امان اللہ خان کو خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے سخت شکوہ ہے۔ وہ صوبے کے شمال مغربی ضلع چترال کے کڑوپ رشت بازار میں قیمتی پتھروں کی تجارت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ان جیسے "ہزاروں مقامی لوگوں کی روزی روٹی بند ہونے والی ہے"۔
انہیں شکایت ہے کہ یہ پالیسیاں مقامی وسائل پر مقامی آبادی کے حق کو نظرانداز کر کے بنائی جا رہی ہیں۔ اس لیے، ان کے مطابق، ان کے نتیجے میں چترال میں معدنیات کی کھدائی، نقل و حمل اور خریدوفروخت سے منسلک ٹھیکیداروں، مزدوروں، ڈرائیوروں اور تاجروں سبھی کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔
معدنیات کی کان کنی کرنے والے مقامی ٹھیکے داروں کی تنظیم، مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن چترال، کو بھی یہی شکوہ ہے۔ اس کے سربراہ شہزادہ مدثر کہتے ہیں کہ مقامی سرمایہ کار ذاتی وسائل خرچ کر کے مقامی پہاڑوں میں چھپی معدنیات کا کھوج لگاتے ہیں لیکن کان کنی کے ٹھیکے دیتے وقت انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور "معدنیات سے بھرپور جگہیں غیرمقامی لوگوں اور بڑی کمپنیوں کو دے دی جاتی ہیں"۔
اسی تنظیم کے ایک رکن رضاالملک کہتے ہیں کہ وہ غیرمقامی سرمایہ کاروں کی مخالفت نہیں کرتے لیکن یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ ٹھیکے دیتے وقت "تمام لوگوں کے لیے ایک ہی پیمانہ" رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کان کنی کے ٹھیکے لینے کے لیے دو سو مقامی لوگوں نے بھی درخواستیں دیں لیکن صوبائی "محکمہ معدنیات نے غیرمقامی درخواست دہندگان میں سے کچھ کو تو 50 ہزار ایکڑ اراضی پر کان کنی کرنے کی اجازت دے دی لیکن کسی مقامی ٹھیکے دار کو اس مقصد کے لیے پانچ سو ایکڑ سے زیادہ جگہ بھی نہیں دی"۔
چترال کے معدنی وسائل پر کس کا حق ہے؟
پشاور سے تین سو 57 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ضلع چترال کے پہاڑوں میں قیمتی پتھر، تانبہ، سیسہ، آرسینک، مائیکا، سُرمہ اور کئی دیگر معدنیات پائی جاتی ہیں۔ان کی کان کنی کا آغاز 1913 میں ہوا تھا لیکن اُس دور میں یہاں پکی سڑکیں نہیں تھیں اس لیے یہ معدنیات بہت محدود پیمانے پر نکال کر دوسرے علاقوں میں پہنچائی جا سکتی تھیں۔ نتیجتاً کان کنی مقامی آبادی کے محض ایک محدود حصے کے روزگار کا وسیلہ ہی بن سکی اور زیادہ تر چترالی باشندے زراعت، مویشی بانی، شکار اور لکڑی کی خریدوفروخت سے وابستہ رہے۔
لیکن آج سے تقریباً 15 سال پہلے صوبائی حکومت نے مقامی لوگوں کی ذاتی اراضی اور رہائشی مکانوں کو چھوڑ کر چترال کی باقی تمام زمین کو سرکاری ملکیت میں لے لیا تو روزگار کے یہ روایتی ذرائع کم ہونے لگے۔ رضاالملک کہتے ہیں کہ اِس وقت ان کے ضلعے کی 95 فیصد اراضی صوبائی حکومت کے پاس ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ جنگلی حیات نے اس سرکاری زمین میں واقع جنگلات میں شکار کھیلنے اور ان سے لکڑی کاٹنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اسی طرح مقامی دریاؤں کے کناروں سے ریت اور بجری اٹھانا اور وہاں پتھر توڑنے کے کارخانے لگانا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق "ان حالات میں کان کنی ہی مقامی لوگوں کا واحد ذریعہِ روزگار رہ گیا ہے لیکن حکومت اب اسے بھی بند کرنے پر تُلی ہوئی ہے"۔
اس شکایت کا بنیادی سبب خیبر پختونخوا حکومت کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت 2008 اور 2021 کے درمیان چترال کے 80 فیصد معدنیاتی علاقے میں مقامی لوگوں کے کان کنی کے حقوق ختم کر دیے گئے تھے۔ اس اقدام کا مقصد اس علاقے کو 15 حصوں میں تقسیم کر کے ایسی غیر مقامی کمپنیوں کو دینا تھا جو یہاں کان کنی کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کر سکیں۔ تاہم حکومت ان 13 سالوں میں کسی بڑی کمپنی کو اس کام پر آمادہ نہیں کر سکی۔
دوسری طرف مقامی لوگ مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ یہ پابندی ختم کی جائے۔ جولائی 2021 میں اس مطالبے نے اتنا زور پکڑا کہ حکومت نے بالآخر اسے مان لیا اور بڑے سرمایہ کاروں کے لیے مختص علاقوں میں بھی مقامی ٹھیکیداروں کو کام کرنے کی اجازت دے دی۔
اس حکومتی فیصلے کے بعد تقریباً پانچ سو مقامی اور غیرمقامی سرمایہ کاروں نے معدنیات کی نشاندہی کرنے کے اجازت نامے اور کان کنی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے ایک آن لائن سسٹم کے ذریعے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم مقامی لوگ الزام عائد کرتے ہیں کہ محکمہ معدنیات نے یہ ٹھیکے منصفانہ انداز میں دینے کے بجائے اُن کے ساتھ "سخت ناانصافی کی ہے"۔
