تیس سالہ محمد اشفاق ہڑپہ کے قدیم قصبے کے قریب ایک گاؤں میں آٹھ ایکڑ زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں۔ اس میں سے آدھی زمین ان کی ملکیت ہے جبکہ آدھی انہوں نے 53000 روپے فی ایکڑ کے عوض سالانہ لیز پر لے رکھی ہے۔
اس سال وہ صرف ایک ایکڑ گندم کاشت کر رہے ہیں جبکہ باقی زمین پر وہ آلو اور مکئی جیسی دوسری فصلیں بوئیں گے۔ پچھلے دو سال بھی انہوں نے اتنی ہی گندم کاشت کی تھی حالانکہ اس سے پہلے یہی فصل وہ پانچ ایکٹر رقبے پر لگا رہے تھے۔
ان کے بقول اس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ گندم پر ہونے والے اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں جبکہ اس سے ہونے والی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔
سجاگ سے بات کرتے ہوئے محمد اشفاق کہتے ہیں کہ کم گندم کاشت کرنے کا فیصلہ پہلی بار انہوں نے مئی 2017 میں کیا جب انہیں اپنی گندم اس وقت کی سرکاری قیمت (1300 روپے فی چالیس کلو گرام) سے چار پانچ سو روپے کم پر فروخت کرنا پڑی۔ اُس سے پچھلے سال بھرپور فصل پیدا ہوئی تھی اس لئے مارکیٹ میں گندم کی بہتات تھی جس کی وجہ سے حکومت کے خریداری مراکز ان جیسے کسانوں سے فصل خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔
اگرچہ 2017 سے لے کر 2019 تک گندم کی مجموعی پیداوار اور اسکے زیرِ کاشت رقبے دونوں میں کمی آئی ہے اس کے باوجود حکومت نے اس کی سرکاری قیمت میں بھی محض برائے نام اضافہ کیا ہے حالانکہ کسانوں کو گندم کی کاشت کی ترغیب دینے کے لئے اس کی قیمت میں 'مناسب اضافہ' ناگزیر ہے۔
یہ کہنا ہے آل پاکستان کسان اتحاد کے رہنما محمد حسین کا جن تعلق چیچہ وطنی تحصیل کے ایک گاؤں سے ہے۔ وہ 80 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کرتے ہیں (ان میں سے 60 ایکڑ انہوں نے 50000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے سالانہ لیز پر لے رکھے ہیں)۔ تین سال پہلے وہ پچاس ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت کرتے تھے لیکن اب وہ صرف پانچ ایکڑ پر یہ فصل اگاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے اپنے ایک حالیہ فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے گندم کی سرکاری قیمت میں 200 روپے فی چالیس کلو گرام کا اضافہ بھی کر دیا تب بھی یہ فصل بہت سے کسانوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گی۔ 'گذشتہ برس کے مقابلے میں اس پر آنے والے اخراجات 20 سے 25 فیصد بڑھ گئے ہیں لیکن حکومت اس کی قیمت میں صرف ساڑھے بارہ فیصد اضافہ کرنے کا سوچ رہی ہے'۔
ان کا اشارہ 26 اکتوبر کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی طرف سے دی گئی منظوری سے ہے جس کے تحت وفاقی حکومت نے چالیس کلو گرام گندم کی سرکاری قیمتِ خرید 14 سو روپے سے بڑھا کر 16 سو روپے کرنے کا نوٹیفیکیشن اسی دن جاری کر دیا تھا۔
تاہم دو روز بعد ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں اس اضافے کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ ، کچھ نیوز رپورٹس کے مطابق، کئی وفاقی وزراء اس کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے خیال میں گندم کی قمیت بڑھنے سے نہ صرف آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ اس کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے جس کے باعث حکومت کی مقبولیت میں شدید کمی آ سکتی ہے۔
