خیرپور میں 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل سیلاب میں بہہ گئی، کسان زندگی کی بحالی کے لیے پریشان

postImg

آصف ریاض

postImg

خیرپور میں 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل سیلاب میں بہہ گئی، کسان زندگی کی بحالی کے لیے پریشان

آصف ریاض

پچاس سالہ حق نواز ننگریجو آٹھ ایکڑ زرخیز زرعی زمین کے مالک ہونے کے باوجود اپنے کنبے کے لئے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے ضلع خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی میں کوٹ اللہ ڈِوایو  نامی بستی سے ہے جو اِس سال اگست میں آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

سیلاب نے حق نواز کی آٹھ ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل کو تباہ کر دیا ہے جس کی چنائی ہونے والی تھی۔ اس طرح انہیں تقریباً پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اب گندم کی فصل کی کاشت کا وقت بھی آ گیا ہے لیکن وہ بوائی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی زمین پر تقریباً ایک فٹ سیلابی پانی کھڑا ہے۔

حق نواز 23 نومبر کی صبح معمول کے مطابق اپنےکھیت کو دیکھنے آئے ہیں لیکن اس وقت ان کے چہرے پر پریشانی اور آنکھوں میں اداسی عیاں ہے۔ اس پریشانی اور اداسی کی وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ گندم کی فصل کاشت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والا سال سات افراد پر مشتمل ان کے خاندان کے لئے معاشی لحاظ سے اور خوراک کے اعتبار سے بہت ہی برا ثابت ہونے والا ہے۔

اسی خدشے نے حق نواز کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا جو ان کے مطابق شاید عام حالات میں لینے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی دو کم عمر بیٹیوں اور ایک بیٹے کو پڑھائی سے اٹھا لیا ہے جو ایک نجی سکول میں پڑھنے جاتے تھے جبکہ ایک بیٹے کو قریبی قصبے کنمب میں موٹر سائیکلوں کی ایک ورکشاپ پر کام سیکھنے کے لئے لگا دیا ہے جہاں سے انہیں دو سو روپے روزانہ کی اجرت ملتی ہے اور وہ خود اور ان کا ایک جواں سالہ بیٹا روزانہ صبح کنمب قصبے کے ایک چوراہے پر مزدوروں کی لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ کوئی ضرورت مند انہیں دیہاڑی کے لئے لے جائے اور وہ مزدوری سے اپنے گھر کا خرچ چلا سکیں۔

سیلاب میں حق نواز کا دو کمروں پر مشتمل گھر بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ حق نواز جس بستی میں رہتے ہیں وہ قصبہ ننگریچہ کے نواح میں آٹھ گھرانوں پر مشتمل ہے جو تمام کے تمام حق نواز کے رشتہ دار ہیں۔ یہ بستی چاروں اطراف سے پانی میں گھری ہوئی ہے۔ اس کو دوسرے علاقوں سے ملانے والی چھوٹی لیکن پکی سڑک بھی ٹوٹ چکی ہے اور اس کے اوپر سے پانی گزر رہا ہے۔

اس بستی کے تمام گھر جزوی یا مکمل طور پر گر چکے ہیں اور دور سے دیکھنے پر یہ تباہ شدہ بستیوں جیسا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہیں دو کمروں پر مشتمل تباہ حال گھر کے ملبے پر حق نواز کے 80 سالہ ماموں میر محمد لاٹھی کے سہارے کھڑے ہیں۔

<p>خیرپور کے تقریباً 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔<br></p>

خیرپور کے تقریباً 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

میر محمد کے چار بیٹوں اور اُن کی اولاد سمیت 20 رکنی کنبے کے پاس اب سرد راتیں گزارنے کے لیے ایک ہی کمرہ بچا ہے۔ میر محمد کے پڑوس میں حق نواز کے چھوٹے بھائی 45 سالہ غلام شبیر ایک چھوٹی سی کوٹھری میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور سیلاب کے بعد اس گھر میں سوائے اس کوٹھری کے اور کوئی چیز سلامت نہیں ہے۔

