پیاز کیوں مہنگا ہوا؟ 6 اہم حقائق

postImg

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پیاز کیوں مہنگا ہوا؟ 6 اہم حقائق

آصف ریاض

loop

انگریزی میں پڑھیں

 پاکستان پیاز پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور یہاں پر سالانہ تقریباً 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد پیدوار ہوتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پیاز صوبہ سندھ میں اگایا جاتا ہے جس کا مجموعی ملکی پیداوار میں تقریباً 40 فیصد حصہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان 33 فیصد، پنجاب 16 فیصد اور صوبہ خیبرپختونخوا 11 فیصد تک پیدا کرتے ہیں۔

پیاز کی کاشت کے حوالے سے پاکستان ان چند خوش نصیب ملکوں میں سے ہے جہاں پر تقریبا ہر موسم یعنی پورا سال پیاز کی فصل کاشت ہوسکتی ہے۔

سندھ کی فصل ختم ہو جائے تو پنجاب کی فصل منڈیوں میں آ جاتی ہے اور جب پنجاب سے فصل کم ہو جائے تو خیبر پختونخواہ اور پھر بلوچستان سے پیاز منڈیوں تک پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔

سال کے چھ ماہ جون سے نومبر تک تو سندھ، کے پی اور بلوچستان تینوں صوبوں سے پیاز کی فصل منڈیوں میں پہنچتی رہتی ہے۔

بحران کب شروع ہوا، کیا پیداوار کم ہوئی؟

نومبر 2023ء میں پاکستان کی سبزی منڈیوں میں پیاز کی اوسط قیمت 111 روپے فی کلو تھی جو دسمبر 2023ء میں 150 روپے، جنوری 2024ء میں 187 روپے اور فروری کے ابتدائی 15 دنوں میں 195 سے 215 روپے تک رہی۔ یہ قیمت لاہور سبزی منڈی کی ہیں۔ کراچی اور دوسرے شہروں کی مارکیٹوں میں صارفین 250 روپے سے 300 روپے تک پیاز خریدنے پر مجبور تھے اور اب بھی صورتحال لگ بھگ ویسی ہی ہے۔

دسمبر 2023ء میں پیاز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں تو اس وقت صوبہ سندھ سے تواتر کے ساتھ فصل منڈیوں میں پہنچ رہی تھی۔ بلکہ یہ تو وہ دن تھے جب جامشورو، میرپور خاص اور مٹیاری کی فصل چل رہی تھی اور یہ وہ اضلاع ہیں جو ملکی پیدوار میں تقریباً 17 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔  
پاکستان میں فی خاندان سالانہ 53.82 کلو گرام  پیاز استعمال کرتا ہے یعنی ایک ہفتے میں ایک گھر کو ایک کلو گرام سے تھوڑے سے زیادہ پیاز چاہیے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ آبادی اور فی خاندان کی کھپت کے حساب سے پورے ملک کو سال بھر میں 20 لاکھ 63 ہزار466 میٹرک ٹن پیاز مل جائے تو اس کا آسانی گزر ہوسکتا ہے۔

پچھلے تین سال میں پاکستان نے اوسطاً 20 لاکھ 21 ہزار 390 میٹرک ٹن پیاز پیدا کیا جو اس کی سالانہ ضرورت سے صرف 42 ہزار 76 میٹرک ٹن کم ہے۔ یہ کوئی اتنی بڑی مقدار بھی نہیں کہ قیمتیں ایک دم سے ہی دوگنا ہو جائیں۔

پچھلے تین سال میں پاکستان نے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن پیاز باہر بھیجا ہے اور پھر انہی سالوں میں اوسطاً تین لاکھ میٹرک ٹن باہر سے خریدا بھی ہے۔

بھارتی پیاز کو پاکستان میں داخلے کی اجازت کیوں نہ ملی؟

بھارتی میڈیا کے مطابق مرکزی حکومت نے آٹھ دسمبر 2023ء سے 31 مارچ 2024ء تک پیاز کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے جس کا مقصد ملک میں قیمتوں کو استحکام دینا ہے کیوں کہ پیاز کے رواں سیزن کے دوران مہاراشٹرا اور کرناٹک جیسے اہم پیداواری مراکز میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے پیاز کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔

