سکرنڈ میں میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں چار کسانوں کی ہلاکت، لواحقین اور اہلخانہ کی انصاف کے لیے دہائی

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سکرنڈ میں میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں چار کسانوں کی ہلاکت، لواحقین اور اہلخانہ کی انصاف کے لیے دہائی

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

سکرنڈ کے گاؤں ماڑی جلبانی کی 55 سالہ جنت خاتون کے آنسو نہیں تھمتے۔ ان کے دو بیٹے سکیورٹی اداروں کی ایک کارروائی میں مارے گئے تھے۔ دونوں کی اسی ماہ شادی ہونے والی تھی۔

 وہ روتے ہوئے کہتی ہیں "میرے بیٹوں کی سیجوں کا سامان بھی گھر میں آچکا تھا۔ میرےگھوٹ (دلہے) گویا سیجوں سے اتار کر قتل کر دیے گئے۔ میری آنکھوں میں صرف ایک ہی منظر ہے۔ میرے جوان بیٹے خون میں لت پت پڑے ہیں۔ مجھے انصاف چاہیے، میں قاتلوں کو مرتے دم تک معاف نہیں کروں گی۔"

ضلع بینظیر آباد (نواب شاہ) میں تحصیل ہیڈکوارٹر سے بارہ کلو میٹر دور کچے کے علاقے میں 28ستمبر کو سکیورٹی اداروں نے ایک کارروائی کی جس سے جلبانی برادری کے چار کسان ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں 32 سالہ سجاول، 28 سالہ میہار اور دو نوجوان بھائی 30 سالہ نظام الدین اور 27 سالہ امام بخش شامل تھے۔ اس فائرنگ میں 60 سالہ الہداد جلبانی ، ان کے بیٹے 32 سالہ امام الدین اور رشتہ دار سارنگ ، علی نواز اور لیاقت جلبانی زخمی ہوئے۔

جنت بی بی کے تین بیٹے تھے۔اس کارروائی میں ان کے بیٹے امام بخش اور نظام الدین ہلاک ہو چکے ہیں اور تیسرے، امام الدین شدید زخمی ہیں۔ انہیں کمر میں گولی لگی تھی۔وہ دس دن تک ٹراما سنٹر کراچی میں زیر علاج رہے اور اب چلنے پھرنے سے لاچار ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے سے قبل ان کے بیٹے پُھٹی (کپاس) چُن کر کھیت سے لوٹے تھے۔"میرا بے قصور خاندان تباہ کر دیا گیا۔ گھر میں اب کوئی کمانے والا ہی باقی نہیں رہا۔"
 
ماڑی جلبانی میں کارروائی کے بعد جب اہلکار چلے گئے تو لواحقین نے چار مقتولین کی لاشیں قومی شاہراہ پر رکھ کر دھرنا دیا جو سکرنڈ کے قریب تقریبا 24 گھنٹوں تک جاری رہا ۔ دھرنے کی قیادت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کےصدر سید زین شاہ ( جی ایم سید کے پوتے)کر رہے تھے۔

ڈپٹی کمشنر زاہد حسین سے مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ختم کیا گیا تھا۔سید زین شاہ بتاتے ہیں کہ بے رحمی کی حد یہ ہے کہ تھانہ ماڑی جلبانی پولیس مقتولین کے پوسٹ مارٹم کے لیے لیٹر (ڈاکٹ) تک جاری نہیں کر رہی تھی۔ قتل اور زخمی ہونے والوں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی اس واقعے سے پہلے کوئی کیس یا شکایت درج نہیں تھی۔

اس دوران ایس ایس پی آفس بینظیر آباد سے اعلامیہ جاری ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ ماڑی جلبانی میں کارروائی ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کی گئی تھی۔اس دوران گاؤں والوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر کے تین رینجرز ایلکاروں کو زخمی کر دیا۔جوابی فائرنگ میں تین لوگ ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔

رینجرز کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان آیا کہ کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے خفیہ ادارے کی 'ہائی ویلیو ملزمان 'کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا۔ شرپسند عناصر نے اہلکاروں کو دیکھتے ہی حملہ کر دیا۔ اس سے چار جوان زخمی ہو گئے۔ جوابی کارروائی میں تین حملہ آور مارے گئے تھے۔

