احمد علی ملاح نے دہائیاں پہلے اپنے والدین سے سنا تھا کہ 1942 میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے منچھر جھیل پوری کی پوری پانی سے بھر گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے خود بھی دیکھا کہ 1977 اور 2010 میں آنے والے سیلاب نے اس جھیل کی گہرائی اور پھیلاؤ دونوں میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اپنی 75 سالہ زندگی میں انہوں نے اس میں اتنا پانی آتے نہیں دیکھا جتنا اِس سال 15 جولائی اور 15 ستمبر کے درمیان ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں اس میں آیا ہے۔
وہ ایک منفرد نوعیت کے گاؤں کے سربراہ ہیں جس کے تقریباً پانچ سو باسی منچھر جھیل کے اندر ہی کشتیوں پر بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ تقریباً ڈیڑھ سو خاندانوں میں منقسم ہیں اور گزر بسر کرنے کے لیے مچھلیاں اور آبی پرندے پکڑ کر فروخت کرتے ہیں۔
احمد علی ملاح کہتے ہیں کہ جھیل میں تازہ پانی کی بھاری مقدار میں آمد سے یہ سب ماہی گیر خاندان بہت خوش ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے مچھلیوں کی بہتر افزائش ممکن ہو سکے گی اور نتیجتاً ان کے روزگار میں بہتری آئے گی۔
منچھر کے کنارے واقع بوبک نامی بستی سے تعلق رکھنے والے علی انور ملاح بھی ان سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیلابی پانی میں مچھلی کا پونگ بھی بڑی مقدار میں شامل تھا جس کی افزائش سے آنے والے مہینوں اور سالوں میں مقامی ماہی گیروں کا روزگار بہت بہتر ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جھیل میں تازہ پانی کی آمد سے اس کا "قدرتی ماحول صاف ہو گیا ہے جس کے باعث اس میں موجود مچھلیاں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑی ہوں گی"۔
صوبہ سندھ کے محکمہ آب پاشی کی طرف سے جاری کیے گئے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ مون سون کے دوران منچھر جھیل میں پانی کی گہرائی 10 فٹ سے بڑھ کر 25 فٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس کا پھیلاؤ تین سو 60 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر پانچ سو مربع کلومیٹر ہو گیا ہے۔ تاہم اس سے جہاں مچھلیوں اور دوسری آبی حیات کی بہتر افزائش کی توقعات نے جنم لیا وہیں یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ یہ اضافی پانی کہیں ارد گرد کی بستیوں میں داخل نہ ہو جائے۔ چنانچہ محکمہ آب پاشی نے ستمبر 2022 کے پہلے ہفتے میں جھیل کے گرد تعمیر کیے گئے حفاظتی بند میں دو جگہ شگاف کر دیے تاکہ اس میں آنے والا پانی ایک ایسی سمت میں خارج کیا جا سکے جس میں بڑی انسانی آبادیاں موجود نہیں۔
اگرچہ لگ بھگ ایک ماہ بعد یہ شگاف پر کر دیے گئے لیکن احمد علی ملاح کہتے ہیں کہ اس دوران انہیں اور جھیل پر رہنے والے دیگر ماہی گیروں کو ہروقت یہ فکر لگی رہتی تھی کہ ان سے نکلنے والا پانی کہیں مچھلیوں کے پونگ کو بھی اپنے ساتھ بہا کر نہ لے جائے اور یوں ان کی بہتر روزگار کی امیدیں دھری کی دھری نہ رہ جائیں۔ اس لیے وہ محکمہ آب پاشی کو مسلسل کہتے رہے کہ یہ شگاف فوراً بند کیے جائیں۔
پائیدار حل کی تلاش
منچھر جھیل سندھ کے مغربی اضلاع دادو اور جام شورو کے سنگم پر واقع ہے۔ اس میں آنے والے پانی کے تین ماخذ ہیں جن میں اس کے شمال مغرب میں کیرتھر کی پہاڑیوں پر ہونے والی بارش، اس کے شمال میں بہنے والا مین نارا ویلی ڈرین جو اسے حمل نامی جھیل سے جوڑتا ہے اور اس کے مشرق میں موجود دریائے سندھ شامل ہیں۔ آخری ماخذ سے جھیل کو پانی کی فراہمی 2009 میں شروع ہوئی جب حکومت نے طے کیا کہ اسے پورا سال 20 مکعب میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے دریائی پانی فراہم کیا جائے گا تاکہ اسے خشک ہونے سے بچایا جا سکے۔