بھارت، نیدر لینڈ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا پیاز برآمد کرنے والا ملک ہے جو سالانہ تقریبا 15 لاکھ ٹن پیاز باہر بھیجتا ہے۔ 2020ء کے اعداد شمار کے مطابق دنیا بھر میں پیاز کی برآمدات میں بھارت کا حصہ 17 فیصد رہا۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشا، متحدہ عرب امارات، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ بھارت سے پیاز کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ جیسے ہی بھارت نے ایکسپورٹ پر پابندی لگائی تو ان ملکوں میں قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔

بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے پابندی کے بعد مالدیپ میں پیاز کی قیمت تقریباً 700 پاکستانی روپے، بنگلہ دیش اور بھوٹان میں 500 سو اور نیپال میں 400 تک پہنچ گئیں۔

اگرچہ پاکستان، بھارت سے پیاز درآمد نہیں کرتا لیکن اس پابندی کی وجہ سے پاکستان میں بھی پیاز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔ لاہورکی مارکیٹوں میں پیاز کی اوسط فی کلوگرام قیمت جو نومبر میں 164 روپے تھی وہ دسمبر کے مہینے میں 250 تک چلی گئی۔

لاہور منڈی کے آڑھتیوں کے بقول جیسے ہی بھارت نے پابندی لگائی تو پاکستانی تاجروں نے پیاز باہر بھیجنا شروع کر دی کیوں کہ اس وقت تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں پیاز کی قیمت کافی زیادہ ہو گئی تھی۔ جیسے جیسے پاکستان سے پیاز باہر جاتا رہا تو مقامی سطح پر اس کی قیمتیں اوپر جاتی رہیں۔

آل پاکستان پھل و سبزی امپورٹ، ایکسپورٹ اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد شہزاد شیخ یہ تو مانتے ہیں کہ پاکستان میں پیاز کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے بھارت کی جانب سے پیاز کی برآمد پر پابندی ہے لیکن وہ یہ تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ پاکستان سے بڑے پیمانے پر پیاز کی برآمد شروع ہوگئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے سال بھر پیاز کی برآمد جاری رہتی ہے اور دسمبر سے اب تک بھی وہ آرڈر پورے کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ڈیڑھ سال پہلے جو سیلاب آیا تھا اس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں اور اس بار سندھ میں پیاز کی پیدوار کم رہی ہے۔
مگر حقائق شہزاد شیخ کے موقف کی تائید نہیں کرتے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے صرف دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں ایک لاکھ میٹرک ٹن کے قریب پیاز باہر بھیجا ہے۔

حالانکہ پچھلے تین سال سے پاکستان پورے سال میں اوسطاً دو لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن ہی باہر بھیجتا رہا ہے۔ صرف دو ماہ میں ایک لاکھ ٹن ایک بڑی مقدار ہے۔

کراچی میں پیاز کی بڑی تاجر کمپنی امتیاز انٹرپرائزز کے سربراہ امتیاز حسین تسلیم کرتے ہیں کہ پچھلے تین ماہ میں پاکستان سے پیاز کی برآمد میں تقریباً دس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کی قیمت اچھی تھی تو برآمد کندگان اور کسان اچھے خاصے منافعے میں رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے پابندی کی وجہ سے ملائیشیا، متحدہ عرب امارات  یا سری لنکا کے ساتھ پاکستانی تاجروں کو موریشس، مالدیپ اور جنوبی افریقہ جیسی منڈیوں تک رسائی بھی حاصل ہوئی ہے۔

"ہم نے نئی درآمدی منڈیاں بھی تلاش کی ہیں۔اس وقت پاکستان آنے والی پیاز  کی بڑی کھیپ قزاقستان، تاجکستان سے افغانستان کے راستے  پاکستان میں آ رہی ہے۔ پاکستان پہلی مرتبہ قازقستان سے پیاز درآمد کر رہا ہے جبکہ اس سے پہلے پاکستان کا انحصار افغانستان، چین اور ایران پر ہی ہوتا تھا"۔

پاک افغان سیاست کے پیاز پر کیا اثرات پڑے؟

لاہور کی سبزی و پھل منڈی میں بطور کمیشن ایجنٹ کام کرنے والے محمد عاطف بتاتے ہیں کہ عام طور پر لاہور میں پیاز کی روزانہ 50 سے 60 گاڑیاں آتی ہیں کیونکہ لاہور آنے والا پیاز پنجاب کے کچھ دوسرے شہروں میں بھی سپلائی ہوتا ہے۔

