محمد اسلم یونیورسٹی آف سرگودھا کے سب کیمپس میانوالی میں بی ایس انگلش کے طالبعلم تھے۔ وہ ابھی چھٹے سمسٹر میں تھے کہ یہ کیمپس یونیورسٹی آف میانوالی بن گیا۔
آٹھویں سمسٹر کی تکمیل کے ساتھ ہی انہیں ڈگری ملنی چاہیے تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ "لیکن ہم دو یونیورسٹیوں کے درمیان فٹ بال بن گئے۔یونیورسٹی آف میانوالی نے ہمیں ڈگری جاری نہ کی کیونکہ ہم یونیورسٹی آف سرگودھا کے سب کیمپس میانوالی میں داخل ہوئے تھے۔ وہاں جاتے تو کہا جاتا یونیورسٹی آف میانوالی ڈگری دے گی۔ خدا خدا کر کے ہمیں ڈگری تو مل گئی لیکن ہمارا ڈیڑھ سال ضائع ہو گیا"۔
یونیورسٹی آف میانوالی کا قیام 13 دسمبر 2019ء کو پنجاب اسمبلی میں ایکٹ پاس ہونے کے ساتھ عمل میں آیا۔ اسی کنال پر محیط جس عمارت میں نئی یونیورسٹی قائم کی گئی وہ 2012ء سے یونیورسٹی آف سرگودھا کا میانوالی سب کیمپس تھا۔ یعنی اسی سب کیمپس کو نئی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔
سب کیمپس میں 20 سے زائد شعبہ جات میں بی ایس اور ایم ایس کی کلاسز پڑھائی جارہی تھیں اور اساتذہ یونیورسٹی آف سرگودھا کے تعینات کردہ تھے۔
سب کیمپس کو علیحدہ یونیورسٹی کا درجہ دینے کا عمل عجلت میں بنا کسی مربوط منصوبے کے کیا گیا جس سے نئی یونیورسٹی مسائل کی آماجگاہ بن گئی ہے اور ان کا خمیازہ طلبہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
وائس چانسلر کی تقرری میں ہی ایک سال سے زائد عرصہ لگ گیا۔
طلبہ و سول سوسائٹی کے مقامی سیاسی قیادت پر مسلسل دباؤ ڈالنے کے بعد فروری 2021ء میں یہ تقرری عمل میں آئی۔ لیکن اس کے بعد بھی ایک سے ایک مسئلہ سر اٹھاتا رہا۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کے تعینات کردہ مستقل اساتذہ واپس سرگودھا چلے گئے جس کے سبب کئی شعبہ جات میں جاری ایم ایس اور ایم فل کی کلاسز ختم کر دی گئیں اور نئی یونیورسٹی کی فیکلٹی وزٹنگ اساتذہ پر مشتمل رہ گئی۔
اس وقت یونیورسٹی آف میانوالی میں کل تین ہزار 315 طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں جن میں ایک 359 طلباء اور ایک ہزار 956 طالبات ہیں۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق فیکلٹی آف سائینسز اس وقت 11 شعبوں میں گریجوایشن اور پانچ میں ماسٹرز کروا رہی ہے جبکہ فیکلٹی آف سوشل سائینسز اینڈ ہیومینٹیز نو شعبوں میں بی ایس اور پانچ میں ایم ایس آفر کرتی ہے۔
ان سب کے لیے یونیورسٹی میں صرف 14 مستقل اساتذہ موجود ہیں، اور ان کی تقرری بھی چند ہفتے قبل ہی عمل میں آئی ہے۔ باقی تمام اساتذہ وزٹنگ فیکلٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف میانوالی میں تین ہزار سے زائد طلبا کے لیے صرف 14 مستقل اساتذہ موجود ہیں
اکیس سالہ ثریا یونیورسٹی آف میانوالی میں بی ایس میتھ کی طالبہ ہیں اور اس وقت ساتویں سمسٹر میں پڑھ رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "میرا دل چاہتا ہے کہ اس یونیورسٹی کو چھوڑ کر کہیں اور داخلہ لے لوں، لیکن گھر کے حالات اور ماحول اجازت نہیں دیتے کہ کسی دوسرے شہر جا کر تعلیم جاری رکھ سکوں"۔
ان کا کہنا ہے کہ "یہاں کوالٹی ایجوکیشن ہے ہی نہیں۔ ہمیں یہاں چار سال گزرنے والے ہیں، ابھی تک ہمیں مستقل اساتذہ نہیں ملے۔ ہر سمسٹر کے شروع میں ہم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ نئے سمسٹر تک مستقل اساتذہ کی بھرتی کا عمل مکمل ہو جائے گا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ مجبوراً ہمیں وزٹنگ فیکلٹی سے پڑھنا پڑھ رہا ہے، جس میں زیادہ تر تو ہمارے وہ سینئرز ہی ہیں جنہوں نے اسی یونیورسٹی سے پڑھا۔ وہ کلاس تو پڑھا دیتے ہیں مگر ہمارے کانسپٹس کلیئر نہیں ہو پاتے"۔
بی ایس باٹنی کی طالبہ اقراء کے مطابق یونیورسٹی میں پریکٹیکل کرایا ہی نہیں جاتا۔سائنس لیب یا تو فنکشنل نہیں، یا پھر سامان ادھورا ہے۔
"سائنس کے طلبہ پریکٹیکل کیے بغیر ہی یہاں سے تعلیم مکمل کر جاتے ہیں۔ مائیکرو بائیولوجی اور بائیو ٹیکنالوجی کی لیبارٹریاں تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ صرف تھیوری پڑھا کر ڈگری دی جا رہی ہے"۔
