کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔

postImg

جنید علی

postImg

کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔

جنید علی

شبیر احمد یرقان اور تَپ دِق میں مبتلا ہیں لیکن ان کے پاس اپنا علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں کیونکہ محنت مزدوری کر کے وہ روزانہ جو کچھ کماتے ہیں اس میں وہ مشکل سے اپنے خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہی کر پاتے ہیں۔ 

محض چند سال پہلے وہ ایک خوش حال زمین دار تھے اور اپنی سو ایکڑ سے زیادہ زرعی زمین پر گندم، چاول، گنا اور سبزیاں کاشت کر کے ہر سال لاکھوں روپے کما رہے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے کے باعث ان کی اراضی ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے" اس لیے وہ ایک مزدور کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ 

بالائی سندھ کے شہر جیکب آباد سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب واقع یونین کونسل احمدپور کے رہنے والے 38 سالہ شبیر احمد اپنی معاشی بدحالی کا ذمہ دار صوبائی محکمہ آب پاشی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس "محکمے کی بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو صوبہ سندھ کے کئی علاقے کے لوگ نہری پانی کو ترستے رہتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے علاقے میں ہر سال اتنا نہری پانی جمع ہو جاتا ہے کہ ہماری زمینیں اس میں ڈوب جاتی ہیں"۔ 

ان کے مطابق اس مسئلے کی ابتدا 2010 میں دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب سے ہوئی جب جیکب آباد کی مشرقی تحصیل ٹُھل کے کئی دیہات اس لیے پانی میں ڈوب گئے کہ اُس علاقے سے گزرنے والی ایک سڑک نے سیلابی ریلے کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ "سیلاب کے ختم ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اس سڑک کے نیچے آٹھ بڑے بڑے پائپ بچھا دیے تاکہ آئندہ سیلاب کا پانی کسی رکاوٹ کے بغیر ان میں سے گزر کر اس کے دوسری جانب چلا جائے"۔ 

لیکن پانی کی یہ گزر گاہ جلد ہی یونین کونسل احمدپور کے لیے عذاب بن گئی۔ 

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شبیر احمد کا کہنا ہے کہ "دریائے سندھ پر بنے گدو بیراج سے نکلنے والی نہروں کا پانی متعدد شاخوں کے ذریعے ضلع جیکب آباد کے مختلف حصوں کو سیراب کرتا ہے۔ ہر سال اگست-ستمبر میں ان شاخوں میں سال کے باقی مہینوں کی نسبت زیادہ پانی دستیاب ہوتا ہے کیونکہ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ان دو مہینوں میں دریا کا بہاؤ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔ چونکہ بعض اوقات اور بعض مقامات پر ان شاخوں میں بہنے والا پانی مقامی زمین داروں کی آب پاشی کی ضروریات سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ ان شاخوں کے کھلے ہوئے آخری سروں سے نکل کر یونین کونسل احمدپور جیسے نشیبی علاقوں کی طرف بہنے لگتا ہے"۔ 

شبیر احمد کہتے ہیں کہ محکمہ آب پاشی اس مسئلے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی روک سکتا ہے اگر اس کے اہل کار ہر سال یہ بات یقینی بنا لیں کہ جن چار بڑی شاخوں میں اضافی پانی آ رہا ہے ان کے آخری سرے اچھی طرح بند ہیں۔ "لیکن ان کے ایسا نہ کرنے سے ان سے نکلنے والا پانی ایک مقامی سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے"۔ 

2014 میں جب ایسا ہوا تو، ان کے مطابق، تحصیل ٹُھل کے خیر محمد بروہی، آڑی کاپ، رحمت اللہ کھوسہ، اسلم ابڑو، اور بشیر احمد کھوسہ نامی دیہات کے لوگوں نے اس سیلاب سے بچنے کے لیے اس کے راستے میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس کے نتیجے میں مذکورہ بالا سڑک کے نیچے بچھے پائپوں کے راستے "اس کے پانی نے یونین کونسل احمدپور کا رخ کر لیا" جہاں 30 ہزار ایکڑ زرعی زمین اگلے آٹھ مہینے اس میں ڈوبی رہی۔ 

ایک 45 سالہ مقامی زمین دار امتیاز حسین شاہ کہتے ہیں کہ پچھلے آٹھ سال سے ہر اگست-ستمبر میں یہی ہوتا ہے کہ نہروں سے نکلنے والا پانی بالآخر یونین کونسل احمدپور کی زمینوں میں آ کر جمع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال وہ اپنی 85 ایکڑ اراضی کاشت ہی نہیں کر پاتے۔

نتیجتاً وہ اپنے گاؤں میں چھوٹی سی دکان کھول کر سرسوں کے تیل جیسی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے خراب مالی حالات کی وجہ سے ان کے دو بیٹوں نے، جن کی عمریں 20 سال اور 14 سال ہیں، اپنی "تعلیم ادھوری چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کر دی ہے"۔  