تاہم کاروائی میں ہلاکتوں کے بعد تھانہ ماڑی جلبانی میں اس واقعہ کی دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔پہلی ایف آئی آر28 ستمبر ہی کو سرکار یعنی اس تھانے کے ایس ایچ او مقصود رضا منگنھار کی مدعیت میں کا ٹی گئی تھی ۔جس کا انکشاف تین روز بعد انسداد دہشگردی عدالت میں پولیس کے رپورٹ پیش کر نے پر ہواتھا۔

دوسری ایف آئی آر مقتولین کے ورثا یعنی سجاول کے بھائی راحب جلبانی کی مدعیت میں احتجاج کے بعد 29 ستمبر کودرج کی گئی تھی اس کی کاپی تھانہ ماڑی جلبانی سے اس ہی وقت راحب جلبانی کو مہیا کی گئی۔یہ کیس تحصیل سکرنڈ کی عدالت میں ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق ڈی ایس آر(ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رینجرز) ضیا اور انسپیکٹر آصف علی کی سربراہی میں سٹاف، رینجرز کی تین گاڑیوں اور اہلکاروں کے ساتھ کارروائی کی گئی۔

سرکار کی ایف آئی آر کے متن میں پولیس کی تمام گاڑیوں کے نمبر اور چند اہلکاروں کے نام بھی درج ہیں۔

پولیس کا موقف ہے کہ اہلکاروں نے لیاقت ولد شہمیر کے گھر کی تلاشی شروع کی تو رجب ولد محمد خان جلبانی اور حریف عرف ڈھولی ولد جمعہ خان جلبانی کی سرکردگی میں کلاشنکوفوں، سریے اور لاٹھیوں سے مسلح گاؤں کے دو ڈھائی سو افراد نے ڈیوٹی میں رکاوٹ ڈالی اور سرکاری کام میں بےجا مداخلت کی۔

اس موقع پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر لوگوں نے رینجرز کے اہلکاروں کو گاڑیوں سے اتار لیا اور جب انہیں چھڑانے کی کوشش کی گئی تو ملزموں نے لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ اس دوران گولیاں لگنے سے ملزموں میں شامل لوگ بھی ہلاک و زخمی ہو گئے۔

سرکاری ایف آئی آر میں دہشگردی کی دفعات بھی شامل ہیں جبکہ اس مقدمے کی دوسری ایف آئی آر مقتولین کے لواحقین کی فریاد پر درج کی گئی تھی۔ اس کے مدعی کے مطابق وہ 28ستمبر کو اپنے بھائی سجاول دیگر کے ساتھ علی نواز جلبانی کے گھر بیٹھے تھے کہ تقریباً پونے تین بجے (دن) ایک سفید اور ایک سیاہ رنگ کی ویگو گاڑی، تین سکیورٹی اداروں کی گاڑیاں اور پانچ پولیس موبائل گاڑیاں گھر کے دروازے پر آ کھڑی ہوئیں۔ ان گاڑیوں میں 40 تا 45 وردی اور بغیر وردی اہلکار گھر میں داخل ہو گئے۔

"سرکاری وردی والے لوگوں نے ہمیں کہا کہ آپ دہشتگرد ہیں اور ہم پر فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ میرا بھائی سجاول جلبانی اور رشتہ دار نظام الدین موقع پر ہلاک ہو گئے۔ امام بخش،مہیار ،جلبانی، امام الدین، الہداد، سارنگ، علی نواز اور لیاقت جلبانی شدید زخمی ہوئے۔ "

اسی ایف آئی آر میں مدعی کا کہنا ہے کہ شدید فائرنگ کی وجہ سے گاؤں کے رہائشی اکٹھے ہو گئے۔ وہ لوگوں کی مدد سے مقتولین اور زخمیوں کو لےکر سکرنڈ ہسپتال جا رہے تھے کہ راستے میں امام بخش اور مہیار بھی دم توڑ گئے۔

 نگران وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیا اور کمشنر حیدرآباد خالد حیدر شاہ کی سربراہی میں ڈی آئی جی بینظیر آباد پرویز چانڈیو اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ آصف اعجاز شیخ پر مبنی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی تھی۔

ایس ایس پی بینظیر آباد کیپٹن ریٹائرڈ حیدر رضا بتاتے ہیں کہ پولیس نے اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے باعث دونوں ایف آئی آرز پر کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ساتھ ہی ماڑی جلبانی کا ریکارڈ بھی سیل کر دیا گیا تھا۔

