میر پور خاص کی چھ عورتوں اور اور دو مردوں کے خلاف توہین مذہب کا الزام جھوٹا ثابت ہوا اور عدالت نے انہیں باعزت بری کر دیا مگر سسٹم اب بھی انہیں عزت دینے پر تیار نہیں۔
سات مئی 2023ء کو تحصیل جھڈو کی پولیس نے چھ عورتوں اور دو مردوں کے خلاف ہنگامہ، روڈ بلاک کرنے، دہشت گردی اور توہین مذہب کے الزمات کے تحت دو الگ الگ مقدمے درج کیے تھے۔
ایک مقدمہ سرکار یعنی سب انسپکٹر مانو مل اور دوسرا مسجد کے پیش امام محمد شفیع لغاری کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ تاہم پولیس ملزمان پر تمام الزامات ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔
تحصیل جھڈو کی رہائشی یہ ملزم عورتیں مبینہ طور پر'سیکس ورکر' ہیں۔
ان کی شامت اس وقت آئی جب انہوں نے پولیس کے رویے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
جھڈو شہر کی کچی بستی جونیجو کواٹرز کی رہائشی اور مقدمے کی مرکزی ملزمہ 38 سالہ پروین ( فرضی نام ) کا موقف تھا کہ ایس ایچ او تھانہ جھڈو شاہنواز خاصخیلی اور ڈی ایس پی نند لعل ان سے دھندہ کرنے کا ماہانہ 20، 20 ہزار روپے بھتہ وصول کرتے تھے۔
وہ بتاتی ہیں کہ کئی بار یہ بھتہ ایک مہینے میں دو مرتبہ بھی لیا جا تا تھا جس کی پولیس کی جانب سے وصولی کے لیے اکثر خود کو 'صحافی' ظاہر کرنے والا ایک مقامی شخص آتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
میرپورخاص میں چھ عورتوں پر توہینِ مذہب کا مقدمہ: حقائق کیا ہیں؟
"میرے بھائی کو کینسر ہوا تو ہم نے دھندہ روک دیا اور ظاہر ہے پولیس کو بھتہ دینا بھی بند کر دیا۔ پرچے کٹنے سے تقریبا ایک ماہ قبل شام کو ایس ایچ او خود پولیس موبائل میں میرے گھر آئے اور بھتہ طلب کیا۔ میں نے بھائی کی بیماری اور کام بند کرنے کا بتایا تو ایس ایچ او نے دھمکی دی کہ ایسا پرچہ کروں گا کہ تمہاری پوری زندگی جیل میں پتھر توڑتے گذرے گی۔"
پروین کہتی ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک اور عورت بھی 'اڈہ' چلاتی ہے اور پولیس کو پیسے دے کر دھندے کے ساتھ منشیات فروشی بھی کر رہی تھی جس کے گھر سے روزانہ رات کو ان کے گھر میں پتھراؤ کیا جاتا تھا۔
"ہمسائی کے نوجوان لڑکے روز ہمارے گھروں پر پتھراؤ کرتے تھے۔ جب ہم پولیس کو شکایت کرتے تو کوئی ہماری بات نہ سنتا کیونکہ انہیں پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ایک دن ہمارے ایک رشتہ دار کو پڑوسن کے لڑکوں نے مار پیٹ کر زخمی کر دیا۔ ہم فریاد لے کر تھانے گئے لیکن پولیس نے طبی معائنہ ہی نہیں کرایا"
پروین اور دیگر افراد نے پولیس کے رویے کے خلاف رات کو جھڈو بائی پاس روڈ کے چوراہے پر دھرنا دے دیا جو پوری رات چلا۔
پولیس نے وہاں آ کر ہم چھ عورتوں اور دو مردوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف ہنگامے، دہشت گردی اور توہین مذہب کے پرچے کاٹ کر قید میں ڈال دیا۔
پروین نے بتایا کہ پولیس نے خواتین کو حیدر آباد اور مردوں کو میرپور خاص جیل بھجوا دیا جہاں سے ان کی دس گیارہ روز بعد ضمانت ہوئی۔
پروین 26 روز جیل رہیں اور باقی عورتوں میں سے کوئی ایک ماہ تو کوئی ایک ماہ دس دن تک۔
وہ بتاتی ہیں کہ جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان کو مقامی لوگوں نے بہت ڈرایا دھمکایا۔ پولیس کے لیے کام کرنے والوں نے کہا تھانے والوں کو بھتہ نہ دینے کی صورت میں انہیں پھر سے جیل بھیج دیا جائے گا۔
"میری ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں پر ہوئی تھی اور دیگر ملزمان کے لیے 40، 40 ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے تھے۔ ہمارے پاس ضمانت کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میرے بھائی نے قرضہ لیا اور کچھ چندا جمع کیا تب کہیں جا کر دو تین مرحلوں میں سب عورتوں کی رہائی ممکن ہوئی۔"
مرکزی ملزمہ کے مطابق ضمانت کے بعد سات آٹھ ماہ تک مسلسل ڈگھڑی میں مجسٹریٹ اور میرپور خاص میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیشیاں پڑتی رہیں۔ وہ بہت تکلیف سے کرایہ بھاڑا جمع کر کے کیسوں کی شنوائی پر پہنچتے تھے۔
"ہم میں سے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آخر کس جرم میں پکڑے گئے ہیں؟ لوگ کہتے تھے کہ بہت خطرناک کیس بنایا گیا ہے اور تمہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ہم ان پڑھ لوگ ہیں عدالت تو دور کبھی ایف آئی آر بھی نہیں دیکھی تھی۔"
ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں پولیس والوں نے بتایا کہ وہ دھندہ کرنے والی عورتیں ہیں جس پر جج نے کہا کہ ان پر یہاں ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔
ضلعے کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 26 جنوری کو توہین مذہب اور دہشت گردی کے کیس کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ ہنگامے کا کیس ڈگھڑی کے جج ارشد علی سموں کی عدالت میں چلا تھا جہاں سے آٹھوں ملزمان پچھلے سال 25 نومبر کو ہی رہائی پا چکے ہیں۔
"جج نے جب مدعی مولانا سے پوچھا کہ آپ ان عورتوں کو پہچانتے ہو؟ تو مدعی نے ہاں میں جواب دیا جس پر جج نے کہا کیسے؟ کیا آپ کی ان سے ملاقات ہے؟ تو مولانا اپنی بات سے مکر گئے اور شرمانے لگے۔ عدالت میں مولانا ہماری ناموں اور چہروں سے درست شناخت بھی نہ کر پائے۔"
جھڈو شہر کے قائم خانی محلے کی نگینہ مسجد کے پیش امام 30 سالہ محمد شفیع لغاری کے مطابق ان کی زیر نگرانی مدرسے 'صبغت النور سکندریہ' کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر بائی پاس روڈ پر لکڑی کی ایک جھونپڑی بنائی گئی تھی جس پر مدرسے کا پوسٹر چسپاں تھا۔
اس پوسٹر پر مقدس نام اور کلمات درج تھے۔ یہاں احتجاج کرنے والے افرد نے جھونپڑی کو آگ لگائی تو پوسٹر بھی جل گیا جس پر ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا۔
شفیع لغاری کے مطابق وہ واردات کے وقت موقع پر موجود تھے اور ان ہی کی مدعیت میں مظاہرین کے خلاف جھڈو تھانے میں انسداد دہشت گردی اور توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ملزمان کو جرم کرتے نہیں دیکھا تھا۔
پروین بتاتی ہیں کہ ضمانت کے لیے جھڈو کے مقامی وکیل نے ان کے بھائی سے 90 ہزار سے زائد فیس لی اور دیگر اخراجات الگ وصول کیے۔ ضمانت ہو گئی تو ان کے وکیل نے کیس کی مزید پیروی سے انکار کر دیا اور وہ جس وکیل کے پاس جاتے تھے کیس لینے سے انکار کر دیتا تھا۔
"پھر ہمیں کسی نے میرپور خاص کے وکیل حاجی قلندر بخش کے پاس جانے کا مشورہ دیا جنہوں نے مقدمہ لڑا اور ہماری بہت مدد کی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج بھی بہت اچھے انداز میں پیش آتے تھے ورنہ ہماری کون عزت کرتا ہے۔"
کیس کے انچارج جھڈو تھانے کے سابق ایس ایچ او شاہنواز خاصخیلی کہتے ہیں کہ مقدمہ سچا تھا اور وہ اپنی بات پر قائم ہیں۔ جونیجو کواٹرز میں دو عورتیں فحاشی کے اڈے چلاتی تھیں اور ان کے آپسی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔
ملزمان کے وکیل قلندر بخش کہتے ہیں کے اس کیس میں جھڈو پولیس نے سب سے بڑی زیادتی یہ کی کہ ایک ہی واقعے میں دو پرچے کیے۔ بے گناہ شہریوں نے جھوٹے مقدموں میں آٹھ سے نو ماہ عدالتوں کے چکر کاٹے، انہیں روٹی کے لالے پڑ گئے اور ان کا بال بال قرضے میں جکڑ گیا۔
"عدالتوں سے بریت کے باوجود کچھ لوگ ملزموں کو مجرم سمجھتے ہیں۔ پروین اور دیگر ملزموں کی جان کو بھی خطرہ ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل ایڈووکیٹ سیف الملوک نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے توہین مذہب کے الزام میں قتل کیس، مسیحی خاتون آسیہ بی بی اور دیگر توہین مذہب کے بڑے مقدموں کی وکالت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
"زندگی برباد ہو گئی تو کہا گیا 10 لاکھ دے دو توہین مذہب کا الزام واپس لے لیں گے"
سیف الملوک کہتے ہیں کہ توہین مذہب کے الزام میں آنے والے شہریوں اور ان کے خاندانوں کے لیے معاشرے میں باقی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تو کچھ ملک چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ توہین مذہب کے ملزم کیا ان کے وکلا کو بھی معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ سب ان سےامتیازی سلوک کرتے ہیں۔
سیف الملوک کے مطابق توہین مذہب کے اکثر مقدمے جھوٹے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مثال دی کہ 2013ء میں راجن پور سے تعلق رکھنے والے بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ انہیں ٹرائل کورٹ نے پھانسی کی سزا دی۔ جنید 10 سال سے جیل میں ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ میں اب تک کیس زیر التوا ہے۔
پروین بتاتی ہیں کہ پولیس والے آئے دن انہیں ڈرانے دھمکانے آ جاتے ہیں ان کو کبھی پانچ سو کبھی ہزار روپے دے کر جان چھڑانا پڑتی ہے۔
"ہم چھپ کر رہ رہے ہیں، ہماری لیے زمین تنگ ہو گئی ہے۔ میں نے جھڈو میں رہنا کم کر دیا ہے۔ اپنی بہن یا بیٹی کے پاس چلی جاتی ہوں اور بیشتر وقت وہیں گذارتی ہوں"۔
تاریخ اشاعت 12 فروری 2024