"اپنے بیٹے، بہو اور پوتوں سے ملنے کے لیے برسوں سے تڑپ رہا ہوں۔ ہم نے ان کی بازیابی کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے مگر کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ ہماری زندگیاں عذاب بن چکیں روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ رات کو جب سوچتا ہوں کہ وہ کس حال میں ہوں گے تو نیند اڑ جاتی ہے، پتہ نہیں اپنی زندگی میں انہیں دیکھ بھی پاؤں گا یا نہیں؟"
یہ کہنا ہے کہ کراچی کے رہائشی محی الدین کا جو اپنے بچوں کی شام سے واپسی کے منتظر ہیں۔
اس المناک کہانی کا آغاز 2014ء سے ہوتا ہے جب محی الدین کے صاحب زادے محمد کامران اپنی اہلیہ اور پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ آئل کمپنی میں ملازمت کے لیے ترکی جاتے ہیں۔ جہاں سے وہ شام میں داعش کے چنگل میں پھنس گئے۔
روزگار کے نام پر ٹریپ
اپنے بیٹے اور ان کے اہل خانہ پر بیت رہے دکھوں کی داستان سناتے ہوئے محی الدین کے چہرے پر کرب کے آثار عیاں تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ کامران آئل کی صنعت میں کام کرتے تھے۔ انہیں 2014ء میں ترکی کی ایک آئل کمپنی میں ملازمت کی آن لائن پیش کش ہوئی جس میں اہل خانہ کا ویزہ بھی شامل تھا۔ یہ بڑی آفر تھی جس کا بیٹے نے فائدہ اٹھانے کافیصلہ کیا۔
محمد کامران اپنی اہلیہ قرۃ العین اور پانچ سالہ اشعر سمیت ترکی چلے گئے مگر خوشی کے یہ دن بہت مختصر ثابت ہوئے۔
وہ کہتے ہیں کہ "منصوبہ سازوں" نے ان کے بیٹے اور ان کی فیملی کو ممکنہ طور پر ٹریپ کرکے شام کے ان علاقوں میں پہنچا دیا جو اس زمانے میں داعش کے زیر قبضہ تھے۔ جہاں انہیں عملاً قید میں رکھ کر ان سے آئل ریفائنری میں کام لیا جاتا تھا۔
2013ء میں ابھرنے والی دہشت گرد تنظیم داعش نے ایک سال کے اندر اندر عراق اور شام کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں اپنی "خلافت" کا اعلان کر دیا تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں شام کا مشرقی صوبہ دیر الزور بھی شامل تھا جہاں ایک آئل ریفائنری تھی۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق داعش یہاں سے تین ارب ڈالر تک کماتی رہی تاہم اکتوبر 2019 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر بغدادی کی ہلاکت کے بعد داعش بکھرنا شروع ہوگئی۔
محی الدین بتاتے ہیں کہ کامران کا دوسرا بیٹا داعش ہی کے کیمپ میں پیدا ہوا۔
"اس دوران ان کی کبھی کبھار فون پر ہم سے مختصر سی بات ہوجاتی تھی۔ وہ ہم سے رابطہ نہیں کر سکتے تھے البتہ جب انہیں موقع ملتا تو وہ کسی نہ کسی طرح کال کر لیتے تھے۔ کامران بتاتے تھے کہ داعش کی قید میں ان کی بہت بری حالت ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ جب داعش کو شکست ہوئی تو انہوں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
"اسی دوران کامران سے ان کی مختصر بات ہوئی تھی جس میں انہوں نے بس یہی بتایا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کے بعد میرا ان سے براہ راست کبھی رابطہ ہوا نہ بات ہو سکی۔"
داعش کے بعد کُرد ملیشیا کا پھندہ
محی الدین بتاتے ہیں کہ داعش کی قید سے رہائی کے بعد کامران اور ان کے اہل خانہ کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ ایک روز انہیں اپنے بیٹے کا خط کا موصول ہوا جو ریڈ کراس کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔
اس خط میں کامران نے بتایاتھا کہ وہ جیل میں ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور بچے کیمپ میں ہیں۔ "میں نے بھی ریڈ کراس کے ذریعے اس خط کا جواب دیا مگر اس کے بعد میرا بیٹے سے کوئی رابطہ ہوا نہ مجھے ان کا کوئی خط نہیں ملا۔"
محی الدین کو اس دوران شاید امید رہی کہ شام کے حالات سدھر جائیں گے اور ان کا بیٹا، بہو اور بچے جلد وطن لوٹ آئیں گے۔ لیکن جب ان کا رابطہ منقطع ہوا تو انہوں نے اپنے بچوں کی بازیابی کے لیے پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام کو خطوط لکھنا شروع کر دیے۔
انہوں نے پہلا خط 11 دسمبر 2023ء کو لکھا جس کے بعد مسلسل حکام سے رابطے کی کوشش کرتے رہے۔
