بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

postImg

عمر باچا

postImg

بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

عمر باچا

نثار احمد توروالی، یونیورسٹی آف سوات میں ایم اے سیاسیات کے طالب علم ہیں۔ انہیں جب سے مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کے بارے میں معلوم ہوا ہے تب سے وہ اپنے خوبصورت گاؤں درولئی کے متعلق فکر مند ہیں۔

انہیں لگتا ہے کہ دراڑ خواڑ پاور پراجیکٹ کی طرح یہاں بجلی گھر بننے سے بھی ان کے گاؤں کے چشمے خشک ہو جائیں گے۔ پھر گاؤں کے ارد گرد زراعت رہے گی نہ خوبصورت مناظر۔

خیبر پختونخوا حکومت نے سوات کے سیاحتی مرکز مدین میں پختونخواانرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے زیرانتظام 207 میگاواٹ کا ہائیڈرو پاور ہاؤس لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی مالی ماونت ورلڈ بینک کر رہا ہے۔

 اس پاور پراجیکٹ کی زمین کے لازمی حصول کے لیے ضلعی انتظامیہ نے مدین اور نواح کی اراضی پر لینڈایکوزیشن ایکٹ کے سیکشن فور کا اطلاق کر دیا ہے مگر بیشتر مقامی لوگ اپنا زرعی رقبہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔

لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کا سیکشن فور کہتا ہے کہ حکومت یا کسی کمپنی کو عوامی استعمال کے لیے زمین کی ضرورت ہو تو وہ اس کا اعلان سرکاری گزٹ میں کیا جائے گا اور لینڈ کلکٹر ، مطلوبہ زمین/جائداد کے حصول  کی اطلاع کے لیے مختلف عوامی مقامات پر نوٹس بھی لگائے گا۔

حضرت گل، بحرین کے گاؤں مناکئی کے رہائشی ہیں جو فوج میں بطور سپاہی 30 سال نوکری کرنے کے بعد 2017ء میں ریٹائر ہو ئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں ان کا اور ان کے بھائیوں کا کل 14 کنال نو مرلے رقبہ ہے جہاں پاور ہاؤس کی کالونی بنانے کے لیے سیکشن فور لگایا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پیڈو نے پہلے سروے میں کالونی کے لیے مقامی بااثر شخصیت کی زمین خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر مالکان نے اثر وسوخ کے باعث اپنی زمین واگزار کرا لی۔

"اس کے بعد ہماری اور ہمارے پڑوسی کی زمین پر سیکشن فور ڈیکلیئر کر دیا گیا جو ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمارے پاس صرف یہی زرعی زمین ہے جہاں ہم مکئی اور گندم کاشت کرتے ہیں اور اسی سے ہمارے گھر کا گزارہ چلتا تھا۔"

انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنی زمین پر سیکشن فور کے نفاذ کو 2023ء میں پتہ چلا  تھا، اس کے بعد انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی مگر کئی بار کوشش کے باوجود تسلی بخش جواب نہیں ملا۔"

سوات کی تحصیل بحرین رقبے کے لحاظ سے ضلعے کی سب سے بڑی تحصیل ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جن میں الپائن کے جنگل، شور مچاتا دریا، پہاڑی نالے، آبشاریں، جھیلیں، گلیشیئرز اور متنوع جنگلی حیات شامل ہیں۔

پراجیکٹ ایریا اور زمینی ماحول

ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر موجود 'مدین ہائیڈرو پاور کے ماحولیاتی و سماجی اثرات' پر مبنی جائزہ رپورٹ  بتاتی ہے کہ اس پراجیکٹ کا علاقہ تین بڑے پہاڑی سلسلوں یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور کوہ قراقرم کے سنگم سے متصل ہے جہاں دریائے سوات اور اس کے معاون دریا گہری اور تنگ گھاٹیوں سے گزرتے ہیں۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ 16 کلومیٹر طویل علاقہ اس منصوبے سے ہونی والی تبدیلوں کا علاقہ (امپیکٹ زون) سمجھا جاتا ہے۔

"زیادہ تر کام دریا کے بائیں جانب 200 میٹر کے فاصلے پر ہو گا یعنی اصل ایریا چوڑائی میں دو کلومیٹر(دریا کے دائیں جانب نصف کلومیٹر اور بائیں جانب ڈیڑھ کلومیٹر) ہو گا۔"

