خیبر پختونخوا کے غیر مسلم طلبہ کے لئے سرکاری وظائف: ہنوز دلی دور است

postImg

محمد فہیم

postImg

خیبر پختونخوا کے غیر مسلم طلبہ کے لئے سرکاری وظائف: ہنوز دلی دور است

محمد فہیم

پشاور کے گیبرئیل جوزف ایک نِجی یونیورسٹی میں بی ایس (انگلش) کے طالبِ علم ہیں۔ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے شام میں ایک مقامی چرچ میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومت نے غیر مسلم اقلیتوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے طلبہ کو وظائف دینے کا ایک پروگرام تین سال قبل شروع کیا تھا۔ اس ضمن میں موجودہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں چھ کروڑ 17 لاکھ روپے مختص کئے تھے ۔ 20 سالہ گیبریئل نے وظیفے کے حصول کے لئے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت درخواست جمع کروا دی تھی۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اب وہ شام کی نوکری چھوڑ کر اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کر پائیں گے۔

22 سالہ کیرل ملائکہ یونیورسٹی آف پشاور کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں آخری سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے بھی مقررہ تاریخ سے پہلے سکالرشپ کے لئے درخواست جمع کروا دی تھی۔ کیرل کے والد سینٹ جانز کیتھولک چرچ کوہاٹی گیٹ میں کام کرتے ہیں۔ چرچ انتظامیہ نے انہیں رہائش کے لئے ایک چھوٹا سا مکان دے رکھا ہے۔

اگرچہ کیرل کا تعلیمی سلسلہ اس سال مکمل ہو جائے گا لیکن وہ ڈگری حاصل نہیں کر سکیں گی کیونکہ اس کے لئے انہیں تمام بقایا جات ادا کرنے ہوں گے۔ کیرل کی والدہ روبیکا نے سُجاگ کو بتایا کہ انہوں نے پہلے دو سمیسٹر کی فیس کا انتظام تو بدِقت تمام کر لیا تھا جبکہ اگلے دو سمیسٹر کی فیس ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے دیئے جانے والے وظائف سے ادا کی گئی لیکن اگلے چار سمیسٹر کی فیس تا حال واجب الادا ہے۔

محکمہ اوقاف اور مذہبی و اقلیتی امور کی دستاویزات کے مطابق ایم بی بی ایس، ڈینٹل سٹڈیز، انجینئرنگ، وٹرنری، فزیکل تھراپی اور فارمیسی کے غیر مسلم طلبہ کے لئے ایک ایک لاکھ روپے کے 60 وظائف کی منظوری ہوئی۔ بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس، آرٹس اور سائنس میں ماسٹرز اور بیچلر آف لاء (ایل ایل بی)، بیچلر آف سائنس (آنرز) کرنے والوں کے لئے 70 ہزار روپے کے 250 وظائف اور آرٹس، سائنس، ایجوکیشن اور کامرس میں بیچلرز اور ماسٹرز آف ایجوکیشن والوں کے لئے 60 ہزار روپے کے 70 جبکہ آرٹس اور سائنس میں ایف اے، ایسوسی ایٹ انجینئرنگ، ڈپلومہ آف کامرس اور آئی کام والوں کے لئے 50 ہزار روپے کے 400 وظائف منظور کئے گئے۔

اس کے علاوہ پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے لئے 10 لاکھ روپے کے 10 وظائف اور ایم ایس اور ایم فِل کے 20 طلبہ  کے لئے دو لاکھ روپے (فی طالب علم) کے وظائف منظور کئے گئے۔

محکمے نے ان وظائف کے حصول کے لئے 12 شرائط رکھی ہیں جن میں طلبہ کا ریگولر سٹوڈنٹ ہونا، اقلیتی برادری سے تعلق، خیبر پختونخوا کے ڈومیسائل کا حامل ہونا، سالانہ امتحانات میں کم سے کم 45 فیصد نمبر جبکہ سمیسٹر نظام میں 2.50 جی پی اے حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا۔

گیبرئیل، روبیکا اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طالب علموں کو توقع تھی کہ وہ حکومت کے وظائف کے منصوبہ سے فائدہ سکیں گے۔لیکن تاحال یہ منصوبہ کاغذات کی حد پھلانگ نہیں پایا۔

