'کھانا اکثر پڑوسیوں سے مانگ کر کھاتی ہوں': ڈیرہ اسماعیل خاں ڈویژن میں بے وسیلہ خواتین کے لیے کوئی دارالامان نہیں

postImg

مہرین خالد

postImg

'کھانا اکثر پڑوسیوں سے مانگ کر کھاتی ہوں': ڈیرہ اسماعیل خاں ڈویژن میں بے وسیلہ خواتین کے لیے کوئی دارالامان نہیں

مہرین خالد

اپنی اولاد کے رویے سے دلبرداشتہ، ڈیرہ اسماعیل خان کی ستر سالہ آسیہ بی بی (نام تبدیل کیا گیا ہے) کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ وہ اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتی ہیں جہاں انہیں دونوں کی جانب سے آئے دن بدسلوکی کا سامنا رہتا ہے۔

''دونوں بیٹوں کا میرے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے۔ چھوٹا بیٹا معمولی باتوں پر جھگڑتا رہتا ہے اور مجھے مار پیٹ کا نشانہ بنانے کے علاوہ گھر سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ مجھے کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں دیا جاتا اور اکثر میں پڑوسیوں سے مانگ کر کھاتی ہوں۔''

آسیہ کی ہمسائی نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر چھوڑ کر دارالامان چلی جائیں۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں دارالامان کی سہولت نہیں ہے۔

آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ انہی کی طرح اور بھی بہت سی خواتین گھریلو مسائل کا شکار ہیں اور پورے ضلعے میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو انہیں پناہ دے سکے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ اس ڈویژن کے دیگر تین اضلاع ٹانک، جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر میں کہیں بھی دارالامان یا اس جیسا کوئی ادارہ وجود نہیں رکھتا۔ 2010 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں خواتین کے لئے ایک دارالامان بنایا گیا تھا جو دو سال بعد بند ہو گیا جسے لوگوں کے مطالبات اور حکومتی وعدوں کے باوجود بحال نہیں کیا گیا۔

دارالامان کے سابق انچارج امجد خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس ادارے کو ڈسٹرکٹ ویلیفئر افسر شاہ زمان نے اپنی ذمہ داری پر شروع کیا جس کے قیام کا فیصلہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ ویلفیئر آفیسر اور سپریڈنٹ جیل پر مشتمل کریمنل جسٹس کوآرڈی نیشن کمیٹی نے ایک اجلاس میں کیا تھا۔

یہ دارالامان ڈیرہ انڈس سوسائٹی کی ایک نجی عمارت میں قائم کیا گیا تھا۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے یقین دہانی کی گئی تھی کہ دارالامان کے لیے خواتین پر مشتمل عملہ بھرتی کر کے بھیجا جائے گا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

<p>ڈیرہ اسماعیل خاں  میں دارالامان نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو بنوں کے دارالامان بھیجا جاتا ہے<br></p>

ڈیرہ اسماعیل خاں  میں دارالامان نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو بنوں کے دارالامان بھیجا جاتا ہے

انہوں نے بتایا کہ دارالامان میں دو سال کے عرصے میں 45 خواتین کو رہائش سمیت دیگر سہولیات فراہم کی گئیں لیکن خواتین پر مشتمل عملے کی غیر موجودگی میں اس ادارے کو چلانا بہت مشکل تھا۔

''کئی طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لئے خواتین ملازمین کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے پاس سوشل ویلفیئر کی خواتین اساتذہ میں سے کوئی بھی دارالامان میں رات کی ڈیوٹی دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ جب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے درخواست کی گئی تو انہوں نے رات کی ڈیوٹی کے لئے لیڈی کانسٹیبل کی تعیناتی کا انتظام کیا لیکن دارالامان میں مقیم خواتین میں سے کسی کی عدالت میں پیشی کے وقت مجھے ہی ساتھ جانا پڑتا تھا''

امجد کے مطابق خواتین پر مشتمل عملہ دستیاب نہ ہونے کے باعث بالآخر ضلعی عدالت کے حکم پر اسے بند کرنا پڑا۔

