ضلع مٹیاری میں ہالہ کے مخدوم کبھی نہیں ہارے۔ اب نیا کیا ہو رہا ہے؟

postImg

اشفاق لغاری

postImg

ضلع مٹیاری میں ہالہ کے مخدوم کبھی نہیں ہارے۔ اب نیا کیا ہو رہا ہے؟

اشفاق لغاری

حیدرآباد سے شمال کی طرف ہائی وے پر نکلیں تو نصف گھنٹے میں سندھ کا زرخیز ترین ضلع مٹیاری شروع ہو جاتا ہے جہاں آٹھ فروری کو ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا۔

اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹر کی کل تعداد چار لاکھ 17 ہزار 629 ہے جن میں ایک لاکھ 96 ہزار 452 خواتین اور دو لاکھ 21 ہزار 177 مرد ووٹرز ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ حتمی فہرست کے مطابق مٹیاری کی تینوں جنرل نشستوں پر انتخاب میں 36 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ ان میں صرف دو خواتین ہیں جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ جبکہ تینوں حلقوں سے کوئی بھی غیر مسلم بطور امیدوار الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا۔

2023ء کی مردم شماری کی بیشتر تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں تاہم 2017ء میں ضلع مٹیاری میں اقلیتی آبادی ایک لاکھ 28 ہزار 743 بتائی گئی تھی۔

مٹیاری کی قومی نشست این اے 216 پورے ضلعے پر مشتمل ہے جس میں سندھ کا ایک بڑا ثقافتی مرکز اجرک اور دستکاری کے لیے مشہور شہر ہالہ بھی آتا ہے۔

 یہاں سے گزشتہ انتخابات میں پی پی امیدوار اور سروری جماعت کے سربراہ مخدوم جمیل الزماں کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نےلگ بھگ ایک لاکھ 10 ہزار اور ان کے مقابل جی ڈی اے کے مخدوم فضل حسین نے 50 ہزار 366 ووٹ لیے تھے۔

اس بار بھی یہاں پپیپلز پارٹی سے مخدوم جمیل الزماں، ن لیگ سے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر احمد میمن اور تحریک انصاف کی حمایت یافتہ نازش بھٹی سمیت 12 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

کہاجاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ مخدوم ہاؤس ہالا میں مخدوم طالب المولیٰ اور دیگر ساتھیوں سے مل کر کیا تھا۔ تب سے آج تک مخدوم خاندان ہی یہاں سے قومی اور صوبائی الیکشن جیتتا آ رہا ہے۔

اس ضلعے میں ہالا میونسپل کمیٹی اور چھ ٹاؤن کمیٹیاں آتی ہیں جن میں سے بھٹ شاہ، اڈیرو لعل، خیبر، پرانا ہالا اور نیو سعید آباد ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئرمین پیپلزپارٹی جبکہ مٹیاری ٹاؤن کمیٹی کے چیئرمین جی ڈی اے سے تعلق رکھتے ہیں۔

سندھ کی چار بڑی درگاہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی، مخدوم سرور نوح، سید سخی ہاشم شاہ اور سید سخی رکن الدین شاہ ہاشمی کی درگاہ اس ضلعے میں آتی ہیں۔ ان میں سے شاہ لطیف کے سجادہ نشین عام طور پر سیاست سے دور رہتے ہیں جبکہ دیگر تینوں درگاہوں سے وابستہ خانوادے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔

آئندہ عام انتخابات میں مٹیاری کی واحد قومی نشست پر مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے اور درگاہ مخدوم نوح سرور (اس سلسلے کو نولکھی گودڑی بھی کہا جاتا ہے) کے گدی نشین مخدوم جمیل الزماں اور سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر احمد میمن نمایاں امیدوار ہیں۔

مخدوم خاندان میں سے صرف مرحوم مخدوم شاہ نواز ن لیگ سے وابستہ رہے جو انتخابات میں اکثر ن لیگ کے امیدوار ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ نواز لیگ کے سابق صدر شاہ محمد شاہ کا تعلق بھی ضلع مٹیاری سے ہے۔

میمن محلہ مٹیاری کے رہائشی زبیر احمد میمن بتاتے ہیں کہ جاموٹ خاندان اور پیر پگارا بھی اس علاقے میں خاصا اثر رکھتے ہیں اور سید جلال شاہ جاموٹ جی ڈی ای کے صوبائی امیدوار ہیں۔ جن کی وجہ سے بشیر میمن کو مٹیاری شہر اور گرد و نواح میں زیادہ ووٹ پڑیں گے۔

ہالا شہر کے رہائشی 66 سالہ منیر احمد ارباب مخدوم خاندان کے ناقد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاموٹ اور پیر پگارا کے علاوہ اڈیرو لعل سے سابق آئی جی مشتاق شاہ بھی بشیر میمن کے ساتھ ہیں۔ دوسرے مخدوم علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کراتے اس لیے پی پی کے مخالفین کی حمایت بڑھ رہی ہے۔

گاؤں کرم نظامانی کے رہائشی اور پرانے سیاست کار 73 سالہ رئیس علی احمد نظامانی اب پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں مگران کا یہاں 2013ء میں مخدوم امین فہیم کے خلاف 'مٹیاری عوامی محاذ ' بنانے میں مرکزی کردار رہا ہے۔