شہزادہ مدثر محکمے کے اہل کاروں پر الزام لگاتے ہیں کہ ٹھیکوں کے اشتہار شائع کرنے سے پہلے ہی انہوں نے اپنے من پسند افراد کو ان کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا تھا تاکہ وہ متعلقہ کاغذات اور فیسیں مقررہ وقت سے پہلے جمع کرا دیں۔ دوسری طرف، ان کے بقول، اشتہار میں آن لائن فیس جمع کرانے کی تاریخ یکم مئی 2022 رکھی گئی حالانکہ "اس دن چترال کے دور دراز علاقوں میں آن لائن ادائیگی کی سہولت ہی دستیاب نہیں تھی"۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "اس طرح صرف انہی لوگوں کو ٹھیکے مل سکے جنہوں نے یکم مئی سے پہلے فیس جمع کرا دی تھی جبکہ باقی لوگوں کی درخواستوں پر غور ہی نہیں کیا گیا"۔
صوبائی محکمہ کان کنی و معدنیات میں تکنیکی شعبے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد شہیر اجمل ان سے متفق نہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ "ٹھیکے دیتے وقت کسی سے غیرمنصفانہ سلوک نہیں کیا گیا"۔
حکومت، عدالت، عوام
حال ہی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کے مشیر برائے معدنیات محمد عارف نے ایک منصوبے کا خلاصہ (summary) تیار کیا ہے جسے ابھی تک وزیراعلیٰ کی منظوری درکار ہے۔ اس کے تحت چترال میں ان 15 جگہوں کو بحال کیا جا رہا ہے جہاں صرف بڑی غیرمقامی کمپنیوں کو کان کنی کی اجازت ہو گی۔
محمد شہیر اجمل اس اقدام کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیشتر مقامی ٹھیکے داروں کے پاس دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں وسیع پیمانے پر کان کنی کرنے کے لیے درکار مالی،تکنیکی اور انسانی وسائل موجود نہیں۔ اس کے برعکس، ان کے بقول، "بڑی کمپنیوں کے پاس ایسا سرمایہ، افرادی قوت، مشینری اور دیگر وسائل موجود ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ بڑے بڑے قطعات اراضی پر ایک پائیدار طریقے سے کان کنی کر سکتی ہیں"۔
تاہم شہزادہ مدثر ان کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقامی ٹھیکیدار وسائل کی کمی پر قابو پانے کے لیے بڑے سرمایہ داروں کے ساتھ شراکت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے مطابق، حکومت کو ٹھیکے کی منظوری کے بعد بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ چھ ماہ میں اس پر کام شروع نہ کر سکنے والی کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کر کے کسی اور کو دے دے۔ ان کے خیال میں اس اختیار کی موجودگی میں مقامی ٹھیکے داروں کو بعض مخصوص جگہوں پر کان کنی سے دور رکھنے کی کوئی منطق نہیں۔
ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ معدنیات کے مشیر کے تیار کردہ خلاصے کی منظوری سے پہلے ہی "مقامی سرمایہ کاروں کی ایسی درخواستوں کو مسترد کیا جا رہا ہے جو ان 15 جگہوں پر کان کنی کے لیے دی گئی ہیں"۔
ان حکومتی اقدامات کو روکنے کے لیے مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن چترال نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے جسے سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا ہے۔ 6 جولائی 2022 کو اس پر کارروائی کرتے ہوئے عدالت نے نہ صرف متعلقہ صوبائی حکام کو کہا کہ وہ 28 جولائی کو سرکاری ریکارڈ کے ساتھ پیش ہو کر اپنا موقف پیش کریں بلکہ یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس درخواست کا فیصلہ ہونے تک نہ تو درخواست گزاروں کو کان کنی کے لیے جاری کیا گیا اجازت نامہ منسوخ کیا جائے اور نہ ہی انہیں نظرانداز کر کے دوسروں کو ایسے اجازت نامے جاری کیے جائیں۔
حکومتی حلقوں میں بھی کسی حد تک یہ آگاہی موجود ہے کہ کان کنی کے لیے جن مقامی ٹھیکے داروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں انہیں چترال میں کسی بھی جگہ پر کان کنی کرنے سے منع نہیں کیا جا سکتا۔ معدنیات کے شعبہ کی ترویج و ترقی کے لئے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں کام کرنے والے ادارے منرل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن ایجنسی میں چترال کی نمائندگی کرنے والے مقصود عالم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا قانونی طور پر ٹھیک نہیں ہو گا۔
وہ صوبائی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر چترال کے مقامی لوگوں کے مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ضلعے کے کچھ حصوں کو غیرمقامی کان کن کمپنیوں کے لیے مختص کر دیا گیا تو اس سے یہاں "احساسِ محرومی پیدا ہو سکتا ہے اور ایک احتجاجی تحریک بھی جنم لے سکتی ہے"۔
تاریخ اشاعت 22 جولائی 2022