قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

postImg

افضل انصاری

postImg

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

افضل انصاری

قصور شہر میں داخل ہوں تو آپ کو جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہ نہ تو بلھے شاہ اور نہ ہی نورجہاں کا "قصور" ہے۔ جن کا قصور ہے وہ آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آتے ہیں۔

لاہور کے جنوب میں واقع پنجاب کا 16واں اور پاکستان کا 24 بڑا ضلع قصور روزانہ کی بنیاد پر تقریباً چار ہزار 200 ٹن سالڈ ویسٹ پیدا کرتا ہے جس میں ری سائیکل ایبل اور آرگینک کچرہ دونوں شامل ہے۔

ضلع کی آبادی 40 لاکھ  سے زائد ہے یہاں سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک بھی سرکاری ڈمپنگ سائٹ موجود نہیں ہے۔1947ء سے لے کر آج تک میونسپل کمیٹیاں سو سے زائد مقامات کو ڈمپنگ سائٹ کے طور پر استعمال کر چکی ہیں۔

جب ایک لینڈ فل اپنی گنجائش کو پہنچ جاتی ہے تو میونسپل کمیٹی کے اہلکار نئی جگہ کی تلاش کر لیتے ہیں۔ اس طرح منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ضلع عنقریب کچرہ کنڈی میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

شہری آبادیوں کے قریب کوڑے کرکٹ کے پہاڑ جیسے ڈھیر انسانی زندگی اور صحت کے ساتھ ساتھ حیوانی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ زیر زمین پانی کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔

قصور کی چار تحصیلوں میں قصور، کوٹ رادھا کشن ، چونیاں اور پتوکی شامل ہیں۔ تحصیل قصور میں چار میونسپل کمیٹیاں ، کوٹ رادھا کشن میں ایک میونسپل کمیٹی، چونیاں میں چار جبکہ پتوکی میں دو میونسپل کمیٹیاں ہیں۔

انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (ای پی ڈی) کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً پچاس ہزار ٹن سالڈ ویسٹ یومیہ پیدا ہوتا ہے جس کا نو فیصد قصور پیدا کر رہا ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق پنجاب میں صرف سات سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ان میں قصور شامل نہیں ہے۔

سالڈ ویسٹ سے متعلقہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹی کی بے حسی اور سیاسی شخصیات کی خاموشی ایک عام شہری کی پریشانی کا باعث ہے۔

حالیہ ہونے والے عام  انتخابات میں کسی بھی پارٹی یا آزاد امیدوار کے سیاسی منشور، تقریر یا سوشل میڈیا کمپین میں سالڈ ویسٹ سائٹ بنانے، اسے شہری آبادی سے دور لے جانے یا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ذکر تک نہیں تھا۔

مقامی تاجر محمد شہباز کا کہنا ہے کہ آبادی میں تیز رفتاری سے اضافے سے جہاں سالڈ ویسٹ زیادہ مقدار میں پیدا ہو رہا ہے وہاں رہائشی آبادی کے پھیلاؤ کے سبب سکڑتی زمین ڈمپنگ سائیٹ کی فراہمی کو مزید مشکل میں ڈال رہی ہے۔

پنجاب حکومت نے یکم مارچ سے 31 مارچ 2024ء "صاف ستھرا پنجاب" کے نام سے ایک مہم چلائی ہے۔

محکمہ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے تمام مقامی حکومتوں اور ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کو مراسلے جاری کیے گئے۔ اس مہم کے فوکل پرسن ڈی جی لوکل گورنمنٹ تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صاف ستھرا پنجاب مہم کے تحت کھلی جگہوں سے کوڑے کے ڈھیر مکمل طور پر ختم کر دیئے جائیں گے۔

