سال 2021ء میں سندھ پولیس نے ٹھٹہ میں مین پڑی اور گٹکا بنانے والی 15 فیکٹریوں پر چھاپے مارے، اگلے سال 16 فیکٹریوں پر جبکہ 2023ء کے پہلے چار ماہ میں ہی پولیس 14 فیکٹریوں پر چھاپے مار کر 167 مقدمات درج کر چکی ہے جس میں 296 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
تو کیا اب اس مکروہ کاروبار کا خاتمہ ہو جائے گا جسے طبی ماہرین سندھ میں مونہہ کے کینسر کو بڑھاوا دینے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں
'اب تو 20، 20 سال کے جوان منہ کے کینسر کے مریض ہیں': کیا سندھ پولیس گٹکا مافیا کو ختم کر پائے گی؟
وزیراطلاعات شرجیل میمن کا ماننا تو شاید ایسا ہی ہے۔ انہوں نے 28 اپریل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ حیدرآباد پولیس نے گٹکے اور مین پڑی کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مختلف تھانوں میں درج کی گئی ایف آئی آرز کی تفصیل اور ان کے تحت کی گئی گرفتاریوں کی تعداد بھی بتائی۔
کیا زیادہ ایف آئی آر درج کیے جانے کو گرینڈ آپریشن کہا جا سکتا ہے؟
لوک سجاگ نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ گٹکے اور مین پڑی تیار کرنے اور بیچنے کے جرم میں ایف آئی آرز درج ہونے کے بعد کیا ہوتاہے؟
48 سالہ عبدالواحد گھرانو نے لگ بھگ 13 سال ٹھٹہ شہر میں گٹکے اور مین پڑی کا کاروبار کیا اور اس دوران ان پر 30 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے لیکن ہر بار وہ باعزت بری ہوئے اور دوبارہ اسی کام میں جت گئے۔
عبدالواحد نے تین سال قبل فالج کا حملہ ہونے کے بعد اس کاروبار سے توبہ کر لی اور پولیس میں بھی حلف نامہ جمع کروا دیا تاکہ وہ دوبارہ ان پر اس کا الزام نہ لگا دیں۔"مجھ پر کاٹی گئی تمام ایف آئی آر جھوٹی ثابت ہوئیں کیونکہ پولیس عدالت میں کچھ ثابت نہیں کر سکی۔"
اس کی ایک امکانی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ جس عرصے میں عبدالواحد یہ کاروبار کرتے تھے، اس وقت قانون کافی ڈھیلا ڈھالا تھا۔
پولیس کی گٹکا بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 269 کے تحت ایف آئی آر درج کرتی تھی۔ یعنی انسانی صحت کو نقصان پہنچانا کے جرم میں، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ قید تھی۔ جب ماہرین نے گٹکے اور مین پڑی کے استعمال کو مونہہ کے کینسر میں اضافے سے جوڑنا شروع کیا تو ہائی کورٹ کی ہدایت پر پولیس نے ان مقدمات میں دفعہ 375 (J) کا اضافہ کرنا شروع کر دیا جو کسی کوکھانے میں زہر دینے یا زہریلا کھانا دینے کے جرم سے متعلق ہے اور اس کی سزا 14 سال قید ہے۔ لیکن زیادہ تر قانونی ماہرین نے اسے غیر مناسب قرار دیا۔
سندھ اسمبلی نے جنوری 2020ء میں مین پڑی، گٹکے اور ماوے کی روک تھام کے لیے علیحدہ سے قانون سازی کی جس سے انہیں بنانا، بیچنا اور رکھنا جرم قرار پایا، جس کی سزا تین سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ مقرر کی گئی۔
نئے قانون نے اس معاملے کے کچھ سقم تو دور کردیئے لیکن کچھ معاملات مبہم ہی رہے۔
سندھ کے ایک پبلک پراسیکیوٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گٹکے وغیرہ کے کیسز میں جرم ثابت ہونے کی شرح بمشکل چار فیصد ہے۔ وہ اپنے عہدے پر گذشتہ پانچ سال سے تعینات ہیں اور اب تک مین پڑی اور گٹکے کے ایک سو سے زیادہ مقدموں میں سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہو چکے ہیں۔ "میرے کیرئیر میں صرف عمرکوٹ میں چار مقدموں میں سزا ہوئی اور وہ بھی ہائی کورٹ نے ختم کر کے ملزموں کو بری کر دیا"۔
انہوں نے بتایا کہ نئے قانون کے مطابق ان مقدموں میں ایک آزاد شہری کا گواہ ہونا لازمی ہے لیکن کوئی شہری گواہ نہیں بنتا۔ جب پولیس خود بطور گواہ مشیرنامہ جمع کرواتی ہے تو دفاع کا وکیل ملزم کو سب سے بڑا فائدہ اسی بات کا دلواتا ہے کہ استغاثہ خود ہی گواہ بھی ہے جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ اس کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے اور وہ بری کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کے عمرکوٹ میں گٹکے وغیرہ کے ایک بڑے بیوپاری پر دو سال میں 10 سے زیادہ پرچے ہوئے لیکن وہ تمام کیسز میں بری ہوگیا۔ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پولیس جان بوجھ کر ایف آئی آر میں نقائص اور ابہام چھوڑ دیتی ہے جنہیں وکیل صفائی استعمال کرتا ہے۔