وزارت خارجہ نے ان خطوط میں سے ایک کا جواب دیتے ہوئے محی الدین کو لکھا کہ شام میں ان کیمپوں تک پاکستانی سفارت خانے کی رسائی نہیں ہے اور انہیں (محی الدین کو) چاہیے کہ وہ وزارت داخلہ سے رابطہ کریں۔
محی الدین نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا، خط لکھے مگر انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔
لوک سجاگ نے بھی محی الدین کے خطوط سے متعلق پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
محی الدین کے مطابق کامران سے رابطہ ٹوٹنے کے کچھ عرصہ بعد ان کا اپنی بہو قرۃ العین سے رابطہ ہوا۔انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کامران کہاں ہیں۔
" قرۃ العین کے بقول داعش کی شکست کے بعد فرار ہونے کی کوشش کے دوران افراتفری میں وہ لوگ (قرۃ العین اور بچے) کامران سے بچھڑ گئے اور کُرد ملیشیا کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ اب وہ کرد ملیشیا کے کیمپ میں ہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ قرۃ العین کو جب موقع ملتا ہے تو کسی طرح کال کر لیتی ہیں۔ کرد ملیشیا کے کیمپ کی انتظامیہ بھی کبھی کبھار ان کو فون کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔
"یہ کال بہت مختصر ہوتی ہے جس میں صرف سلام دعا ہی ہو پاتی ہے۔ وہ ہم سے اپنی رہائی کے بارے میں پوچھتے ہیں مگر ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔"
انہوں نے بتایا کہ محمد کامران کا کچھ پتا نہیں مگر بہو اور پوتے اس وقت بہت برے حالات ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کی بہو اور بچے کرد میلیشا کے کیمپ 'روج' میں محصور ہیں۔ وہاں وہ پھٹے پرانے خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں کھانا بھی مشکل سے میسر ہوتا ہے البتہ کبھی کبھی این جی اوز کھانا پہنچا دیتی ہیں۔
"میرے بچوں نے وہ تکالیف اور دکھ جھیل رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ میں ہاتھ جوڑ کر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ اب تو خدارا ان کو واپس لانے میں ہماری مدد کریں۔"
عثمان فاروق ایڈووکیٹ کئی سال سے محمد کامران اور ان کے اہل خانہ کے وکیل کے طور پر اس مسئلے کی طرف حکام کی توجہ دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے متعلقہ اداروں کو کئی خطوط لکھے اور یاد دہانیاں کرائی ہیں مگر برسوں بعد بھی کسی نے اس مظلوم خاندان کی مدد نہیں کی۔
شامی کیمپوں میں کتنے پاکستانی محصور ہیں؟
عثمان فاروق کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق شامی کیمپوں میں محمد کامران کے خاندان کے علاوہ بھی کئی پاکستانی شہری، خواتین و بچے موجود ہیں جو روزگار کے نام پر ٹریپ ہوئے تھے اور ابھی تک وہیں محصور ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں ان کے خاندانوں کو معلوم ہی نہیں ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ کُرد ملیشیا کی جانب سے کھلی آفر ہے کہ ان کے کیمپوں میں جس ملک کے باشندے موجود ہیں وہاں کی حکومت ان سے رابطہ کرکے انہیں لے جاسکتی ہے۔ کرد ملیشیا پہلے بھی کئی ممالک کے شہریوں کو ان کے حوالے کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'
"ظاہر ہے اس کے پیچھے بیک ڈور ڈپلومیسی کام کرتی ہے جو ہر ریاست یا اس کی انتظامیہ اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے اپناتی ہے۔"
عثمان فاروق ایڈووکیٹ کا ماننا ہے کہ ریاست پاکستان چاہے تو کامران کے خاندان جیسے لوگوں کی رہائی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کرد ملیشیا سے رابطہ کیا جائے تو وہ ان شہریوں کو پاکستان کے حوالے کر دیں گے۔
اب ان مظلوموں کو بہت وقت ہوچکا۔ کامران کا وہ بچہ جو پانچ سال کی عمر میں یہاں سے گیا تھا اب پندرہ سال کا ہوچکا ہے۔
ان کہنا ہے کہ پاکستان، یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس اور ایسے کئی کنوینشنز کا حصہ ہے۔اس لحاظ سے بھی حکومت اور ادارے اپنے شہریوں کی امداد کے پابند ہیں۔
"وقت تیزی سے گزر رہا ہے، بس تھوڑی سی ہمت اور توجہ ان مظلوم پاکستانیوں کو وطن واپس لا سکتی ہے۔"
تاریخ اشاعت 25 دسمبر 2024