"سبزی منڈیوں، مارکیٹوں، بس ٹرمینلز اور قبرستانوں کو کوڑا کرکٹ سے پاک کیا جائے گا۔ یونین کونسل کی سطح پر آگاہی کیمپ لگائے جائیں گے۔گھر گھر جا کر لوگوں کو صفائی سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ سکولوں اور کالجوں میں صفائی سے آگاہی کے لیے لیکچرز کا اہتمام کیا جائے گا۔"

مگر قصور میں یہ مہم فوٹو سیشن اور ہینڈ آوٹ تک محدود رہی۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر موسیٰ طاہر مہم کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ ضلع بھر کی تمام میونسپل کمیٹیوں کے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ مہم کے بہتر نتائج کے لیے کافی وقت اور وسائل درکار ہیں۔

"رمضان نگہبان پیکج صاف ستھرا پنجاب کی تکمیل کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھا۔ سارے فنڈز وہاں خرچ ہو گئے۔ وسائل ہوں تو ایک ماہ میں پورا شہر صاف ہوسکتا ہے۔"

میونسپل کمیٹی کے ایک اہلکار صابر علی کے مطابق شہر کی صفائی اور کچرہ اٹھانے کا کام روائیتی طور پر تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں جھاڑو کے ساتھ گلی محلہ کی صفائی کر کے کوڑا کرکٹ سڑک کے کنارے عارضی جگہ پر جمع کر دیا جاتا ہے۔

دوسرے مرحلہ میں کچرہ اس عارضی مقام سے ٹریکٹر ٹرالی کی مدد سے اٹھایا جاتا ہے۔

تیسرے اور آخری مرحلہ میں اس کچرے کو آبادی سے دور کسی کھلی جگہ پر پھنک دیا جاتا ہے تاکہ شہریوں کو صاف اور غیر آلودہ ماحول فراہم کیا جا سکے۔

ساجدہ بی بی، آسیہ بی بی اور طاہرہ پروین نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے  کہا کہ  کمیٹی کا عملہ تینوں مراحل میں ناکام ہے۔

"نہ تو گلی محلوں کی صفائی کی جاتی ہے اور نہ ہی کوڑا کرکٹ وقت پر اٹھایا جاتا ہے۔ یہ کوڑا دوبارہ انہیں گلیوں بازاروں میں پھیل جاتا ہے۔ تمام سالڈ ویسٹ، شہری آبادی کے قریب ہی اکھٹا کیا جاتا۔"

شہری علی رضا کا کہنا ہے کہ میونسپل کمیٹی کیپٹن نسیم حیات روڈ پر کئی سالوں تک شہر کا سالڈ ویسٹ جمح کرتی رہی آج اس کوڑے کے ڈھیر پر کئی گھر بن چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی کی مشہور کچرہ کنڈیوں میں بلدیہ چوک بلمقابل سٹی تھانہ، بنگلہ کمبوواں، فیروز پور روڈ پر بھلو سٹاپ، شیخ بھاگو اور دولے والا کے علاقے شامل ہیں۔

مقامی میونسپل کمیٹی کے چیف سینیٹری انسپکٹر فیصل جمیل نے سجاگ کو بتایا کہ شہر قصور کی میونسپل کمیٹی کی حدود میں 230 ٹن کچرہ پیدا ہوتا ہے جبکہ عملہ صرف 200 ٹن کچرہ اٹھا پاتا ہے اور باقی کا کچرہ شہری آبادی میں پڑا رہتا ہے۔ وہ ماضی اور انسانی وسائل کی کمی کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ان کے مطابق ضلع بھر کی کسی میونسپل کمیٹی کے پاس سالڈ ویسٹ کا گزشتہ سالوں کا ڈیٹا موجود نہیں ہے جس سے انسانی آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کے مطابق سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی مناسب حکمت عملی تیار کی جا سکے۔

"اندھیرے میں تیر چلانے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آج تک کوئی میونسپل کمیٹی اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ سالڈ ویسٹ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے مطابق ڈمپنگ سائیٹ کے لیے کتنی جگہ درکار ہے؟" 