لیکن حکومت کو یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ کہیں کسان گندم کاشت کرنا چھوڑ ہی نہ دیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے اسی خطرے کے پیشِ نظر گندم کی بوائی شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی فی چالیس کلو گرام قیمت 2000 روپے مقرر کر دی ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے بھی آنے والے چند روز میں فصل کی قیمت میں مناسب اضافہ نہ کیا تو اس سال گندم کے زیرِ کاشت رقبے میں نمایاں کمی آ سکتی ہے جس سے نہ صرف اگلے سال آٹے کی قلت پیدا ہو سکتی ہے بلکہ اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
محمد حسین کہتے ہیں کہ فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے گندم پہلے ہی زیادہ تر ان علاقوں میں لگائی جا رہی ہے جہاں اس کی متبادل فصلیں پیدا نہیں ہو سکتیں جیسا کہ شمالی پنجاب میں پوٹھوہار کا علاقہ جہاں بارش کے علاوہ آبپاشی کا کوئی دوسرا انتظام موجود نہیں یا جنوبی اور جنوب مغربی پنجاب کے اضلاع جہاں موسمی حالات متبادل فصلوں کے لئے مناسب نہیں۔
ان کے مطابق لاہور کے ساتھ واقع ضلعے قصور سے لے کر ساڑھے تین سو کلو میٹر دور ملتان کے بعض حصوں تک اور فیصل آباد ڈویژن کے بیشتر علاقوں میں کسان اب گندم کے بجائے آلو اور مکئی لگانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان سے ہونے والی آمدن گندم سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
حقیقیت یہ ہے ان علاقوں میں اگر کسان گندم نہ بوئیں تو وہ اس اکیلی فصل کی جگہ آلو اور مکئی کی دو فصلیں لگا سکتے ہیں۔ محمد حسین کہتے ہیں کہ 'نومبر میں ہم گندم کی جگہ آلو لگائیں گے اور تین ماہ بعد اسی زمین میں مکئی کاشت کریں گے یوں چھ ماہ میں ان دونوں فصلوں سے ہم کم از کم دو لاکھ روپے فی ایکڑ منافع کمائیں گے'۔
اس کے بر عکس گندم چھ ماہ کی فصل ہے۔ محمد حسین کے حساب کے مطابق لیز کی زمین کاشت کرنے والے کسانوں کے لئے اس کی آمدن صرف پانچ ہزار روپے فی ایکڑ ہے جبکہ اپنی زمین کاشت کرنے والے لوگوں کے لئے بھی یہ آمدن پچیس ہزار روپے فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ لہٰذا وہ پوچھتے ہیں 'تو پھر ہم گندم کیوں لگائیں؟'۔
محمد اشفاق بھی محمد حسین سے اتفاق کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں گندم کے متبادل کے طور پر آلو، مٹر اور مکئی جیسی منافع بخش فصلیں کاشت کرنے کی سہولت موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی طرح کے کئی چھوٹے کسانوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ گندم صرف اتنی ہی کاشت کریں گے جو ان کے اپنے خاندان کی سالانہ ضروریات کے لئے کافی ہو۔ 'ہمارے علاقے میں کسانوں کا یہ نعرہ بہت مشہور ہو چکا ہے کہ 'اناج اتنا اگاؤ جتنا خود کھا لو' ۔ اس نعرے کے تحت ہم نے دہائیوں سے چلی آرہی گندم کاشت کرنے کی روایت ختم کر دی ہے'۔
ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں کے کسان عطاالرحمان اس رجحان کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کی کل ملکیتی زرعی زمین 1650 ایکڑ ہے جس کے پچاس فیصد حصے پر دو تین سال پہلے تک گندم کاشت کی جاتی تھی۔ 'لیکن پچھلے سال صرف 375 ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی'۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اب اگر گندم کی سرکاری قیمت بڑھا بھی دی جائے تو اس فصل کے زیرِ کاشت رقبے میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو گا۔ 'سرکاری قیمت بڑھنے سے شاید یہ رقبہ 425 ایکڑ ہو جائے لیکن اس میں اس سے زیادہ اضافے کی امید نہیں ہے کیونکہ ہمارے گاؤں کے کسانوں کو مکئی کی فصل سے کہیں زیادہ رقم کمانے کی عادت ہو چکی ہے'۔
