ضلع صوابی کے خلدون محمد پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اینتھروپولوجی میں زیرتعلیم ہیں۔ یہاں داخلہ لینے کے لئے انہیں اپنے اہلخانہ بالخصوص والدہ کو راضی کرنا تھا جس کے لیے انہیں خاصی تگ و دو کرنا پڑی کیونکہ والد کے انتقال کے بعد وہ انہیں دور بھیجنا نہیں چاہتی تھیں اور گھر کی آمدنی میں ان کی پڑھائی کا خرچہ نکالنا بھی بہت مشکل تھا۔
جب ان کے بڑے بھائی محنت مزدوری کے لیے دبئی گئے تو انہوں نے خلدون کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لے لی۔
خلدون کے پاس اپنے بھائی کی بھیجی ہوئی رقم میں سے یونیورسٹی اور ہاسٹل کی فیس ادا کرنے کے بعد زیادہ پیسے نہیں بچتے اس لیے وہ ایک ایک روپیہ احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور نہایت مشکل حالات میں بھی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم پچھلے دنوں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن کے بعد انہیں اپنا تعلیمی مستقبل غیریقینی دکھائی دینے لگا ہے۔
مارچ کے پہلے ہفتے میں یونیورسٹی کے سکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش کو اپنے ہی گارڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے سے چند روز قبل اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں انگریزی کے لیکچرار بشیر احمد بھی یونیورسٹی کے سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔
اگرچہ دونوں واقعات میں ملوث ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا لیکن چند ہی روز میں کیمپس کی حدود میں پیش آنے والے ان واقعات سے طلبہ، اساتذہ اور یونیورسٹی کے عملے میں پریشانی پھیل گئی۔
پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ اور دیگر عملے کی 'جوائنٹ ایکشن کمیٹی' نے سات مارچ کو اس واقعے کے خلاف اور اپنے دیگر مطالبات کو لے کر ہڑتال کر دی جس سے تدریسی عمل اور انتظامی امور کی انجام دہی معطل ہو گئی۔
سکیورٹی سپروائزر ثقلین بنگش کے قتل کے بعد اساتذہ اور عملہ ہڑتال پر چلے گئے
خلدون کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بعد طلبہ میں خوف کی فضا پھیل گئی اور طویل ہڑتال سے سبھی کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی۔
''والدہ دن میں دو مرتبہ فون کر کے میری خیریت پوچھتی ہیں۔ ہڑتال نے تعلیم سے جڑے میرے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بھائی اور والدہ مجھ پر دوباؤ ڈال رہے ہیں کہ میں پڑھائی چھوڑ کر مزدوری کے لیے دبئی چلا جاؤں یا اپنے گاؤں واپس لوٹ کر کوئی کام کروں۔''
خلدون محمد کی طرح پشاور یونیورسٹی کے 52 شعبوں میں زیر تعلیم 17 ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات بھی قتل کے ان واقعات اور اس کے بعد طویل ہڑتال کے باعث اپنے تحفظ اور تعلیمی کیریئر کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
یونیورسٹی میں مختلف طلبہ تنظیموں کے اتحاد 'متحدہ طلبہ محاذ' کے چیئرمین مدار احمد کہتے ہیں کہ اساتذہ اور ملازمین نے غیرضروری طور پر طویل ہڑتال کی جس سے طلبہ کی تعلیم متاثر ہوئی۔
''اساتذہ کے بعض مطالبات ناحق تھے اور اس پورے احتجاج میں نقصان صرف طلبہ کا ہی ہوا۔ انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کے باعث طلبہ کا ایک سیشن تقریباً ضائع ہو چکا ہے۔ ثقلین بنگش کے قتل کے بعد ہمارا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور طلبہ کو سکیورٹی فراہم کی جائے۔ ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کی سکیورٹی نجی فرم سے واپس لے کر یہاں یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی تعینات کی جائے۔''