میونسپل کمیٹی کے ایک اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ حال ہی میں بائی پاس پر ایک پرائیویٹ جگہ پر لینڈ فل کی گئی جو قریبی آبادی کے لیے وبال جان بن گئی۔ لوگوں نے  احتجاج کیا تو ضلعی انتظامیہ نے ٹینری ویسٹ ڈمپنگ سائٹ کو ہی سالڈ ویسٹ سائٹ میں تبدیل کر دیا۔

ایک اور میونسپل کمیٹی کے اہلکار نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کمیٹی کے عملے کو کبھی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی تربیت نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ  مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔

"تربیت نہ دینے کا ایک اور بڑا 'فائدہ' یہ ہے کہ عملہ صفائی کو کبھی معلوم ہی نہیں ہوا کہ صفائی کے کام کے دوران ضروری حفاظتی آلات اور صحت سے متعلق چیک اپ وغیرہ کی سہولت ان کا بنیادی حق ہے۔"

یونین کونسل کے ایک عوامی نمائندے محمد نعیم بھٹی کا کہنا ہے کہ میونسپل کمیٹی کے اخراجات اور مشینری کی حالت دیکھیں تو  اس میں بدعنوانی نظر آتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک مؤثر اور فنکشنل شکایت سیل کا قیام، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بہتر بنانے میں اہم کردار ادا  کرسکتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تحصیل کوٹ رادھا کشن میں میں ایک ڈمپنگ سائٹ  منظور کی گئی تھی مگر اس کے ایک بڑا حصہ ریسکیو 1122 کو دے دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ریسکیو عملہ کچرے کے ایک پہاڑ کے سائے میں کام کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کیا قصور کے ٹینریز مالکان سے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ چلانے کی توقع کی جا سکتی ہے؟

پتوکی کے علاقے بھائی پھیرو سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد رمضان پاکستان کسان بورڈ کے انفارمیشن سیکرٹری اور سماجی شخصیت ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سالڈ ویسٹ سائیٹ کا نہ ہونا سیاسی شخصیات کی عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے لیکن تمام ملبہ بیورو کریسی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پتوکی میں 80ء کی دہائی میں سالڈ ویسٹ اکٹھا کرنے کے لیے شہری آبادی سے دور تقریباً 50 ایکڑ کے لگ بھگ جگہ مختص تھی جس پر آہستہ آہستہ سرکار نے عمارتیں بنا دیں اور کچھ زمین پر قبضہ ہو گیا۔

"پتوکی میں اس وقت کئی جگہیں سالڈ ویسٹ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ ایک سائٹ  مقامی قبرستان کے عقب میں ہے۔"

سابق تحصیل ناظم آغا نوید ہاشم رضوی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے اپنے دور میں سالڈ ویسٹ سے کھاد بنانے کے پراجیکٹ پر کام کرنا چاہا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

اے ڈی سی آر امید ظاہر کرتے ہیں  کہ مشینری کی مرمت کا کام اگلے چند روز میں مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ جلد قصور سے چھانٹی کیا ہوا سالڈ ویسٹ لے کر ری سائیکل کرے گی۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر محمد طلحہ کا کہنا ہے کہ سالڈ ویسٹ سائٹ کا شہری آبادیوں کے قریب ہونا متعدد صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پتوکی کے علاقہ پھولنگر میں تین بچوں کی موت واقع ہوئی اور چھ بچوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ان بچوں کا تعلق خانہ بدوش خاندان سے تھا جو کوڑا کرکٹ اکٹھا کر تے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب سالڈ ویسٹ سائٹس آبادی کے قریب ہوں تو سانس اور جلد کی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں جس کا شکار زیادہ تر بچے اور بوڑھے لوگ ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بے ترتیب کچرہ کنڈیاں آوارہ کتوں کی آماجگاہ ہوتی ہیں جو انفیکشن پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 16 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد افضل انصاری کا تعلق پنجاب کے تاریخی ضلع قصور سے ہے۔ وہ گزشتہ 18 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.