تاہم مقتولین کے لواحقین نےسرکاری ایف آئی آر کو جھوٹا قرار دیا اور وزیر اعلیٰ کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ساتھ ہی چار اکتوبر 2023 کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔ جس میں سانحہ ماڑی جلبانی کی ہائی کورٹ کے سابق یا حاضر سروس جج سے تحقیقات کروانے کی استدعا کی گئی ہے۔

 سندھ ہائی کورٹ کراچی میں12 اکتوبر کو اس کیس کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزاروں کی طرف سے سندھ بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین ذوالفقار جلبانی، ایڈووکیٹ طہماسپ رشید رضوی اورعاقب راجپر عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈوکیٹ ذوالفقار جلبانی کے مطابق دوران سماعت ڈی آئی جی بینظیر آباد کی طرف سے جواب جمع کرایا گیا۔جس میں بتایا گیا کہ اس مقدمے کی دونوں ایف آئی آرز  کی جانچ ہو رہی ہے۔ وزیر اعلی کی کمیٹی بھی واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے، دونوں رپورٹس عدالت عالیہ میں پیش کر دی جائیں گی۔

ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ رینجرز کے پراسیکیوٹر پیش ہوئے۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ انہیں کیس کی کاپیاں موصول نہیں ہوئیں وہ ایف آئی آرز پڑھ کر ہی اپنا جواب جمع کرائیں گے۔

 ذوالفقار جلبانی الزام عائد کرتے ہیں ہیں کہ پہلے دن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی ایف آئی آر منصوبہ بندی کے ساتھ کاٹی گئی ۔اور اسے تین دن چھپایا گیا یہاں تک کہ متعلقہ عدالت میں بھی پیش نہیں کی گئی۔ جبکہ متاثرین کی ایف آئی آر 24 گھنٹے دیر سے درج کی گئی اور وہ بھی نامعلوم کے خلاف۔

وہ کہتے ہیں کہ اب وزیر اعلی کی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کسی ایک ایف آئی آر کا چالان پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی میں پولیس کے ہاتھوں تین بے گناہ نوجوانوں کا قتل 85 لاکھ اور تین بیلوں کی قربانی کے بدلے معاف

"ہم پہلے ہی عدالت عالیہ میں بتا چکے ہیں کہ وزیر اعلی کی کمیٹی پر ورثا عدم اعتماد ظاہر کر چکے ہیں، ہمیں بھی اعتماد نہیں ہے، ہائیکورٹ کے کسی جسٹس کی سربراہی میں شفاف تحقیقات کرائی جائے"

غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس ناؤ پاکستان' کے سربراہ علی احمد پلھ بتاتے ہیں کہ ماڑی جلبانی میں ہاریوں کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ ان کے گھروں پر حملہ کیا گیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ صغراں بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ پولیس کی ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ممبر ضلع کونسل باغ علی جلبانی بتاتے ہیں کہ انہیں اور یو سی چیئر مین عمران جلبانی کو وزیر اعلی کی تحقیقاتی کمیٹی نے بلایا تھا۔ دونوں کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور مقتولین کے ورثا کا موقف دہرایا کہ قتل کی تحقیقات ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن سے کرائی جائے اور مظلوموں ہاریوں کو انصاف دیا جائے۔

باغ علی جلبانی نے بتایا کہ واقعے کے تیسرے روز مقتولین کے ورثا کو کمیٹی میں بلایا گیا تھا۔ مگر ورثا تعزیتیں وصول کررہے تھے۔"ہم نے ان کا موقف پیش کر دیا تھا"

 وزیر اعلیٰ کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی 12 دن بعد جائے وقوع کا دورہ کرنے پہنچی۔ مقتولین کے ورثا سے تعزیت کی ۔اور اس کے بعد شہمیر، الھداد اور دیگر لوگوں کے بیانات رکارڈ کیے گئے ہیں۔

اب تحقیقات کیسے آگے بڑھتی ہے اس کا اندازہ ہائیکورٹ میں تحقیقاتی رپورت پیش کیے جانے کے بعد ہی ہو سکے گا اور مقتولین کے لواحقین کو انصاف کب اور کیسے ملتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

تاریخ اشاعت 19 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد
thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.