رئیس علی احمد اتفاق کرتے ہیں کہ مخدوم مخالف ووٹ بڑھ رہا ہے لیکن وہ منیر ارباب کی یہ بات قطعی تسلیم نہیں کرتے کہ بشیر میمن کو 2018ء کے الیکشن میں جی ڈی اے کی طرف سے الیکشن ہارنے والے مخدوم فضل حسین سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بشیر میمن نے اپنے علاقے پرانا ہالا میں یونین کونسل پر ایک امیدوار کھڑا کیا تھا اور اسی کو بھی نہیں جتوا سکے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ پچھلے دونوں انتخابات میں مخدوم مخالف امیدواروں کو جتنے ووٹ پڑے تھے اس بار بشیر میمن کو ان سے بھی کم ووٹ ملیں گے۔ اس کے علاوہ اگر پی پی سینیٹر محمد علی شاہ جاموٹ اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے تو بشیر میمن کو مٹیاری شہر میں بھی کم ووٹ ملیں گے۔

ان کے بقول محمد علی شاہ صوبائی نشست کا ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہیں۔

ریٹائرڈ پولیس افسر بشیر میمن جیسے ہی باضابطہ ن لیگ میں شامل ہوئے انہیں سندھ کا پارٹی صدر بنا دیا گیا ہے جو یہاں آصف زرداری اور مخدوم ہاؤس کے حریف کی پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کرپشن اور خراب حکمرانی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

دوسری طرف سندھ کے ایک بڑے علاقے میں سیاست کی ڈوریں ہلانے والے مخدوم جمیل الزمان کہتے ہیں کہ مٹیاری والوں کے حصے میں جو شیر آیا ہے یہاں کے لوگ آٹھ فروری کو اس کی دم کاٹیں گے۔

یہاں تحریک انصاف کی آزاد امیدوار نازش بھٹی نے شاہ لطیف کی درگاہ پر حاضری سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ عوام پرانے نظام سے تنگ اور ان کے لیڈر کے ساتھ ہیں۔ وہ خواتین میں زیادہ مہم چلا رہی ہیں کیونکہ انہیں خواتین کا زیادہ ووٹ ملنے کا یقین ہے۔

پی ایس 56 سعید آباد- ہالہ پر پیپلز پارٹی کے مخدوم محبوب الزمان، ن لیگ سے بشیر میمن کے بھائی نصیر احمد میمن اور تحریک انصاف کی نرگس ناز سمیت نو امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔

اس حلقے سے گزشتہ انتخابات میں مخدوم جمیل الزماں کے صاحبزادے محبوب الزماں 56 ہزار 811 ووٹ لےکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ جی ڈی ای کے نصیر میمن نے 34 ہزار 642 ووٹ لیے تھے۔ اس بار بھی وہی دونوں امیدوار آمنے سامنے ہیں۔

رئیس نظامانی سمجھتے ہیں کہ اس بار مخدوم محبوب الزماں کو سب سے زیادہ ووٹ پڑیں گے کیونکہ ایک تو ن لیگ کے امیدوار کمزور ہیں دوسرے اس نشست پر پیپلز پارٹی کو راہو خاندان کے تمام سرکردہ افراد کی حمایت حاصل ہے۔

پی ایس 57 مٹیاری- ہالہ پر جی ڈی اے کے سید جلال شاہ جاموٹ، پیپلز پارٹی کے سابق چیئرمین ضلع کونسل مٹیاری مخدوم فخر زمان، جے یو آئی کے محمد ہاشم خاصخیلی سمیت 15 امیدوار ہیں۔

2018ء میں یہاں سے فخر زمان کے والد اور مخدوم امین فہیم کے بھائی رفیق الزماں جیتے تھے جنہوں نے 46 ہزار 320 ووٹ لیے تھے جبکہ جی ڈی ای کے جلال شاہ 24 ہزار 366 ووٹ لے سکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

حیدرآباد: "لوگ صرف پارٹی نشان کو ووٹ دیتے ہیں" کیا یہاں نتائج میں کوئی تبدیلی آئے گی؟

میمن محلہ مٹیاری کے رہائشی زبیر احمد میمن بتاتے ہیں کہ مقامی بااثر زمینداروں کو مخدوم جمیل الزماں سے شکایات ہیں لیکن یہ سب مخدوم رفیق الزماں اور ان کے صاحبزادے فخر زماں کو اپنے پولنگ سٹیشنز جتوانے کے لیے تیار ہیں۔

باگڑی محلہ مٹیاری کے سیتا رام باگڑی کا خیال ہے کہ مٹیاری میں ہندو برادری کے اکثر ووٹ جی ڈی اے اور نواز لیگ کے امیدواروں کو پڑیں گے جبکہ ہالہ میں پیپلز پارٹی کو ملیں گے۔

مٹیاری عوامی اتحاد

2013ء میں مخدوم امین فہیم کے مقابلے میں ایک مٹیاری عوامی اتحاد بنایا گیا تھا جس کے ایک غیر معروف امیدوار عبدالرزاق میمن نے فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر اس قومی حلقے سے 72 ہزار 423 ووٹ لےگئے تھے۔ جبکہ مخدوم امین فہیم 95 ہزار 724 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

رئیس علی احمد نظامانی بتاتے ہیں کہ 2013ءکے عام انتخابات سے قبل صدر آصف علی زرداری نے ان سمیت 'مٹیاری اتحاد' والوں کو بلاول ہاؤس کراچی مدعو کیا تھا اور کہا کہ وہ جیت ویسے بھی نہیں سکیں گے اس لیے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی حمایت کریں۔

"آصف زرداری نے کہا کہ میں نواب شاہ ہار گیا تو کوئی بات نہیں مگر پیپلز پارٹی کی علامت لاڑکانہ، ہالا اور لیاری کو کسی صورت ہارنے نہیں دوں گا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ کوئی عام آدمی مخدوم امین فہیم کے سامنے 70 ہزار ووٹ لے جائے گا۔ اور اس کا اعتراف انہوں نے انتخابات کے بعد ہونے والی ملاقات میں کیا تھا۔"

تاریخ اشاعت 29 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.