرچوں کی چنائی کی فی 40 کلوگرام اجرت دو سو روپے سے بڑھ کر تین سو روپے اور 100 کلوگرام پیاز کو کھیت سے نکال کر بوری میں بھرنے کا معاوضہ 70 روپے سے بڑھ کر ایک سو روپے ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے: پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین فاقے کرنے پر مجبور۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بہتری کافی نہیں کیونکہ، ان کے مطابق، زرعی مزدور خواتین کو صرف اس وقت اجرت ملتی ہے جب کسی فصل کی بوائی یا کٹائی کا موسم ہوتا ہے جبکہ سال کے کئی ماہ ان کے پاس روزی کمانے کے کوئی ذرائع نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں "اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے پورا سال کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والی مزدور خواتین کو کام کے دوران بہت سے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں کبھی حل نہیں کیا جاتا۔ ان ضمن میں وہ خاص طور پر کپاس کی فصل پر کیے جانے والے کئی طرح کے سپرے کا ذکر کرتی ہیں جس کے باعث "اس کی چنائی کے موقع پر خواتین جلد اور سانس کی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں جن کا علاج کرانے کے لیے ان کے پاس کوئی مالی وسائل نہیں ہوتے"۔
سندھ کی صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے انہی مسائل کو حل کرنے کے لیے دسمبر 2019 میں سندھ ویمن ایگریکلچرل ورکرز ایکٹ کے نام سے ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت زرعی مزدور خواتین کو وہ تمام حقوق دیے گئے ہیں جو صنعتی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو حاصل ہیں۔ ان میں کم از کم ماہانہ اجرت اور کام کے دورانیے کا تعین، کام کی جگہوں پر مناسب ماحول کی فراہمی، بڑھاپے میں درکار مالی امداد، مفت علاج معالجہ اور بچوں کے تعلیمی اخراجات میں مدد جیسی سہولتیں شامل ہیں۔ اس کے تحت زرعی مزدور خواتین کو یونین سازی کا حق بھی دیا گیا ہے۔
لیکن حنیفاں کو شکایت ہے کہ اس قانون پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ناصر منصور بھی ان سے متفق ہیں۔
اگرچہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کی منظوری زرعی مزدور خواتین کے حالات کار میں بہتری لانے کی جانب ایک اہم قدم ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس پر عمل درآمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس مقصد کے لیے قواعدوضوابط نہیں بنائے جاتے۔ ان کے مطابق ان قواعدوضوابط میں واضح طور پر لکھا ہونا چاہیے کہ کون سے سرکاری افسران اس قانون پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں کیا اختیارات حاصل ہوں گے اور زرعی مزدور خواتین کس طرح اپنی شکایات ان تک پہنچا سکیں گی۔
جب تک یہ قواعدوضوابط وجود میں نہیں آجاتے اور ان پر عمل درآمد یقینی نہیں بنایا جاتا، ناصر منصور کے خیال میں، اس وقت تک "سندھ ویمن ایگریکلچرل ورکرز ایکٹ کی افادیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا"۔
تاریخ اشاعت 17 مارچ 2022