پراجیکٹ زون کی جنگلی حیات

جائزہ رپورٹ پراجیکٹ ایریا کے حیاتیاتی وسائل میں 60 خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پودوں کی 196 انواع کی نشاندہی کرتی ہے جن میں درختوں کی 35، جڑی بوٹیوں کی 116 اور گھاس کی 18 اقسام شامل ہیں۔

 یہاں پھل دار درخت املوک(پرسیمم) کی مختلف انواع عام ہیں جو دو بڑے ممالیہ جانوروں یعنی ریسس بندر اور ایشیائی سیاہ ریچھ کے علاوہ مختلف پرندوں کوغذا فراہم کرتے ہیں۔

رپورٹ کہتی ہے کہ زیر مطالعہ علاقے میں 11 نسلوں سے تعلق رکھنے والے ممالیہ کی 12 اقسام ریکارڈ کی گئیں جن میں آٹھ چھوٹے اور کالے ریچھ (معدومی کے خطرے سے دوچار)، کم یاب انڈین بھیڑیا، ایشیائی گیدڑ سمیت چار بڑے جانور شامل ہیں۔

ریپٹائیلز (رینگنے والے جانور) میں یہاں براؤن کوبرا اور انڈین راک پائتھن (اژدہا) بھی پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کے نام انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی 'خطرے سے دوچار جانوروں' کی فہرست میں شامل ہیں۔

پراجیکٹ ایریا میں 91 خاندانوں کے پرندے دیکھے گئے جن میں 30 مقامی، 20 موسم سرما میں آنے والے، 36 موسم گرما میں پرورش پانے والے اور پانچ ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی اقسام شامل تھیں۔

یہاں ہائیڈرو پاور منصوبے کی تعمیر سے ماحول اور مذکورہ بالا جنگلی حیات پر تباہ کن اثر ہو گا۔ لیکن اس کے سوشواکنامک اثرات کہیں زیادہ ہوں گے۔

ہائیڈرو پاور کے اقتصادی و سماجی اثرات

پیڈو کے ری سیٹلمنٹ ایکشن پلان  کے مطابق مدین ہائیڈرو پاور سےایک ہزار 50 کنال (131 ایکڑ) اراضی استعمال ہو گی جو 141 لوگوں کی ملکیت ہے جس سے مجموعی طور پر 141 خاندانوں کے ایک ہزار 110 افراد متاثر ہوں گے۔

یہ پلان بتاتا ہے کہ اس منصوبے میں تقریباً 20 کنال رہائشی، 640 کنال زرعی، 285 کنال بنجر رقبہ اور 105 کنال ریور بیڈ (سرکاری رقبہ) آئے گا۔ لوگوں کی 37 تعمیرات (گھر وغیرہ) گرائی جائیں گی اور چار ہزار 391 درخت (بشمول پھل دار پودے) کاٹے جائیں گے۔

اس پراجیکٹ کی ماحولیاتی اور سماجی جائزہ رپورٹ   کے مطابق مجوزہ منصوبے کے نواح میں 20 دیہات ہیں جہاں 80 ہزار 573 لوگ رہتے ہیں جو یقیناً متاثر ہوں گے۔ ان میں 43 فیصد لوگ کاشتکار، 15 فیصد پرائیوٹ فارمر اور 13 فیصد مزدور ہیں۔

لوگوں کے خدشات بلا جواز بھی نہیں ہیں۔ یہ رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ اس پاور ہاؤس سے 15 قدرتی چشمے متاثر ہونگے۔

توروالی اور'دریائےسوات بچاؤ تحریک

تحصیل بحرین کے بیشتر علاقے میں توروالی زبان بولنے والی لسانی اقلیت 'توروالی' آباد ہے جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کی روزی روٹی کا زیادہ تر انحصار کاشتکاری اور سیاحت سے ہونے والی آمدنی پر ہے۔

سوات کی یہ  آبادی بحرین میں اس توانائی منصوبے پر شدید تحفظات رکھتی ہے اور 'دریائےسوات بچاؤ تحریک' کا اعلان کر چکی ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت سے یہ ہائیڈرو منصوبہ ختم کرانا ہے۔

