نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ نے اگست 2018ء میں با ضابطہ پیداوار کا آغاز کیا تو لوگوں کو امید نظر آئی تھی کہ لوڈ شیڈنگ میں کچھ تو کمی ہوگی لیکن تین سال 10 ماہ بعد ہی تقریباً 507 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس پاور ہاؤس میں تیزی سے پانی رسنا شروع ہو گیا۔
منصوبے میں جب خرابی سامنے آئی تو پاور پاؤس کی چاروں ٹربائینیں اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ چل رہی تھیں اور قومی گرڈ کو 969 میگاواٹ بجلی کی ترسیل ہورہی تھی۔
واپڈا کے مطابق ماہرین کی ٹیموں کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ڈیم کی ٹیلریس tailrace ٹنل (پانی لے جانے والی سرنگ) بیٹھ گئی ہے۔ پاور ہاؤس کو بند کر دیا گیا، اسے ٹھیک کرنے میں 13 ماہ لگے مگر اب یہ پاور ہاؤس پھر بند ہے۔
مظفرآباد (آزاد کشمیر) کے قریب قائم نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کی کہانی 42 سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے جولائی 2018ء میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے چی) کو اس منصوبے کی 'کارکردگی آڈٹ رپورٹ' پیش کی تھی جس کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے پر ابتدائی کام 1983ء میں شروع کیا گیا تھا۔
وقت کے ساتھ لاگت بڑھتی گئی
منصوبے کا پہلا نام'نیلم جہلم کوہالہ پراجیکٹ' تھا جس کے مطابق پہلے دریائے نیلم پر 500 میگاواٹ کا پاور ہاؤس اور پھر دوسرے مرحلے میں 10 کلومیٹر نیچے دریائے جہلم پر ایک ہزار میگاواٹ کا پن بجلی گھر بنایا جانا تھا۔
اس کی فریبلیٹی 1987ء میں مکمل ہوئی اور 1989ء میں ایکنک (قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی) نے منصوبے کی تعمیر کے لیے 15 ارب 25 کروڑ 30 لاکھ روپے کے پہلے پی سی ون کی منظوری دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث تعمراتی کام شروع نہ ہو سکا۔
وقت گذرتا رہا اور 1997ء میں ایک کنسلٹنٹ کمپنی میسرز نارکوسلٹ (M/s Norconsul) نے واپڈا کی سکیم کے متبادل ایک نیا ڈیزائن (موجودہ) پیش کر دیا۔ نئے منصوبے میں تکنیکی تبدیلیوں کے ساتھ بتایا گیا کہ اس سے 969 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
ایکنک نے 2002ء میں 84 ارب کا نظرثانی شدہ پی سی ون منظور کر لیا۔
آڈٹ رپورٹ بتاتی ہے کہ منصوبے پر2005ء تک کسی کام کا آغاز نہیں ہو سکا اور پھر اسی سال تباہ کن زلزلہ آ گیا جس نے مجوزہ ڈیم کے علاقے کو شدید متاثر کیا۔
اصولی طور پر منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
نئی جائزہ رپورٹ بنائے بغیر مارچ 2007ء میں منصوبے کا ٹھیکہ دو کمپنیوں (چینی) کے کنسورشیم 'سی جی جی سی اور سی ایم ای سی' کو دے دیا گیا جس کو یہ کام 2015ء میں مکمل کرنا تھا۔
تاہم مئی 2008ء میں منصوبے کے ڈیزائن پر نظرثانی اور تعمیر کی نگرانی کے لیے پانچ بین الاقوامی فرمز کے جائنٹ ونچر اور ایک قومی فرم (نیسپاک) پر مشتمل "نیلم جہلم کنسلٹنٹس' کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن رقم کی عدم دستیابی کے باعث ٹھیکیدار فرم کام شروع نہ کر سکی۔
اس دوران 2010ء میں پانی کا رخ موڑنے کے لیے روایتی طریقے یعنی بلاسٹنگ اور اوپن کھدائی کی بجائے ٹنل بورنگ مشینوں سے سرنگیں بنانے کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ جس کے لیے ایکنک کو 2013ء میں اس منصوبے کے 272 ارب کے دوسرے نظرثانی شدہ (تیسرے) پی سی ون کی منظوری دینا پڑی، منصوبے کی تکمیل کی مدت بھی ایک سال بڑھا دی گئی۔
وزارت آبی وسائل کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق نئے (موجودہ) ڈیزائن کے تحت دریائے نیلم کا پانی مظفر آباد کے اوپر سے سرنگوں (ٹنلز) کے ذریعے موڑ کر دریائے جہلم میں لایا گیا اور یہاں (مظفر آباد) سے 22 کلومیٹر ڈاؤن سٹریم میں پاور ہاؤس بنا دیا گیا۔
اس ڈیزائن میں 51 کلومیٹر سے زیادہ طویل زیر زمین ٹنلز شامل ہیں جن میں دو جڑواں سرنگیں لگ بھگ ساڑھے 19 کلومیٹر (ہر ایک کی لمبائی) طویل ہیں اور تیسری سرنگ تقریباً نو کلومیٹر لمبی ہے۔ ٹیل ریس ٹنل یا ٹی آر ٹی (پانی خارج کرنے والی) 3.55 کلومیٹر طویل ہے۔