بیرونی دیواریں پانی بہا کر لے گیا تو غلام شبیر اور ان کی بیوی سردی سے بچنے کے لئے جو لحاف اوڑھتے تھے وہ بھی بہہ گئے ہیں اور تو اور ان کے گھر میں مٹی کے بھڑولہ جس میں سال بھر کے لیے گندم ذخیرہ کی ہوئی تھی وہ بھی خراب ہو گئی ہے۔ دو افراد پر مشتمل اس خاندان کا گزر بسر اب خیرات اور صدقات پر چل رہا ہے۔

اس تباہ حال بستی کی ملکیتی زرعی زمینیں 80 ایکڑ ہیں جن میں حق نواز کے آٹھ ایکڑ کے علاوہ 50 ایکڑ زمین ان کے چھوٹے ماموں فقیر محمد کے پاس ہے۔ فقیر محمد کے گھر کا صرف ایک ہی کمرہ گرا ہے جو وہ مویشیوں کے باندھنے کے لئے استعمال کرتے تھے لیکن پچاس ایکڑ پر لگی ان کی تمام کی تمام کپاس کی فصل صرف ایک چنائی کے بعد سیلاب کی نظر ہو گئی۔ وہ اب صرف دس ایکڑ رقبے پر جہاں سے پانی نکل چکا ہے اس میں گندم کاشت کر پائے ہیں جبکہ باقی 40 ایکڑ میں اب بھی پانی کھڑا ہے۔

اگرچہ سرکاری محکموں اس علاقے میں زراعت اور لوگوں کی املاک کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کے لئے متعدد سروے کیے ہیں لیکن متاثرین کے لئے کسی طرح کے امدادی پیکیج کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اس بستی کے بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والے ایام ان کے لئے اور بھی مشکل ثابت ہونے والے ہیں کیونکہ سیلابی پانی کھڑا ہونےکے باعث زیرِ کاشت رقبہ کم ہو گیا ہے جس سے آئندہ سال گندم اور آٹے کا بحران نا صرف انہیں بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

خیر پور صوبہ سندھ میں گندم اور کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے تیسرا بڑا ضلع ہے اور ہر سال صوبے بھر میں ہونے والی ان دونوں فصلوں کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ تقریباً 13 فیصد تک رہتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب میں خیر پور کے تین لاکھ 84 ہزار ایکڑ زرعی رقبے میں سے تین لاکھ 56 ہزار ایکڑ مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سندھ میں سیلاب کے متاثرین کی شکایات: 'حکومت نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اور ہمیں لاوارث چھوڑ دیا ہے'۔

اس ضلع میں صوبائی محکمہ زراعت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر مشتاق احمد سومرو کے مطابق اگست میں آنے والے سیلاب سے نارا کے علاوہ باقی تمام سات تحصیلوں میں کپاس کی فصل کو نقصان ہوا ہے۔ ان کے بقول سیلاب میں خیرپور کے تقریباً 90 فیصد رقبے پر کپاس کی فصل مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ رواں سال ان کے محکمے کو تین لاکھ نو ہزار 850 ایکڑ رقبے پر گندم اگانے کا ہدف ملا ہے لیکن ’’ہم اس میں تقریباً 55 فیصد ہدف ہی حاصل کر پائیں گے۔‘‘ تحصیل کوٹ ڈیجی اور ٹھری میرواہ میں زیادہ تر زمینوں میں پانی اب بھی کھڑا اس لئے وہاں بہت کم گندم کاشت ہو گی لیکن اس کے متبادل طور پر وہ کچے کے علاقے میں کسانوں کو زیادہ سے زیادہ گندم لگانے کی طرف راغب کر رہے ہیں تاکہ ہدف کے قریب پہنچا جا سکے۔

تاریخ اشاعت 25 نومبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.