ان کسانوں کا کہنا ہے کہ گندم کو دوبارہ ایک منافع بخش فصل بنانے کے لئےضروری ہے کہ اس کی قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس پر آنے والے اخراجات میں بھی کمی واقع ہو۔ محمد حسین کے بقول: 'کھادوں اور بیج کے ریٹ میں ہر سال 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پچھلے سال جب ہم نے گندم کاشت کی تو ڈی اے پی کھاد کی قیمت 3600 روپے فی بوری تھی جو اب بڑھ کر 4200 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یوریا کھاد کی بوری جو پچھلے سال 1600 روپے میں مل رہی تھی اس بار اس کی قیمت 1800 روپے سے 2000 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ایک ایکڑ گندم کا بیج جو پچھلے سال 2200 روپے میں دستیاب تھا اب پنجاب سیڈ کارپوریشن اسے 2800 روپے میں فروخت کر رہی ہے'۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان چیزوں کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں اس وقت تک محض فصل کی سرکاری قیمت بڑھانے سے کسانوں کو گندم کاشت کرنے کی مناسب ترغیب نہیں ملے گی۔
وہ علاقے جہاں گندم کے متبادل کے طور پر کوئی فصل کاشت نہیں ہو سکتی وہاں کے کسانوں کو بھی کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔
پوٹھوہاری خطے کے ضلعے چکوال سے تعلق رکھنے والے نبیل ڈھکو – جو صحافت کے ساتھ ساتھ کاشت کاری بھی کرتے ہیں – کہتے ہیں کہ پچھلے سال ان کے ضلع میں کل 297000 ایکٹر گندم کاشت کی گئی 'لیکن اس مرتبہ کسانوں کو بیج کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے'۔
حکومت کی طرف سے منظور شدہ اور حکومت کی طرف سے ہی فراہم کردہ یہ بیج ابھی تک بہت کم مقدار میں مہیا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے چکوال کے بہت سے کسان ابھی تک گندم کی کاشت شروع نہیں کر پائے حالانکہ فصل کی بوائی کا وقت تیزی سے گذر رہا ہے۔ 'اگر فصل کی بوائی میں مزید تاخیر ہوئی تو شاید اس کے زیرِ کاشت رقبہ کم ہو جائے'۔
گوجرانوالہ کے قصبے کامونکی سے تعلق رکھنے والے کسان محمد طفیل کو بھی خدشہ ہے کہ ان کے علاقے میں گندم کی بوائی یا تو تاخیر سے ہو گی (جس سے اس پر آنے والے اخراجات زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن اس کی پیداوار کم ہو جاتی ہے) اور یا پھر سِرے سے یہ فصل کاشت ہی نہیں ہو سکے گی کیونکہ جن زمینوں پر نومبر کی 15 تاریخ سے پہلے پہلے گندم کاشت ہو جانی چاہئے وہاں ابھی تک گنے کی فصل کھڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اگر چینی بنانے والی ملوں نے گنے کی کرشنگ میں تاخیر کر دی تو پھر گندم کی بر وقت بوائی کے لئے گنے کی فصل کھیتوں سے نہیں ہٹائی جا سکے گی'۔
اتنی گندم کون کھا جاتا ہے؟
اکنامک سروے آف پاکستان کے تازہ ترین اعدا و شمار کے مطابق گندم کی پچھلی فصل 19 کروڑ 97 لاکھ 22 ہزار 9 سو 24 ایکڑ زمین پر لگائی گئی جو پچھلے سال کی نسبت محض 1.7 فیصد زیادہ تھی (جبکہ اس سے پہلے 2016 سے لے کر اس فصل کے زیرِ کاشت رقبے میں مجموعی طور پر چھ فیصد کمی آ چکی تھی جس سے کسانوں کی کہی ہوئی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ پہلے سے کم رقبے پر گندم کاشت کر رہے ہیں)۔
اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے 2019 میں حکومت نے تخمینہ لگایا کہ اُس سال کاشت کی جانے والی گندم کی کل پیداوار دو کروڑ 70 لاکھ میٹرک ٹن ہو گی۔ خراب موسم کی وجہ سے بعد میں یہ تخمینہ کم کر کے دو کروڑ 56 لاکھ میٹرک ٹن کردیا گیا لیکن اپریل-مئی 2020 میں جب فصل بالآخر کٹ کر کسانوں کے گھر پہنچی تو اس کی حقیقی پیدوار دو کروڑ 49 لاکھ میٹرک ٹن تک ہی پہنچ سکی۔
اگر پاکستان میں گندم کے مجموعی سالانہ استعمال کو دیکھا جائے تو یہ پیداوار ملکی ضروریات سے کچھ ہی کم ہے۔ ایک امریکی ادارے کے جائزے کے مطابق پاکستان کو ایک سال میں 124 کلو گرام فی کس کے حساب سے لگ بھگ دو کروڑ 70 لاکھ میٹرک ٹن گندم چاہئے (اگرچہ کچھ دوسرے اندازوں کے مطابق گندم کا فی کس سالانہ استعمال 115 کلو گرام سے لے کر 120 کلو گرام تک ہے جس کا مطلب ہے کہ دو کروڑ 65 لاکھ میٹرک ٹن کے قریب گندم پاکستان کی ایک سال کی ضروریات کے لئے کافی ہونی چاہئے)۔