محمد اکرم شعبہ ایجوکیشن میں بی ایڈ کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں سوائے ایک ایڈمشن دفتر کے کوئی بھی دفتر فعال نہیں ہے جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی کئی چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔
ان کے مطابق: "طلبہ کے سکالر شپ کے چیک مہینوں سے پڑے ہیں لیکن دستخط نہیں ہو پارہے۔ درجنوں چکر کاٹنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ یونیورسٹی میں خزانچی (ٹریئرر) کی سیٹ ہی خالی پڑی ہوئی ہے۔عارضی طور پر بھی کسی کو چارج نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے کوئی چیک سائن نہیں ہو رہا"۔
یونیورسٹی کے قیام کو تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر انتظامی پوسٹوں پر ابھی تک وائس چانسلر اور کنٹرولر امتحانات کے علاوہ کوئی بھی سیٹ ایسی نہیں جس پر تقرری ہوئی ہو۔
رجسٹرار کی اہم پوسٹ سمیت درجنوں سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ڈیڑھ سال قبل ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کی تقرری کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں مگر تاحال ان پر بھی بھرتی کا عمل مکمل نہیں ہوا۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید خان نیازی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ "رجسٹرار سمیت کچھ اہم نشستیں خالی ہونے کی وجہ سے بھرتی کا عمل نہایت سست روی کا شکار ہے۔ تاہم یونیورسٹی نے درخواستیں طلب کر رکھی ہیں، جن پر جلد ہی عمل شروع ہو گا اور انشاءاللہ جلد تمام نشستوں پر بھرتی مکمل کر لی جائے گی"۔
وائس چانسلر یونیورسٹی آف میانوالی ڈاکٹر اسلام اللہ خان لوک سجاگ کو بتایا کہ "یونیورسٹی چند برسوں کی بجائے دہائیوں میں بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
من مانی فیس، خودساختہ قواعد اور غیرقانونی داخلے: نجی یونیورسٹیاں کیسے 'طلبا کا استحصال کر رہی ہیں'۔
ہم نے نئے ڈیپارٹمنٹس کا اجراء کیا اور وزٹنگ فیکلٹی کے لیے ایم فل کوالیفیکیشن لازم کی۔ مستقل اساتذہ کی بھرتی کا عمل بھی شروع کیا۔ نیا اکیڈمک بلاک تعمیر کرایا۔
"عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد میں نے کوششیں کیں کی کسی طرح یونیورسٹی کے رقبے میں اضافہ کیا جائے کیونکہ کوئی یونیورسٹی بھی 80 کنال پر مشتمل نہیں ہوتی۔یونیورسٹی کو بڑھانے کے لیے ہزاروں کنال زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے عارضی اور مستقل بندوبست کے لیے حکومت سے مسلسل رابطہ کیا ہے۔ عارضی بنیادوں پر ہم نے محمکہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب سے یونیورسٹی سے ملحقہ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج میانوالی کی خالی زمین الاٹ کرنے کے لیے خط لکھا ہے جس پر پیش رفت ہورہی ہے۔
مستقل بنیادوں پر ضلعی انتظامیہ سے 1500 سے دوہزار کنال اراضی کا تقاضا کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں شہر سے 20 کلومیٹر دور موسیٰ خیل کے مقام پر سرکاری زمین کا تعین بھی کر لیا گیا ہے، جو انشاءاللہ جلد یونیورسٹی کو الاٹ کر دی جائے گی"۔
تاہم طلبہ کو دور دور تک ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
محمد سلیم بی ایس انگلش کے طالب علم ہیں اور یونیورسٹی کے حالات سے انتہائی نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "باقی مسائل تو اپنی جگہ ، یہاں ڈیپارٹمنٹس کے پاس کلاس رومز بھی نہیں ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کلاس ختم ہونے کے بعد ہمیں کمرہ خالی نہ ہونے کے سبب اگلی کلاس کا دو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو نئی بلڈنگ بنی ہے ، ابھی تک اس کے واش روم بھی فنکشنل نہیں۔
ہزاروں طلباء و طالبات کے لئے صرف ایک ایک ہی واش روم بلاک موجود ہے۔اور پھر پوری یونیورسٹی میں طالبات کے لیے کوئی کامن روم بھی نہیں ہے"۔
(طلبا اور طالبات کی پہچان چھپانے کے لیے ان کے اصل ناموں کو فرضی ناموں سے بدل دیا گیا ہے۔)
تاریخ اشاعت 25 مارچ 2023