"حتمی چالان میں جگہ جگہ شک کی گنجائش چھوڑی جاتی ہے۔ جیسے جائے وقوع درست بیان نہ کرنا، پولیس عملدار کی طرف سے گواہی درست نہ دینا، جو مال پکڑا گیا تھا اس کو مقرر وقت اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تھانے کے مال خانے میں نہ رکھنا اور چھاپے کے وقت حاصل کیے گئے سیمپل کو مقررہ 72 گھنٹوں کے دوران فارینزک لیبارٹری نہ پہنچانا۔ یہ مقدمہ چھ ماہ سے ایک سال تک عدالت میں مکمل ہوجاتا ہے اور ملزم بری ہو جاتے ہیں"۔
اعظم گوپانگ 15 سال سے ٹھٹہ میں وکالت کر رہے ہیں۔ وہ اس کہانی کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔وہ ان مقدمات کو ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں جس کا سکرپٹ پہلے سے طے ہوتا ہے۔
وہ اس کی توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں ہر ضلع کی پولیس نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں پرچے کاٹنے کا ایک طرح کا ٹارگٹ طے کیا ہوا ہوتا ہے۔ پبلک پراسیکیوٹر اور ججوں کی کارکردگی کو بھی اس بات سے جانچا جاتا ہے کہ انہوں نے کتنے مقدمات نمٹائے۔ گٹکے وغیرہ کے مقدمات جلد مکمل ہو جاتے ہیں اور سب ہی کی کارکردگی کو بہتر ظاہر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ "مقدمات صرف نمبر پورے کرنے اور کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے ہوتے ہیں، یہ ایک خانہ پوری ہوتی ہے"۔
اعظم گوپانگ کا دعوی ہے کہ گٹکا مافیا خود قانون نافذ کرنے والوں کو 'ان کی کارکردگی بہتر' بنانے میں مدد کرتی ہے۔"ان مقدمات کے لیے گٹکے کے بیوپاری خود اپنے بندے پیش کرتے ہیں، جن پر پچاس یا ایک سو مین پڑی، گٹکے وغیرہ کے پیکٹ رکھنے کے جرم میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ ایک دن لاک اپ میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ بیوپاری وکیل کو بھی فیس دیتا ہے اور اپنے رضاکار ملزموں کو بھی ایک دن لاک اپ میں رہنے کا 15، 20 ہزار ادا کرتا ہے"۔
اعظم کا ماننا ہے کہ یہ طے ہوتا ہے کہ انصاف کی کاروائی پوری کی جائے گی لیکن سزا کسی کو نہیں ہو گی۔ "ان مقدمات میں جتنی دلچسپی وکیل صفائی کی ہوتی ہے اس سے زیادہ وکیل استغاثہ کی ہوتی ہے"۔
سینئیر سپریٹینڈینٹ پولیس (ایس ایس پی) ٹھٹہ عدیل حسین چانڈیو اس قانونی عمل کی کمزوریوں سے واقف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کوئی شہری گواہی کے لیے آگے نہیں آتا، ملزم کا وکیل سب سے پہلا اعتراض یہی کرتا ہے۔
انہوں نے ایک اور قانونی سقم کی بھی نشاندہی کی کہ مین پڑی اور گٹکا جن اجزا سے بنتا ہے جیسے چھالیا، کتھا، چونا، لونگ، الائچی وغیرہ، وہ اگر الگ الگ ہیں تو غیر قانونی نہیں لیکن جب ان کو آپس میں ملا کر گٹکا یا مین پڑی بنایا جائے تو جرم ہے۔ تو گویا اگر اجزاء ملزم سے علیحدہ علیحدہ حالت میں برآمد ہوں تو جرم نہیں۔ انہوں نے کہا کے یہ خود ایک بڑا سوال ہے جسے قانون سازی کرنے والوں نے نظرانداز کیا ہے۔
عدیل چانڈیو یہ بھی سوال کرتے ہیں: "گٹکے کا لازمی جزو یعنی چھالیہ کہاں سے آتی ہے؟ یہ ملکوں کی سرحد کیسے پار کرتی ہے؟ اس پر سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ یہ کسٹم والے کہاں ہوتے ہیں؟"
ان کا کہنا ہے کہ کے ملک کا نظام انصاف ملزم کے حق میں ہے۔ شک کے تمام فوائد ملزم کے لیے ہیں۔ "قانون میں کمزوریاں ہیں اور انصاف کا نظام ملزم دوست ہے اس وجہ سے سزائیں بالکل کم ہوتی ہیں"۔
انسپیکٹر جنرل (آئی جی) آف پولیس سندھ کے ترجمان ایس ایس پی سید عرفان بہادر کو گٹکے وغیرہ کے مقدمات میں سزائیں نہ ہونے پر لوک سجاگ نے چند ہفتے قبل سوالات لکھ کر بھیجے۔ انہوں نے سندھ پولیس کا موقف دینے کی یقین دہانی کروائی تاہم بار بار یاد دہانی کے باوجود انہوں نے تادم تحریر کوئی موقف نہیں دیا۔
تاریخ اشاعت 17 مئی 2023