سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر: 'ہم سے ہمارے باغات اور زمینیں چھینی جا رہی ہیں'۔

postImg

عمر باچا

postImg

سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر: 'ہم سے ہمارے باغات اور زمینیں چھینی جا رہی ہیں'۔

عمر باچا

رحمان علی کو خدشہ ہے کہ جلد ہی وہ اپنے روزگار کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں گے۔ 

وہ ضلع سوات کے صدر مقام مینگورہ کے نواحی قصبے کانجو میں 27 کنال اراضی کاشت کرتے ہیں جس پر گندم اور سبزیاں اگانے کے علاوہ انہوں نے آڑو کے سات سو درخت بھی لگا رکھے ہیں۔ لیکن چند روز پہلے سرکاری اہل کاروں نے ان کی اراضی کے بیچوں بیچ نشانات لگا دیے ہیں کیونکہ یہ ایک مجوزہ منصوبے، سوات ایکسپریس وے فیز ٹو، کے راستے میں آ رہی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے وہ اپنی اراضی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے۔ 

سوات کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں کاشت کاروں کو یہی پریشانی لاحق ہے۔ اس لیے وہ ایک مہینے سے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سڑک کی تعمیر کے لیے ان کی زرعی زمینیں استعمال نہ کرے۔ ان مظاہروں کی قیادت کرنے والے ایک مقامی سماجی رہنما محمد وکیل کا کہنا ہے کہ "حکومت نے ہمیں بتائے بغیر ہماری ہزاروں کنال اراضی پر نشانات لگا دیے ہیں"۔ 

وہ 2006 اور 2009 کے درمیان سوات پر ہونے والے مقامی طالبان کے قبضے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "پہلے ان کی دہشت گردی نے ہمارا روزگار تباہ کیا پھر 2010 میں آنے والے سیلاب نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور اب ایکسپریس وے ہمارے باغات اور زمینیں ہم سے چھیننے والی ہے"۔

اس سڑک کے متوقع متاثرین میں کانجو ہی سے تعلق رکھنے والے محمد الیاس بھی شامل ہیں کیونکہ ان کی 25 کنال تجارتی اور زرعی زمین بھی اس کے مجوزہ راستے میں واقع ہے۔ وہ اپنی طرح کے 67 دیگر زمین مالکان سے مل کر عدالت سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی فصلوں اور باغات کو سڑک کی زد میں آنے سے بچا سکیں۔

ایک سڑک، دو نقشے

سوات ایکسپریس وے (جس کا سرکاری نام ایم-16 موٹروے ہے) اسلام آباد-پشاور موٹروے (ایم-1) سے نوشہرہ کے مقام سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے کی تعمیر کا آغاز 2016 میں ہوا اور یہ جون 2019 میں مکمل ہوا- اس میں نوشہرہ کو ایک چار رویہ سڑک کے ذریعے ایک سو 16 کلومیٹر شمال میں واقع لوئر دیر کے قصبے چک درہ سے ملایا گیا۔ 

دوسرے مرحلے میں اس سڑک کو چک درہ سے 80 کلومیٹر مزید شمال میں واقع ضلع سوات کے قصبے فتح پور تک پہنچایا جائے گا۔ دو سال میں مکمل ہونے والے اس مرحلے کی لاگت کا تخمینہ 58 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے 21.6 ارب روپے صرف زمین کی خریداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 

ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے خیبر پختونخوا ہائی ویز اتھارٹی کی جانب سے تعینات کیے گئے پراجیکٹ ڈائریکٹر برکت اللہ خان کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے کے لیے مجموعی طور پر سات ہزار سات سو کنال زمین درکار ہے جسے حاصل کرنے کے لیے سڑک کے مجوزہ راستے پر حصول اراضی کے قانون کے سیکشن چار کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔ نتیجتاً سوات کی ضلعی انتظامیہ نے ایک طرف تو ان قطعاتِ اراضی کی نشان دہی شروع کر دی ہے جنہیں اس منصوبے کے لیے حاصل کیا جانا ہے اور دوسری طرف انہیں بیچنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

مقامی انتظامی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اب تک سوات کی چار تحصیلوں، بریکوٹ، کانجو، بابوزے اور کبل، میں ایسی زمینوں کی نشاندہی کا عمل مکمل ہو چکا ہے جبکہ تحصیل مٹہ اور خوازہ خیلہ میں یہ کام ابھی جاری ہے۔ تاہم مقامی کاشت کار کہتے ہیں کہ حکومت آڑو، سیب، سٹرابری اور دیگر پھلوں کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں اس اراضی کو ایکسپریس وے کی زد میں آنے سے بچا سکتی تھی اگر اس کی تعمیر اس کے موجودہ نقشے کے بجائے خیبر پختونخوا کے محکمہ آب پاشی کی طرف سے تین سال پہلے بنائے گئے نقشے کے مطابق کی جاتی۔

محمد وکیل کہتے ہیں کہ اس پرانے نقشے کے مطابق سڑک کا زیادہ تر حصہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا جانا تھا۔ اس طرح "زراعت کی اتنی تباہی نہ ہوتی جتنی اب ہونے کا خطرہ ہے" کیونکہ نئے نقشے کے مطابق تو "چک درہ سے لے کر فتح پور تک تمام سڑک ہی زرعی زمینوں کے درمیان سے گزر رہی ہے"۔ 