دوسرے لفظوں میں پچھلے سال گندم کی پیداوار کل ملکی ضرورت سے تقریباً سات فیصد کم رہی۔ لیکن دوسری طرف 31 جولائی 2019 اور 30 جون 2020 کے درمیان پڑنے والے 12 ماہ میں گندم اور گندم کے آٹے کی قیمتوں میں اس شرح سے کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران شہری علاقوں میں گندم کی قمیت میں 16.76 فیصد اور گندم کے آٹے کی قیمت میں 14.82 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ اسی عرصے میں دیہاتی علاقوں میں گندم اور گندم کے آٹے کی قیمتوں میں بالترتیب 21.88 فیصد اور 18.13 فیصد اضافہ ہوا جو حیران کن طور پر شہری علاقوں میں پائے جانے والے اضافے سے زیادہ ہے۔
اس اضافے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے 10 لاکھ میٹرک ٹن گندم مرغیوں کی خوراک بنانے والی فیکٹریوں کو فراہم کی جو اس سے پہلے مکئی استعمال کرتی تھیں۔ اس سے گندم کی دستیابی اور اس کے استعمال میں فرق تقریباً تین فیصد بڑھ گیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ 2018-19 کے مالی سال کے دوران حکومت نے چھ لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کر دی حالانکہ اس سال گندم کی مجموعی پیداوار محض دو کروڑ 43 لاکھ میٹرک ٹن تھی جو اُس سے پچھلے سال کی نسبت 1.6 فیصد کم تھی۔
جولائی 2019 میں اگرچہ گندم کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی لیکن پھر بھی اُس سال اکتوبر تک تقریباً 48000 ٹن گندم ملک سے باہر بھجوائی گئی جس سے 2020 کے اوائل میں ملکی منڈیوں میں گندم اور آٹے کی قلت ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر گئی۔
تیسری وجہ گندم اور آٹے کی افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں کو ہونے والی سمگلنگ ہے جس کی مقدار کا کوئی اندازہ موجود نہیں اگرچہ اس سمگلنگ میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب پاکستان میں گندم کی قیمت عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے کم ہوتی ہے۔ اس صورت میں سمگلروں کے لئے ملکی منڈیوں سے سستے داموں گندم خرید کر اسے دوسرے ملکوں میں مہنگے داموں فروخت کرنا ایک بہت منافع بخش کاروبار بن جاتا ہے۔
گندم پہلے یا آٹا؟
اِس سال کے شروع میں جب گندم کی فصل تیار ہوئی تو حکومت نے نِجی بیوپاریوں اور آٹے کی ملوں پر کسانوں سے براہ راست گندم خریدنے پر پابندی لگا دی کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ گندم کی نجی خریداری پر کسی بھی قسم کی روک ٹوک کے بغیر وہ سرکاری خریداری کا 82 لاکھ میٹرک ٹن کا ہدف پوری نہیں کر سکے گی ۔ تاہم اس پابندی کے باوجود حکومت اپنا ہدف حاصل نہ کر پائی اور محض 66 لاکھ میٹرک ٹن گندم ہی خرید سکی۔
پاکستان ایگریکلچر سائنٹسٹ فورم کے چیرمین حافظ وصی محمد خان کہتے ہیں کہ پچھلے مالی سال میں آٹے کی قلت کے پیشِ نظر 2020 میں گندم خریدتے ہوئے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار تھی۔ 'گندم حاصل کرنے کے لیے کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور ان پر مقدمات بھی درج کیے گئے جس سے مارکیٹ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ آنے والے دنوں میں گندم کی قیمت بہت بڑھنے والی ہے'۔
