"پچھلے 27 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی گھر کے اخراجات پورے کرتے قرض میں ڈوب چکا ہوں۔ حالت یہ ہے کہ دکانداروں نے راشن دینا بند کردیا ہے اور اب تو نوبت فاقوں تک آگئی ہے۔ پچھلے سال میری اہلیہ بیمار ہوئیں تو مجھے اپنی زمین مجبوراً تین لاکھ میں بیچنا پڑی جس کی قیمت 15 لاکھ روپے سے زائد تھی۔"
یہ الفاظ تھے سوات کے گاؤں کوکارئی کے رہائشی شاہد اللہ کے جو آٹھ سال سے محکمہ صحت میں بطور ای پی آئی ٹیکنیشن کام کر رہے ہیں۔
شاہد اللہ کے دو چھوٹے بچے ہیں جن کے صرف ڈائیپروں کا ماہانہ خرچہ آٹھ ہزار روپے بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مہنگائی کے طوفان میں جب ہر کوئی تنگ ہو تو کچن، بجلی، پانی، گیس وغیرہ کے بلوں کے لیے ادھار لینا آسان نہیں ہوتا۔
"میں سات مختلف لوگوں سے چھ لاکھ 65 ہزار روپے قرض لے چکا ہوں اور مجھے کچھ معلوم نہیں کہ تنخواہ کب ملے گی تاکہ قرض خواہوں کو واپسی کی کوئی امید تو ہو۔ اب کسی اور سے اُدھار مانگنے کی ہمت بھی نہیں رہی۔"
صرف شاہد اللہ ہی نہیں ان سمیت خیبرپختونخوا میں انٹیگریٹیڈ ہیلتھ پراجیکٹ ( آئی ایچ پی /حفاظتی ٹیکہ جات) کے تمام ٹیکنیشنز ہی تنخواہوں سے محروم ہیں اور انہیں تنخواہ ملنے کی کوئی تاریخ بھی دی نہیں دی جا رہی۔
خیبر پختونخوا حکومت نے 2017ء میں آئی ایچ پی کے تحت 395 ٹیکنیشن بھرتی کیے تھے جنہیں شروع میں وقفے وقفے سے تنخواہیں دی جاتی رہیں مگر جون 2022ء سے اب تک ایک بھی تنخواہ نہیں دی گئی۔
ملک بھر کے ہسپتالوں میں معمول کے حفاظتی ٹیکوں (امیونائزیشن) کے لیے مراکز موجود ہیں جہاں حاملہ خواتین یا زچگی کے بعد زچہ و بچے کو ویکسین کی جاتی ہے۔
یہ کام ای پی آئی ٹیکنیشن سرانجام دیتے ہیں جس کے لیے انہیں فیلڈ میں بھی جانا پڑتا ہے یعنی گھر گھر جا کر بچوں و خواتین کی ویکسینیشن کی جاتی ہے یا قطرے پلائے جاتے ہیں۔
ای پی آئی (دی ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن ) مراکز پر مختلف بیماریوں سے تحفظ کے ٹیکے (ویکسین) لگائے جاتے ہیں جن میں پولیو، تشنج (ٹیٹنیس)، تپ دق (ٹی بی)، اسہال (ڈائریا)، خناق( ڈپتیھریا)، ہپٹائٹس بی، خسرہ (میزلز)، روبیلا (خسرہ کاذب)، گردن توڑ بخار (مینن جائٹس)، کالی کھانسی (پرٹوسس)، نمونیا اور ٹائیفائیڈ شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ای پی آئی 1976ء میں صرف دو اضلاع پشاور اور نوشہرہ سے شروع کیا گیا تھا۔ یہاں چیچک (سمال پاکس) کے خاتمے میں فوری کامیابی پر اسے 1978-79ء میں باضابطہ طور پر سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کر لیا گیا۔
یونیسف کی سالانہ رپورٹ 2023ء کے مطابق پاکستان میں 2018ء سے 2022ء تک بچوں کی حفاظتی ٹیکوں کی کوریج میں 66 فیصد سے 77 فیصد تک اضافہ ہوا۔ زیرو ڈوز (کوئی ویکسین نہ لینے والے) بچوں کی تعداد 2021ء میں تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار گھٹ گئی یعنی چھ لاکھ 10 ہزار 564 سے کم ہو کر 2022ء میں چار لاکھ 31 ہزار پر آ گئی۔
ای پی آئی کے مرکزی ڈائریکٹوریٹ کے مطابق 2018ء میں خیبر پختونخوا میں ایک سے پانچ سال تک کے بچوں کی ایمونائزیشن (مکمل)کوریج کی شرح 80 فیصد تھی۔ صوبے کے ایک ہزار 616 صحت مراکز میں قائم ایک ہزار47 سنٹرز پر ایک ہزار 520 ای پی آئی ورکرز کام کر رہے تھے۔
خیبرپختونخواہ حکومت اگرچہ انٹیگریٹڈ ہیلتھ پراجیکٹ (آئی پی ایچ) شروع کرنے کا کریڈٹ لیتی رہی ہے تاہم اس منصوبے کے آغاز سے ہی ابہام کا شکار تھی جس کا ذکر 'ہیلتھ پالیسی 2018ء' میں بھی کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تمام 25 اضلاع میں کم از کم ہیلتھ سروسز ڈلیوری کے لیے آئی پی ایچ کے تحت منصوبے تیار کیے گئے ہیں۔ ان میں ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں 23 مراکز کا قیام بھی شامل ہے جہاں غذائی قلت کا شکارمریضوں کونیوٹریشن سپلیمنٹس بھی دیے جائیں گے۔
اس دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 'لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام' ملک اور صوبے (کے پی کے) میں کامیاب رہا ہے تاہم حکومتی اقدام (یعنی آئی پی ایچ) کے پیش نظر یہ ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
"ایک اور اہم مسئلہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے کیڈرز کی بطور سرکاری ملازمین 'ریگولرائزیشن' ہے جس کی وجہ سے لاگت میں سالانہ بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم سروسز ڈلیوری پروگرام، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ای پی آئی کی الگ مخصوص نوعیت اور رپورٹنگ لائنیز ہیں۔ تاہم انٹیگریٹڈ ہیلتھ کے آغاز کے بعد یہ مبہم ہو گئے ہیں۔