"ان دنوں 25 سے  30 گاڑیاں ہی لاہور پہنچ رہی ہیں جن میں فی گاڑی 25 سے 30 میٹرک ٹن تک وزن ہوتا ہے۔ رسد اور طلب کے فرق کی وجہ سے لاہور کی منڈی میں پیاز کی قیمت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے آنے والے پیاز کی ترسیل میں بارڈر پر کچھ مسائل ہیں جبکہ ایران نے پیاز کی برآمد پر 40 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کی وجہ سے وہاں سے بہت ہی کم مقدار میں پیاز کی برآمد ہو رہی ہے۔

طور خم بارڈ پر کسٹم کلیرنس ایجنٹ حاجی وحید نے 'سجاگ' کو تصدیق کی کہ اس وقت افغانستان سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد 40 سے کم ہے جبکہ عموماً 60 سے 65 گاڑیاں روزانہ آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کسی روز تو 20 سے 25 گاڑیاں ہی پاکستان آتی ہیں۔

ان کے مطابق افغانستان سے پاکستان کو پیاز کی سپلائی صرف طور خم بارڈر کے راستے ہی ہوتی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کے مابین غیر یقینی سیاسی حالات کی وجہ سے پابنیدیاں لگتی رہتی ہیں۔بارڈر کے دوسری طرف  بہت ساری گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں لیکن انہیں اجازت نہیں ملتی۔

چیمبر آف کامرس پشاور کے سابق صدر شاہد حسین کہتے ہیں کہ طور خم بارڈ بلاوجہ بند کر دیا جاتا ہے یا پھر مال کی منتقلی کو سست کر دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے کئی کئی دن تک گاڑیاں دونوں اطراف کھڑی رہتی ہیں۔

"پیاز جلدی خراب ہونے والی جنس ہے جس سے تاجروں کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تواتر کے ساتھ پیاز اور دوسری اجناس کی تجارت جاری رہے تو دونوں ملکوں میں خوردنی اشیا کی قلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔

ان ساری مشکلات کے باوجود ایک اندازے کے مطابق دسمبر2023ء اور جنوری 2024ء میں پاکستان نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن پیاز باہر سے بھی منگوایا ہے اور اس کی زیادہ تر مقدار افغانستان کے راستے ہی پاکستان آئی ہے۔

سندھ کا پیاز کہاں گیا؟

تاجروں کے مطابق ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے وزارت تجارت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے 12 جنوری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں برآمدات کی اجازت کو پیشگی ادائیگی کے ساتھ بھی مشروط کیا گیا ہے۔یعنی پاکستانی تاجر بیرونی خریدار سے پیشگی رقم وصول کریں گے۔

امتیاز حسین کہتے ہیں کہ حکومت کے اس فیصلے کے بعد برآمد کافی محدود ہو گئی ہے کیوں کہ اس ریٹ پر دوسرے ملکوں میں خریدار بہت کم ہیں جو مجبوری میں خرید بھی رہے ہیں انھوں نے مقدار کم کر دی ہے۔

لاہور کے آڑھتی محمد عاطف، امتیاز احمد سے متفق نہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ پیاز کی برآمد کم ہوئی ہے تو پھر پاکستان میں اس کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہو رہیں؟

وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس مرتبہ سندھ سے پیاز کی سپلائی بھی کم ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سندھ کے کسان اپنی فصل کراچی کی منڈی تک پہنچانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور وہاں سے تاجر اسے باہر کے ملکوں کو بھیج رہے ہیں۔

"جو تھوڑا بہت پیاز آ رہا ہے وہ اچھی کوالٹی کا نہیں ہے۔ تاجر اچھے معیار کا پیاز باہر بھیجنے کے بعد بچ جانے والا کم معیاری پیاز یہاں پر فروخت کر رہے ہیں"۔

انہیں تو یہ بھی خدشہ ہے کہ بہت سے تاجر  افغانستان کے راستے آنے والے پیاز کو خرید کر  دیگر ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں کیوں کہ اس کی قیمت پاکستانی پیاز کے مقابلے میں کم ہے۔

باہر سے آنے والے پیاز کی قیمت تقریبا 46 روپے کلو ہے جبکہ تاجر 236 روپے کلو کے حساب سے باہر بھیج رہے ہیں