ان کے مطابق اس تاثر سے فائدہ اٹھانے کے لئے کئی ذخیرہ اندوزوں نے گندم سٹاک کرنی شروع کر دی اور کئی آٹا مل مالکان نے بھی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمت سے زیادہ پیسے دے کر چوری چھپے کسانوں سے گندم خرید کر ذخیرہ کر لی۔ 'جب حکومت کسانوں کو 40 کلو گرام کے 14 سو روپے دے رہی تھی تو اس وقت آٹا ملوں والے اور دوسرے تاجر انہیں اسی مقدار کے 16 سو سے 18 سو روپے دے رہے تھے'۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ گندم مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوگئ اور آٹے کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا جسے کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے اس سال جولائی میں 29 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں سے چار لاکھ ٹن کی پہلی کھیپ ستمبر میں پاکستان پہنچی جبکہ باقی ماندہ جنس نومبر سے جنوری کے درمیان یہاں پہنچے گی۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ممبر چوہدری شفیق کہتے ہیں کہ درآمد کردہ گندم کی قیمت ملکی گندم سے بہت زیادہ ہے لہٰذا اس سے آٹے کی قیمت نیچے نہیں آئے گی۔ 'جب ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے نجی شعبے کو تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تو عالمی منڈی میں اس کی قیمت 234 ڈالر یا تقریبا ساڑھے 15 سو روپے فی چالیس کلو گرام تھی۔ اب حکومت اور نجی شعبہ 15 لاکھ ٹن مزید گندم درآمد کر رہے ہیں جبکہ اس کی قیمت 292 ڈالر فی 40 کلو گرام -- 18 سو روپے سے زیادہ -- تک پہنچ چکی ہے'۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب اور سندھ میں کھاد کی قلت: کیا ملک میں گندم کا نیا بحران آنے والا ہے؟
محمد شفیق کے مطابق ان قیمتوں میں درآمد کردہ جنس کو کراچی سے اندرونِ ملک پہنچانے اور اس کو ذخیرہ کرنے کے اخراجات شامل نہیں۔ اگر ان اخراجات کو بھی مدِ نظر رکھا جائے تو عام صارفین کو باہر سے آنے والی گندم کا ایک بڑا حصہ – اور نتیجتاً اس گندم کا آٹا بھی -- سرکاری قیمت سے 50 فیصد کے قریب زیادہ قیمت پر دستیاب ہو گا۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے پنجاب ونگ کے سینئر وائس چیئرمین شیخ خالق کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس صورتِ حال کی ذمہ دارِ آٹے کی ملوں پر ڈالتے ہیں 'جو صحیح نہیں'۔ ان کے مطابق یہ ملیں اس سال دوہرے مسئلے میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف تو انہوں کسانوں سے براہِ راست گندم نہیں خریدنے دی گئی جس کی وجہ سے ان کی پیداوار کا انحصار حکومت کی طرف سے فراہم کردہ گندم پر ہے جبکہ دوسری طرف جیسے جیسے حکومتی ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اِن ملوں کو نجی شعبے سے گندم خریدنا پڑ رہی ہے جس کی قیمتیں پہلے ہی سرکاری قیمت سے لگ بھگ چالیس فیصد زیادہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'حکومت روزانہ 19 ہزار ٹن گندم پنجاب کی فلور ملز کو دے رہی ہے جبکہ صوبے میں کام کرنے والی تمام ملوں کی مجموعی روزانہ ضرورت 30 ہزار ٹن ہے۔ سپلائی اور ڈیمانڈ میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ملیں بیرون ملک سے درآمد کی گئی گندم 2000 روپے فی چالیس کلو گرام سے لیکر 2300 روپے فی چالیس کلو گرام کی قیمت پر خرید رہی ہیں۔ اس گندم سے جو آٹا بنتا ہے وہ ظاہر ہے مہنگا ہی ہو گا'-
مہنگے آٹے کا اثر پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ ہر روز اتنی بار محسوس کرتے ہیں جتنی بار وہ روٹی، نان یا ڈبل روٹی خریدتے ہیں۔ متحدہ نان روٹی ایسوسی ایشن لاہور کے صدر آفتاب گل کہتے ہیں کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک آٹے کی قیمت میں 25 روپے سے 30 روپے فی کلو گرام اضافہ ہوا ہے جس سے ایک روٹی کی قیمت آٹھ روپے اور ایک نان کی قیمت 15 روپے ہو گئی ہے۔ 'اگر آٹا مزید مہنگا ہو گا تو ہمیں یہ قیمتیں پھر بڑھانا پڑیں گی۔ بصورتِ دیگر ہم خود خسارے میں ہوں گے'۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں نعیم احمد نے فیصل آباد سے معاونت کی ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 31 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2022