 محکمہ اقلیتی امور کے ایڈیشنل سیکرٹری عبدالغفور شاہ کے مطابق طلبہ کے انتخاب میں مکمل طور پر شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تمام درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد شارٹ لسٹنگ کر لی ہے۔ ان کے مطابق "شارٹ لسٹ کئے گئے طلبہ سے ان کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات مانگی گئی ہیں، یہ مکمل ہوتے ہی ان کو ادائیگی شروع کر دی جائے گی۔"

لیکن گیبرئیل اور کیرل کی امید بر آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔

مالی سال 2021-2022 میں غیر مسلم طلبہ کو سکالرشپ کے اجرا کا عمل مارچ 2022ء تک مکمل ہو پایا اور جب اکاﺅنٹنٹ جنرل آفس کو چیک بھیجے گئے تو 'مالی مسائل کے پیش نظر' ان کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ اس سے پچھلے مالی سال میں بھی وظائف کی مد میں کسی ایک غیر مسلم طالبِ علم کو پیسوں کا اجرا نہیں ہوا۔

رواں مالی سال میں بھی سات ماہ گزرنے کے باوجود طلبہ کو وظائف جاری نہیں کئے گئے۔

اسی طرح کے ایک اور تین سالہ منصوبے کے تحت تین کروڑ روپے کی لاگت سے مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے مختلف تکنیکی تربیتی کورسز کا ایک پروگرام شروع کیا جانا تھا۔ رواں مالی سال میں اس کے لئے صرف ایک کروڑ روپے درکار ہیں لیکن یہ منصوبہ بھی فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا۔

غیر مسلم طلبہ کے لئے وظائف کیوں ضروری ہیں؟

پشاور میں مقیم مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی کارکن نقاش بھٹی کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے لئے سرکاری نوکریوں میں تو کوٹہ مختص کر دیا گیا ہے لیکن اس کو پُر کرنے کے لئے مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے حامل امیدواروں کی شدید کمی ہے۔ ان کے مطابق "اس کی ایک وجہ اقلیتی طلبہ کی سکولوں اور کالجوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔" اس بات کے ثبوت کے طور پر وہ کرسچین کوآرڈینیشن کونسل پاکستان کی جانب سے 2020ء میں کئے گئے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق پشاور میں محض تین فیصد اقلیتی طلبہ ہی ماسڑ لیول تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ 50 سے 60 فیصد طالبِ علم آٹھویں جماعت میں ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

من مانی فیس، خودساختہ قواعد اور غیرقانونی داخلے: نجی یونیورسٹیاں کیسے 'طلبا کا استحصال کر رہی ہیں'۔

نقاش بھٹی کہتے ہیں کہ یہی کم شرحِ خواندگی بلاواسطہ نوکریوں کے حصول پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔"فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء سے 2021ء تک پانچ فیصد اقلیتی کوٹہ کے تحت اقلیتوں کی کُل 545 نوکریاں مشتہر کی گئیں جن پر 281 امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح 264 اسامیاں (کُل کوٹے کا 48 فیصد) خالی رہ گئیں۔"

مذہبی اقلیتوں کے لئے ترقیاتی منصوبے بھی کچھ اسی قسم کی رکاوٹوں کا شکار ہیں۔

صوبائی محکمہ پلاننگ و ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اقلیتی امور کے شعبے میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 48 کروڑ 49 لاکھ 92 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔ ان میں بندوبستی اضلاع کی اقلیتی برادری کے لئے 41 کروڑ 50 لاکھ جبکہ قبائلی اضلاع کی اقلیتی برادری کے لئے چھ کروڑ 99 لاکھ 92 ہزار روپے رکھے گئے ہیں۔

صوبائی محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق بندوبستی اضلاع کے فنڈز میں سے تا حال نو کروڑ 34 لاکھ 66 ہزار 317 روپے ہی استعمال ہو سکے ہیں جبکہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کے لئے ایک پائی بھی جاری نہیں کی گئی۔

تاریخ اشاعت 1 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فہیم پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بلدیات، سماجی امور، انسانی حقوق سمیت سیاحت و آثار قدیمہ کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ وہ پشاور میں ایک نجی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.