جنوبی اضلاع کی خواتین کے لئے واحد جائے پناہ

انچارج دارالامان بنوں روحی خان بابر کے مطابق خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کیلئے دارالامان بنوں ہی واحد آپشن ہے، جو کہ دو ہزار اکیس میں بنایا گیا تھا، جہاں ضلع کرک سے لے کر جنوبی وزیرستان تک سے خواتین آتی ہیں، اس سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں عدالت خواتین کو جیل بھیجتی تھی، اب انہیں دارلامان بنوں ریفر کرتی  ہے، اس ادارے کا مقصد ہی یہ ہے کہ گھریلو مسائل کا شکار خواتین کو جائے پناہ میسّر ہو۔

روحی خان بتاتی ہیں، ’’اس وقت دارالامان بنوں میں موجود خواتین کی تعداد  اکیس ہے، اس کے قیام سے اب تک سے 2023 تک ٹوٹل 234 کیسز آئے ہیں جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے 26 کیسز تھے جس میں 21 کیسز حل ہوئے ہیں اور 5 خواتین اب بھی بنوں دارلامان میں ہیں۔ جو گھریلو تشدد، پسند کی شادی اور دیگر خاندانی مسائل کے مقدمات میں عدالت پیش ہورہی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان عدالت میں پیشی کیلئے بنوں سے لے جاتے اور واپسی کے وقت انچارج دارلامان بنوں، لیڈی کانسٹیبل اور موبائل اسکواڈ ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔‘‘

پشاور ہائی کورٹ کی وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن نتاشہ سومن کہتی ہیں کہ خواتین کیلئے ایسے حالات میں دوسرے شہر جا کر رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ زبان اور ثقافت کا فرق بھی آ جاتا ہے اور رشتہ دار و احباب کو ملنے میں دشواری بھی ان خواتین کی پریشانی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نام بڑا اور درشن چھوٹے: تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا مرکز اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں دو سال سے بطور ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر خدمات انجام دینے والے ممتاز خان نے بتایا کہ گزشتہ سالانہ ترقیاتی بجٹ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں دارالامان کے دوبارہ قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن اس منصوبے کی منظوری اور پی سی ون تیار ہونے کے باوجود اس پر کام شروع نہیں ہو سکا۔

منصوبے کے لئے چوتھے گریڈ کی دو خواتین اور پانچ مرد ملازم بھرتی کئے جا چکے ہیں اور انہیں تنخواہیں بھی مل رہی ہیں لیکن  ڈائریکٹوریٹ کی ہدایت پر ان کی ڈیوٹی فی الحال ڈرگ سنٹر میں لگائی گئی ہے۔ دارالامان کے لئے مزید بھرتیوں کی غرض سے اشتہار بھی دیا گیا تھا لیکن تاحال کسی کو بھرتی نہیں کیا گیا اور نگران حکومت آنے کے بعد بھرتیوں پر پابندی عائد ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں نیبر ہڈ کونسل گاڑبیان کے تحصیل کونسل ممبر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ دارالامان کا منصوبہ اے ڈی پی سکیم میں منظوری کے بعد کرائے کی عمارت میں شروع کیا جانا تھا لیکن محکمہ سوشل ویلفیئر کی سستی اور عملے کی بھرتی میں تاخیر کے باعث یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔

''ہم نے تجویز دی تھی کہ عارضی طور پر کسی دوسرے محکمے سے تبادلے کی بنیاد پر ملازمین لے کر کام شروع کر دیا جائے۔ لیکن اس تجویز پر بھی کسی نے غور نہیں کیا۔''

تاریخ اشاعت 29 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مہرین خالد کا تعلق ضلع بنوں سے ہے۔ وہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ابلاغِ عامہ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

ماحولیاتی تبدیلی: پاکستان نے اہداف طے کر لئے ہیں بس دنیا کی طرف سے فنڈز کا انتظار ہے۔…

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.