ناصر الملک نامی ایک مقامی انجینئر بھی پرانے نقشے کی موجودگی کی توثیق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سرکاری ٹیم میں شامل تھے جس نے یہ نقشہ مرتب کیا تھا۔ ان کے مطابق اس کے لیے "سروے 2016 میں شروع ہوا تھا لیکن اس کی رپورٹ 2018 میں بنائی گئی تھی"۔ 

وہ کہتے ہیں یہ نقشہ بنانے والے لوگوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ ایکسپریس وے کو دریا میں آنے والی سالانہ طغیانی سے محفوظ رکھنا تھا۔ ان کے بقول اس مسئلے کے حل کے لیے دریا اور سڑک کے درمیان ایسے پشتوں کی تعمیر تجویز کی گئی تھی جن کی موجودگی میں "اگر 2010 جیسا شدید سیلاب بھی آ جاتا تو سڑک کو کوئی نقصان نہ پہنچتا"۔ 

لیکن ناصر الملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان پشتوں کی تعمیر سے نہ صرف سڑک کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا بلکہ اس کی تعمیر میں دقت بھی پیش آتی۔

برکت اللہ خان کہتے ہیں کہ انہی وجوہات کی بنا پر اب ایکسپریس وے کو دریا سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر مغرب میں تعمیر کیا جائے گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کا نیا نقشہ ابھی حتمی نہیں بلکہ، ان کے بقول، "اگر منصوبے کے لیے حاصل کی جانے والی زمینوں کی نشان دہی مکمل ہونے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سے مقامی زراعت کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو میرے محکمے کو یہ اختیار ہے کہ وہ اِس نقشے میں حسبِ ضرورت تبدیلی کر سکے"۔ 

وہ زمینوں کے مالکان کو یہ یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ سڑک کے نقشے کو حتمی شکل دینے سے پہلے "ان کی بات پوری طرح سنی جائے گی"۔ 

سوات کے ڈپٹی کمشنر جنید خان بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے خود زمینوں کے مالکان سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں بتایا ہے کہ سڑک کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے ان کی تمام شکایات کو بغور سنا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جلد وہ ایک اجلاس بلائیں گے "جس میں خیبر پختونخوا ہائی ویز اتھارٹی کے حکام، دوسرے متعلقہ محکموں کے افسروں اور زمینوں کے مالکان کو بلایا جائے گا اور ان کے تحفظات دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی"۔

زمین کی ملکیت پر تنازعات

ساحل خان سوات کے مقامی زعما پر مشتمل ایک عوامی جرگے کے ترجمان ہیں۔ ایکسپریس وے کے لیے حصولِ اراضی سے جڑے ایک اور خدشے کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب حکومت لوگوں کو ان سے حاصل کردہ زمینوں کی قیمت ادا کرے گی تو ان کی ملکیت سے متعلق کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "بیشتر مقامی لوگوں نے وراثت میں ملنے والی زمینیں تقسیم تو کر لی ہیں لیکن ان ملکیت ابھی بھی خاندان کے کسی ایک شخص کے پاس ہے"۔ وہ خود ایکسپریس وے کے راستے میں آنے والی ایسی زمین کے مالک ہیں جو خاندانی تقسیم کے نتیجے میں ان کے رشتہ داروں کو مل چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گلگت بلتستان میں بجلی گھروں کی تعمیر: اپنے حقوق تسلیم کرانے کے لیے دیہاتیوں کا کامیاب احتجاج۔

ماضی قریب میں سوات میں فوجی چھاؤنی کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے لی گئی زمین کا ذکر کرتے ہوئے ساحل خان کہتے ہیں کہ اس میں سے بہت سی زمین فوج کو محض اس لیے مفت مل گئی کیونکہ اس کے مالکان اس کی ملکیت اپنے نام منتقل نہیں کرا سکے تھے۔ لہٰذا وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایکسپریس وے کی زد میں آنے والی تمام زمینوں کا جائزہ لے کر ان کی ملکیت کے انتقال کو یقینی بنایا جائے تاکہ خاندانوں کے اندر اور حکومت اور مقامی لوگوں کے مابین دشمنیوں اور مقدمے بازیوں سے بچا جا سکے۔

ان خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے کونسل ممبر اور سوات میں کام کرنے والے وکیل شیر محمد خان کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایکسپریس وے کے متعلق پائے جانے والے تمام عوامی شکوک و شبہات اور شکایات دور نہیں کرتی تو یہ ایک متنازعہ منصوبہ رہے گا۔ ان کے مطابق "حکومت کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ منصوبے کے لیے حاصل کردہ زمین کے مالکان کو اس کی قیمت ادا کرے" بلکہ حصولِ اراضی کے قانون کے تحت وہ اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ ان زمینوں سے بے دخل ہونے والے لوگوں کی از سرِ نو بحالی کا بھی انتظام کرے۔ ان کے مطابق قانوناً "یہ بحالی ایسی زمین پر ہونی چاہیے جہاں وہ تمام سہولتیں موجود ہوں جو لوگوں سے لی گئی زمین پر انہیں دستیاب تھیں"۔

تاریخ اشاعت 18 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.