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا)کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان خان سے ہڑتال اور اس کے نتیجے میں طلبہ کے تعلیمی نقصان کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال یونیورسٹی کے تمام طلبہ و طالبات اور یہاں کام کرنے والے ہر شخص کے تحفظ کے لیے کی گئی۔
ہڑتال کے کے باعث طلبہ کا ایک سیشن تقریباً ضائع ہو چکا ہے
''اساتذہ اور دیگر عملہ ثقلین بنگش کے قتل کی تحقیقات اور ان کے اہلخانہ کے لیے امدادی پیکیج کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی میں ہر فرد غیر محفوظ ہے۔ جب سے موجودہ وائس چانسلر نے عہدہ سنبھالا ہے تب سے یہاں کے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ جس طرح ثقلین بنگش کو قتل کیا گیا اس طرح جامعہ کی حدود میں کل کسی اور کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔''
یہ ہڑتال 18 اپریل کو ختم ہوئی جس کے بعد جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بیان جاری کیا کہ ان کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے چونکہ عید الفطر قریب ہے لہٰذا کلاسیں عید کے بعد ہی بحال کی جائیں گی۔
پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار سیف اللہ خان کہتے ہیں کہ اساتذہ کے تمام جائز مطالبات پہلے تسلیم کرلیے گئے تھے۔ اس کے باوجود ہڑتال کو طول دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اساتذہ اور عملے نے اپنے بچوں کی فیس معاف کرنے اور ہاؤس سبسڈی اور ہاؤس ریکویزیشن صوبائی سے وفاقی ریٹ پر منتقل کرنے کے لیے بھی کہا تھا اور ان دونوں معاملات کو سینڈیکیٹ میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا گیا۔
ساتذہ کے ساتھ معاہدہ پہلے ہی ہو چکا تھا جس پر سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن اور گورنر کے مشیر برائے ہائیر ایجوکیشن کے دستخط ہیں تاہم اساتذہ اسے ماننے کو تیار ہی نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں
رحیم یار خان کے گرلز کالجوں میں دو ہزار طالبات کو پڑھانے کے لئے صرف 14 اساتذہ
پشاور یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما اسفند یار ربانی نے ہڑتال کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے گیارہ برس میں اس یونیورسٹی کے اساتذہ نے نو مرتبہ ہڑتال کی اور یونیورسٹی کو بند کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اساتذہ اور دیگر عملے کی یہ تمام ہڑتالیں تنخواہوں میں اضافے، ترقیوں اور مراعات کے حصول کے لیے ہوئیں اور اس دوران طلبہ کی تعلیم کے نقصان کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر کو ہٹانے کے لیے اساتذہ کا مطالبہ بھی نیا نہیں بلکہ اس سے قبل اس عہدے پر رہنے والے ڈاکٹر محمد آصف ،ڈاکٹر محمد عابد ،ڈاکٹر رسول جان اور ڈاکٹر عظمت حیات کو ہٹانے کا مطالبہ لے کر ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں۔ ان ہڑتالوں سے کروڑوں روپے فیسیں دینے والے ہزاروں طلبہ کو سخت نقصان ہوتا ہے۔ اساتذہ کہتے ہیں کہ وہ گرمی کی چھٹیوں میں کلاسیں لے کر ہڑتال کے دنوں کی کمی کو پورا کر دیں گے لیکن ایسے وعدے پہلے بھی کئے جاتے رہے ہیں جو کبھی ایفا نہیں ہوئے۔
اسفند یار نے ہائی کورٹ سے استدعا کی ہے کہ پچھلے دس گیارہ سال میں ہونے والی ہڑتالوں کا دورانیہ 16 ہفتے یا ایک سیمسٹر سے زیادہ بنتا ہے اس لیے طلبہ کو ایک سمیسٹر کی پوری فیس معاف کی جائے۔
تاریخ اشاعت 28 اپریل 2023