تاہم پچھلے 10 سالوں میں ان تینوں ذرائع سے جھیل میں پانی کی مجموعی آمد بہت کم رہی ہے جس کی وجہ سے اس کا زیرِآب رقبہ مسلسل سکڑتا رہا ہے۔ اسی دوران مختلف وجوہات کی بنا پر اس میں آلودگی کی سطح بھی بڑھتی رہی ہے۔ احمد علی ملاح کی بھانجی حسنہ ملاح اس تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "پہلے ہم پینے کے لیے بھی اسی جھیل کا پانی استعمال کرتے تھے لیکن اب یہ اتنا گندا ہو گیا ہے کہ اسے پینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا"۔
مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جامشورو میں قائم آبی تحقیق کے مرکز میں کام کرنے والی تحقیق کار ڈاکٹر عظمیٰ عمران اس بات کی توثیق کرتی ہیں۔ انہوں نے منچھر جھیل پر نہ صرف پی ایچ ڈی کر رکھی ہے بلکہ اس پر تین تحقیقی مقالے بھی لکھ چکی ہیں۔ اس تحقیقی تجربے کی بنیاد پر ان کا کہنا ہے کہ مون سون کے موسم (جولائی-اگست) کے سِوا سال کے دیگر مہینوں میں اس جھیل کے پانی میں حل شدہ کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، کلورائیڈ اور سلفیٹ جیسے ٹھوس عناصر کی مقدار تین ہزار سے پانچ ہزار پانچ سو ملی گرام فی لٹر ہوتی ہے حالانکہ بین الاقوامی ادارہِ صحت کے قائم کردہ معیار کے مطابق یہ مقدار ایک ہزار ملی گرام فی لٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق ان ٹھوس عناصر کی اتنی زیادہ مقدار جھیل کے پانی کو انسانی استعمال اور آبی حیات کے لیے شدید نقصان دہ بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "1998 سے لے کر اب تک اس میں پائی جانے والی مچھلیوں کی قسمیں 32 سے کم ہو کر 23 رہ گئی ہیں جبکہ اس میں موجود مچھلیوں کی جسامت بھی پہلے سے چھوٹی ہو گئی ہے"۔
ان مسائل کے نتیجے میں پچھلی ایک دہائی میں متعدد ماہی گیر گھرانے احمد علی ملاح کا گاؤں اور ماہی گیری چھوڑ کر دوسرے علاقوں اور دوسرے شعبوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اگر اس سال جھیل میں مناسب مقدار میں پانی نہ آتا تو اس کے کچھ مزید باشندے بھی نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہے ہوتے۔
تاہم ڈاکٹر عظمیٰ عمران کا کہنا ہے کہ پانی کی آمد کے باوجود جھیل کی آلودگی "خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے جس کی وجہ سے اس کا قدرتی ماحول اب بھی آبی حیات، خاص طور پر مچھلیوں، کی بہتر افزائش کے لیے مناسب نہیں"۔
تقریباً تین دہائیوں سے محکمہ آب پاشی کی طرف سے منچھر جھیل میں پانی کی پیمائش پر مامور 51 سالہ شیر محمد ملاح بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جھیل کی آلودگی اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ محض اضافی پانی کی آمد سے اس کا پائیدار حل ممکن نہیں رہا بلکہ، ان کے مطابق، اس کا واحد حل اس کی آلودگی کے ماخذ پر قابو پانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رگ رگ میں میری پھیل گیا ہے یہ کیسا زہر: انسانی آبادیوں کے آلودہ پانی کی آمد سے حمل جھیل کی آبی حیات تباہی کا شکار۔
یہ ماخذ جھیل کے شمال میں واقع لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ جیسی بڑی بڑی انسانی آبادیوں کا فضلہ اور ان کی زرعی زمینوں سے نکلنے والے سیم زدہ پانی ہے جو پچھلی دو دہائیوں سے رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) نامی نالے کے ذریعے جھیل میں شامل ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کی نظر میں اس کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے "آر بی او ڈی کا رخ موڑنا ضروری ہے تاکہ اس کا پانی منچھر جھیل میں گرنے کے بجائے سیدھا سمندر میں چلا جائے"۔
ان کے بقول سندھ حکومت بھی اس حل سے آگاہ ہے اور اس نے اس حوالے سے ایک منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔ تاہم اس منصوبے پر ابھی تک عملی کام شروع نہیں ہو سکا جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ خبردار کرتے ہیں کہ "آر بی او ڈی کا رخ موڑنے میں جتنی دیر لگے گی منچھر جھیل میں آبی حیات کی افزائش کو درپیش خطرات میں اتنا ہی اضافہ ہو گا"۔
تاریخ اشاعت 29 اکتوبر 2022