ڈیم کی اونچائی 60 میٹر، لمبائی 160 میٹر ہے اور گراس ہیڈ (جہاں سے ٹربائن میں پانی گرتا ہے) 420 میٹر ہے۔ یہاں پاور جنریشن کے لیے چار ٹربائنیں نصب ہیں جن میں سے ہر ایک کی کپیسٹی 242.25 میگاواٹ ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق منصوبے کا چوتھا پی سی ون (ریوائزڈ پی سی ون۔3) 2015ء میں منظور کیا گیا جس کے تحت لاگت 404 ارب روپے تک پہنچ گئی تاہم مدت تکمیل 2016ء رکھی گئی۔ منصوبے میں تاخیر سے اخراجات میں 389 ارب کا غیر معمولی اضافہ ہوا۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ وزارت آبی وسائل کے مطابق دسمبر 2017ء میں آئی ڈی سی (انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ چارجز) سمیت 500 ارب روپے سے زائد کا پانچواں پی سی ون (ریوائزڈ پی سی ون۔4) منظور کرایا گیا۔ تاہم نیپرا کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ ٹیرف کا فیصلہ کرتے وقت نومبر 2018ء میں اس کی لاگت 506.579 ارب روپے ہو چکی تھی۔
اربوں کے نقصان کا ذمہ دار کون؟
واپڈا کی سرکاری ویب سائٹ بتاتی ہے کہ نیلم جہلم پاور منصوبے کا ٹھیکہ دو چینی کمپنوں چائنہ گیزوبا گروپ کمپنی اور چائنہ نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن پر مشتمل کنسورشیم کو دیا گیا جس نے 2008ء میں کام شروع کیا۔
اس میگا پراجیکٹ میں سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ، اوپیک فنڈ، کویت فنڈ فار ڈیویلپمنٹ، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایگزم بینک چائنا نے سرمایہ کاری کی ہے۔
واپڈا کے مطابق 13 اگست 2018ء کو پوری کپیسٹی سے چلنے والا یہ پاور پلانٹ چار جولائی 2022ء (تین سال 10 ماہ بعد) کو بند ہو گیا جس کی وجہ ساڑھے تین کلومیٹر طویل ٹیل ریس ٹنل (ٹی آر ٹی) میں پڑنے والے شگاف یا دراڑیں تھیں۔
یہ پلانٹ 13 ماہ بند رہا جس کی بحالی پر چھ ارب روپے لاگت آئی اور اس کی پیداوار بند ہونے سے 37 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ نو اگست 2023ء کو پلانٹ دوبارہ چلا دیا گیا۔ نقصان کے ازالے کے لیے واپڈا 43 ارب روپے کی انشورنس کا دعویدار بھی بنا۔
بد قسمتی سے دو مئی 2024ء کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پھر بند ہو گیا۔ وزیر اعظم نے 16 مئی کو اس پاور ہاؤس کا دورہ کیا اور اس پراجیکٹ کے ڈیزائن میں نقائص اور ذمہ داری کے تعین کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا۔
وزیر اعظم نے ساتھ ہی پچھلے سال (2022ء کی بندش)کے واقعے کی حتمی رپورٹ بھی طلب کر لی اور یہ کام سابق وفاقی سیکرٹری شاہد خان اور سیکرٹری آبی وسائل سید علی مرتضیٰ کو سونپا گیا۔
اس منصوبے کے لیے واپڈا 2007ء سے 2021ء تک یعنی 13 سال بجلی کے بلوں میں ' نیلم جہلم سرچارج ' کے نام سے 10 پیسے فی یونٹ کے حساب سے رقم وصول کرتا رہا ہے اور عوام کی جیبوں سے 100 ارب روپے نکالے جا چکے ہیں۔
حکام کہتے ہیں کہ اس ہائیڈرو پاور سٹیشن کی بندش سے پاکستان کو سالانہ 55 ارب روپے کا براہ راست نقصان ہو رہا ہے جبکہ متبادل مہنگے ایندھن کے استعمال سے بجلی کی پیدوار کا تخمینہ شامل کیا جائے تو یہ نقصان 90 سے 150 ارب روپے سالانہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟
بتایا جاتا ہے کہ جولائی 2022ء میں ٹیل ریس ٹنل (ٹی آر ٹی) بند ہونے کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے ماہرین نے سرنگ کے مرکزی حصے میں جغرافیائی فالٹ کی نشان دہی کی تھی اور بتایا تھا کہ یہی فالٹ ہارڈ کیئر ٹنل(ایچ آر ڈی) میں بھی خرابی کی وجہ بن سکتا ہے کیونکہ اس کی کنکریٹ سے لائننگ نہیں کی گئی۔
زلزلے کے بعد ڈیزائن تبدیل نہ کرنے کا ذکر اگرچہ ' نیلم جہلم پراجیکٹ کی پرفارمنس آڈٹ رپورٹ' میں بھی کیا گیا تھا تاہم آڈٹ رپورٹ کا بنیادی مقصد مالی معاملات کو دیکھنا تھا۔
ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ 2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد اس منصوبے کی فزیبلیٹی سے پہلے سائیٹ کا سسمک سروے ضروری تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
ماہر ارضیات ڈاکٹر سردار عمر عزیز نے لوک سجاگ کو بتایا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ فالٹ لائن پر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ دوبار زلزلے کی صورت میں یہ ڈیم دھڑام سے گر سکتا ہے جس سے نہ صرف مالی نقصان ہو گا بلکہ بڑی تباہی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس پراجیکٹ کا ڈیزائن از خود سوالیہ نشان ہے جہاں 51 کلومیٹر سے زائد زیر زمین سرنگیں بناتے ہوئے اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ آنے والے وقت میں انسانی زندگی کے لیے کیا خطرات ہو سکتے ہیں۔
"یہ کب اور کیسے چلے گا؟ ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔"
آڈیٹر جنرل نے بھی رپورٹ میں ڈیزائن کے حوالے سے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ڈیم پاکستان کو بہت مہنگا پڑا ہے۔
تاریخ اشاعت 9 اگست 2024