محکمہ آبپاشی بمقابلہ یونین کونسل

احمد پور یونین کونسل میں رہنے والے لوگوں نے کئی مرتبہ ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، سندھ حکومت اور وزیراعظم پاکستان کو تحریری درخواستیں بھیج کر مطالبہ کیا ہے کہ ان کی زمینوں کو اس سالانہ نہری سیلاب سے بچایا جائے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ تاحال اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں کیا گیا۔ 
شبیر احمد کا خیال ہے کہ محکمہ آب پاشی کو حل کی تلاش میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ یہاں تک کہ "اس کے اہل کار یہ سننے کو بھی تیار نہیں کہ شاخوں کے کھلے ہوئے آخری سرے بند کر دینے سے ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا"۔ اگرچہ، ان کے مطابق، "اس حل پر لاکھوں کروڑوں روپے بھی خرچ نہیں ہو گے لیکن اس کے باوجود محکمہ ایسا نہیں کر رہا"۔ 
دوسری طرف جیکب آباد میں متعین محکمہ آب پاشی کے اعلیٰ ترین اہل کار سب ڈویژنل آفیسر مختار شیخ کہتے ہیں کہ یہ ٹوٹے ہوئے سِرے ان کی حدودِ کار سے باہر واقع ہیں اس لیے وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ان کے مطابق "ان کا خیال رکھنا تحصیل ٹُھل میں موجود محکمہ آب پاشی کے ذیلی دفتر کا کام ہے"۔

لیکن اُس دفتر میں تعینات اہل کار بھی ان کی مرمت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس کے برعکس وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک لاحاصل کام ہے کیونکہ، ان کے مطابق، "کئی مقامی زمین دار ہر سال خود ہی ان شاخوں کو توڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی زمینوں کو ان میں آنے والے اضافی پانی سے بچا سکیں"۔ 

شبیر احمد تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ زمین دار ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کی یونین کونسل کے باسیوں کی "آئے روز لڑائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں"۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان کی یونین کونسل کے کئی زمین داروں نے خود بھی پانی کا رخ بدلنے کے لیے "آٹھ فٹ تک اونچے بند باندھ رکھے ہیں"۔

لیکن ان کی یہ ترکیب ہر سال ناکام رہتی ہے اور "سیلابی پانی ان بندوں کو توڑ کر ان کی زمینوں میں داخل ہو جاتا ہے"۔ 

حکومتِ سندھ نے بھی 2017 میں ان زمینوں کو بیگاری نہر سے نکلنے والی دو شاخوں، کٹہ اور دل مراد، میں آنے والے اضافی پانی سے بچانے کے لیے کچھ حفاظتی بند بنائے تھے۔ لیکن شبیر احمد کے مطابق، "وہ بند اُسی سال پانی کے دباؤ کی وجہ سے ٹوٹ گئے تھے"۔ 

ان ناکام تجربات کے پیش نظر مختار شیخ کہتے ہیں کہ بند باندھنا اس مسئلے کا حل ہی نہیں ہے کیونکہ، ان کے مطابق، "اگر اس طرح یونین کونسل احمدپور کی زمین کو بچا بھی لیا جائے تو یہ پانی کسی اور نشیبی زرعی زمین کا رخ کر لے گا"۔ اس لیے ان کی نظر میں اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ایک نالہ بنا کر "اس پانی کو واپس کسی قریبی نہر میں ڈالا جائے"۔

جیکب آباد سے ہی تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اعجاز جاکھرانی کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت بھی یہی سوچ رہی ہے کہ ایک آبی گزرگاہ بنا کر "اس پانی کو بیگاری نہر کی سم شاخ میں ڈالا جائے"۔ تاہم ابھی تک اس منصوبے پر کوئی عملی کام شروع نہیں ہوا۔ 

اس کے بجائے ضلعی انتظامیہ ہر سال یونین کونسل احمدپور میں جمع ہونے والے پانی کو فائر بریگیڈ کے ٹرکوں کے ذریعے ان علاقوں میں لے جاتی ہے جہاں اس کی قلت ہے۔ لیکن مختار شیخ کے مطابق اس طریقے سے پانی کی بہت ہی محدود مقدار زرعی زمینوں سے نکالی جا سکتی ہے۔

امتیاز حسین شاہ بھی کہتے ہیں کہ ''ہماری زمینوں میں جمع ہونے والا پانی اتنا زیادہ ہے کہ اسے نکالنے کے لیے درکار مشینری اور مالی وسائل ضلعی انتظامیہ کے پاس موجود ہی نہیں"۔

تاریخ اشاعت 23 اگست 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جنید علی کا تعلق سندھ کے ضلع جیکب آباد سے ہے میں 2013 سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سرکاری اداروں میں کرپشن کے خلاف اور کرنٹ ایشوز پر کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.