نثار احمد توروالی کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے ہے جو اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہر سال یہاں لاکھوں سیاح دریا، گنگناتی آبشایں، چشمے اور جنگل ہی تو دیکھنے آتے ہیں۔

"ورلڈ بینک کی رپورٹ خود تسلیم کرتی ہے کہ ہائیڈرو پاور کے لیے ٹنل بنے گی اور دریا کا رخ موڑ دیا جائےگا ۔ اس کے لیے جنگل کاٹا جائے گا تو صرف دریا کا خشک بیڈ ہی رہ جائے گا جس میں سیاحوں کے لیے کوئی کشش نہیں ہو گی۔"

محقق اور لکھاری زبیر توروالی بتاتے ہیں کہ 'توروالی' یہاں کے مقامی لوگ ہیں جن کی اکثریت کاذریعہ معاش کھیتی باڑی اور ہوٹلنگ ہے۔ اگر بحرین اور مدین میں دریا کنارے قدرتی مناظر ختم ہوگئے تو یہاں ہوٹلز میں سیاح بھی قیام کرنا چھوڑ دیں گے۔

"ہوٹلز کا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔ قدرتی چشمے خشک ہونے سے زراعت ختم اور پینے کے پانی کی قلت ہو جائےگی۔ علاقے کی معیشت برباد ہو گی تو غربت اور سماجی و اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ بحرین میں مقامی لوگوں نے ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔دریائے کو موڑنے سے صرف ایکو سسٹم ہی تباہ نہیں ہو گا بلکہ لوگوں کا روزگار اور سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔

معراج الدین مقامی ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بحرین میں 70 بڑے رہائشی ہوٹل اور 40 سے زائد ریسٹورنٹ ہیں جہاں ایک ہزار سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔ ان کے مالکان سے سٹاف تک تمام 'توروالی' ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بحرین بازار سے چھ کلومیٹر اوپر دریا کو اگر موڑ کر طویل ٹنل میں ڈال دیا گیا تو یہاں لوگ معاشی طور پر برباد ہو جائیں گے اور یہ علاقہ غربت اور شاید جرائم کا گڑھ بن جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: مقامی لوگ ہجرت کریں گے، چشمے سوکھ جائیں گے مگر بجلی گھر بنے گا

"ڈیم کا فائدہ تو ملکی اشرافیہ کو ہوگا مگر اس سے یہاں کے عوام روزی روٹی سے محروم ہو جائیں گے۔ اس لیے ہوٹل یونین اور مقامی لوگوں نے طے کر لیا ہے کہ اس پراجیکٹ کو کسی صورت بننے نہیں دیں گے۔"

زبیر تور والی الزام عائد کرتے ہیں کہ پاور پراجیکٹ کے لیے سٹیک ہولڈرز یعنی مشران، ہوٹل مالکان اور اراضی مالکان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ان کی زمینوں پر سیکشن فور لگایا گیا ہے۔

"جائزہ رپورٹ بناتے وقت مقامی لوگوں سے مبینہ میٹنگ بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں مقامی کمیٹی نے ورلڈ بینک، پیڈو اور انتظامیہ کو کئی بار درخواستیں دی ہیں مگر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔"

ان کا کہنا تھا کہ درال خوڑ ، شانگلہ، دیر اور چترال میں بھی توانائی منصوبوں کی بیشتر ٹنلز کے لیے کھدائی کے نتیجے میں کئی چشمے خشک اور زرعی زمینیں بنجر ہوچکی ہیں جس کا براہ راست اثر مقامی آبادی پر پڑا ہے۔

لوک سجاگ نے بحرین کے لوگوں کے تحفظات جب ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب کے سامنے رکھے تو اُن کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کے سروے وغیرہ کا کام تو ہوچکا ہے۔ تاہم اعتراضات ان کے نوٹس میں ہیں جن پر تحصیل انتظامیہ نے لوگوں سے میٹنگز بھی کی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پیڈو حکام کو واضح حکومتی ہدایات ہیں کہ مقامی لوگوں کی شکایات دور کیے بغیر کسی منصوبے پر کام نہ کیا جائے۔

"میری بھی کوشش ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے لوگوں کو معاشی و سماجی مسائل کا سامنا نہ ہو۔ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا۔"

تاریخ اشاعت 22 اکتوبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.