رمضان میں پیاز کی قیمت کہاں تک جائے گی؟

وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 12 جنوری کے بعد پاکستان میں پیاز کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھی ہیں۔بارہ جنوری کو لاہور کی منڈی میں پیاز کی قیمت 185 روپے فی کلو تھی جو 24 جنوری تک 225 تک پہنچ گئی۔

لاہور سبزی منڈی کے بعض آڑھتیوں کے خیال میں حکومت کے اس فیصلے کے بعد پیاز کی قیمتوں میں تیزی اس لیے آئی ہے کہ اب  ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی ہے۔

ان کے خیال میں چونکہ کچھ ہی دنوں بعد رمضان بھی شروع ہونے والا ہے تو ذخیرہ اندوز اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے کمانا چاہتے ہیں۔

بھارت کی طرف سے آٹھ دسمبر کی پابندی کے بعد جب پاکستان میں پیاز کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہونے لگا تو نگران حکومت نے پیاز کی بڑھتی ہوئی برآمدات اور قیمتوں کے استحکام کے لیے پیاز کی برآمدی قیمت کو 750 ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر 1200 ڈالر فی ٹن کر دیا۔ اس کے باوجود قیمت میں کمی نہیں ہوئی۔ تاہم پچھلے دنوں پیاز کی قیمت میں کچھ گراوٹ اس وقت دیکھنے میں آئی جب 21 فروری کو خبر آئی کہ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش، ماریشس، بحرین اور بھوٹان کو 31 مارچ تک محدود پیمانے پر یعنی 54 ہزار  760 ٹن پیاز برآمد کرنے کی عارضی اجازت دے دی ہے۔ اس سے صرف ایک روز میں پیاز کی تھوک قیمت  137 روپے کلو گرام تک گر گئی۔

کہیں خوشی کہیں غم

پیاز کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں پر شہری صارفین کو پریشان کیا ہوا ہے تو وہیں پر کاشت کار اس سے خوش نظر آرہے ہیں کیوں کہ انہیں اپنی فصل کا بہتر معاوضہ جو مل گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آواران کے پیاز کے کاشتکار: 'ہر چیز مہنگی ہے، صرف ہماری محنت سستی ہو گئی ہے'

سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے پیاز کے بڑے کاشت کار عبدالماجد ملکانی کہتے ہیں کہ 15 نومبر کو جب انھوں نے اپنی فصل منڈیوں میں بھیجنا شروع کی تو ایک بوری (100 کلو گرام)  کے ساڑھے چار ہزار سے پانچ ہزار روپے دام مل رہے تھے لیکن چھ دسمبر کو جیسے ہی بھارت کی طرف سے ایکسپورٹ پر پابندی عائد کی گئی تو قیمت بڑھ کر 10 سے 12 ہزار تک پہنچ گئی۔

انہوں نے اس مرتبہ 24 ایکڑ رقبے پر پیاز کی کاشت کی تھی جس سے ان کے بقول انہیں فی ایکڑ 12 لاکھ روپے تک کی آمدن ہوئی ہے۔

عبدالماجد کاشت کار ہونے کے علاوہ پیاز کے خریدار بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں وہ زیادہ تر جنس پنجاب بھیجتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ انھوں نے صرف ایک گاڑی لاہور بھیجی باقی سارا مال کراچی بھیجا۔

" جب ایکسپورٹ چل رہی ہو تو کراچی میں اچھے دام ملتے ہیں، اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا"۔

عبدالماجد پچھلے کچھ دنوں میں پیاز کی قیمت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کراچی کے تاجروں نے کسانوں کو لوٹنے کے لیے یہ افواہ اڑائی تھی کہ بھارت نے پابندی ختم کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے ریٹ میں کمی آئی ہے لیکن ان کے خیال میں یہ کمی عارضی ہے اور رمضان میں پیاز کی قیمتیں اور بھی زیادہ ہو جائیں گی۔

جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سے تعلق رکھنے والے کاشت کار محمد صالح جنوری کے مہینے میں اپنی دو ایکڑ رقبے پر لگی ہوئی فصل 14 ہزار روپے فی بوری (ایک سو کلو کرام) کے حساب سے فروخت کی ہے۔ عبدالماجد کی طرح وہ بھی کافی خوش ہیں کہ انہیں اچھا منافع حاصل ہوا ہے۔

تاریخ اشاعت 5 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.