اس ادراک کے باوجود بھی اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا گیا بلکہ اپنا کیس لڑنے کے لیے ای پی آئی ورکرز کو عدالت عالیہ سے رجوع کرنا پڑا۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے 2019ء میں رٹ پٹیشن نمبر 207 پر فیصلے میں ڈی جی ہیلتھ اور متعلقہ حکام کو ای پی آئی، ائی ایچ پی ورکرز کو سروسز ایکٹ 2018 کے تحت مستقل کرنے کا حکم دیا۔
محمد سلیمان، تورغر کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال جدبا میں ای پی آئی ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ بھی ان ورکرز میں شامل تھے جنہوں نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دوبارہ پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
"عدالت عالیہ میں حکومت کی یقین دہانی پر چیف جسٹس نے متعلقہ اہلکاروں کو چھ ماہ کے اندر ملازمت پر مستقل کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے 19 اکتوبر 2022ء کو رٹ نمٹا دی تھی تاہم اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔"
محمد سلیمان، الپوری ضلع شانگلہ کے رہائشی ہیں جو اپنے خاندان میں سرکاری ملازمت کرنے والے واحد فرد ہیں جبکہ باقی تمام مرد کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تورغر کے مشکل ترین علاقے میں ڈیوٹی کرتے ہیں جہاں اکثر آبادیاں پہاڑوں کے چوٹیوں پر ہیں اور قطرے پلانے سے انکار کی شرح (ریفیوزل ریٹ) بھی بہت زیادہ ہے۔
"مجھے آخری بار تنخواہ 2022ء میں ایک سال کے وقفے کے بعد ملی تھی لیکن اب گھر کے حالات بہت ہی ابتر ہو چکے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں بھی رشتہ داروں کے ساتھ کوئلے کی کانوں میں مزدوری کے لیے چلا جاؤں۔"
پشاور کے حمید علی ای پی آئی ورکرز یونیں کے صوبائی صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تنخواہوں کی بندش سےغریب کارکنوں کی زندگیاں برباد ہو گئی ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے سال (جون2023ء) ان کے ساتھی عطاء الرحمن نے دلبرداشتہ ہو کر ہنگو میں خودکشی کرلی تھی۔
"متوفی عطاء الرحمن نے 42 ماہ تنخواہ نہ ملنے پر نہ صرف ہمارے واٹس ایپ گروپ میں کئی بار اپنے مالی حالات بتائے تھے بلکہ اپنے افسروں کے سامنے بھی اس کا اظہار کیا تھا۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہوئی اور انہوں نے اپنی جان دے دی۔"
یہ بھی پڑھیں
کام پورا مگر اجرت صرف 10 فیصد: خیبرپختونخوا میں لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر پر نالاں
وہ کہتے ہیں کہ تمام 395 ویکسنیٹرز کی ذہنی کیفیت اس وقت ایک جیسی ہے جبکہ حکومت اور ان کا محکمہ ابھی تک پشاور ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل کرتا بھی نظر نہیں آ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ حکام کو درجنوں درخواستیں دے چکے ہیں اور اب تو کئی ماہ سے گھر گھر قطرے پلانے اور ویکسینیش کا بائیکاٹ کر رکھا ہے مگر ڈسٹرکٹ کوارڈینٹرز غریب ورکرز کو دھمکا رہے ہیں جس سے وہ سب ڈپریشن کا شکار ہیں۔
"تاہم ای پی آئی ورکرز بچوں کو حفاظتی ٹیکے (ویکسین) لگا رہے ہیں اور انسداد پولیو مہم میں ڈیوٹی بھی دیتے ہیں۔"
"ہمارے کئی دوست دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں مگر محکمے کے کسی ذمہ داروں کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ 12 ویں سکیل کے ان غریب کارکنوں کو خود کشیوں سے ہی بچا لیں۔"
لوک سجاگ نے اس معاملے پر مؤقف لینے کے لیے ای پی آئی خیبرپختونخوا کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر عارف خان سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ موقف نہیں دے سکے۔
تاہم شانگلہ کے ضلعی کوارڈینٹر محمد حسین کہتے ہیں کہ آئی ایچ پی کے تحت کام کرنے والوں کو فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے دو سال سے تنخواہ نہیں ملی جس کے لیے انہوں نے بار بار صوبائی ذمہ داروں کا آگاہ کیا ہے لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ ای پی آئی ورکرز کے آوٹ ریچ بائیکاٹ (فیلڈ میں نہ جانے) کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کی کمپین متاثر ہو رہی ہے۔
تاریخ اشاعت 21 اگست 2024