شانگلہ کے سکول ٹیچر فدا حسین کی مِنی جیپ میں آئے روز مرمت کا کوئی نہ کوئی کام نکل آتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اکثر پورا دن مکینکوں کی ورکشاپوں میں گزارنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے گھر سے دو کلومیٹر فاصلے پر ایک سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ ان کی گاڑی میں نہیں بلکہ اس کچی سڑک کا ہے جسے پختہ کرنے کا کام پچھلے تین سال سے معطل پڑا ہے۔
خیبر پختونخوا کا ضلع شانگلہ مالاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام سیدُو شریف سے 41 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ فدا حسین اس کی تحصیل الپوری کے ملا بابا باسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہ سڑک اس گاؤں کے باسیوں کو ان کے دفاتر، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے جو معمولی سی بارش میں بھی آمدورفت کے قابل نہیں رہتی۔
ہنگامی حالات میں فدا حسین اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑک کو وقتی طور پر اس قابل بنا دیتے ہیں کہ گاڑیاں اس پر سے گزر سکیں۔ چند برس پہلے جب حکومت نے اس سڑک کو پختہ کرنے کا اعلان کیا تو انہیں امید ہوئی اب اس گاؤں کا یہ پرانا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن یہ امید تاحال بر نہیں آئی۔
صوبائی حکومت نے مالی سال 20-2019 کے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں اس سڑک کی تعمیر کے لئے 39 لاکھ روپے منظور کئے تھے جس کے بعد اس کا ٹینڈر جاری ہوا جو ایک ٹھیکے دار نے حکومت کی جانب سے طے کردہ رقم سے 30 فیصد کم بولی دے کر حاصل کیا تھا۔
اب اس بات کو تین سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن سڑک پر کام شروع نہیں ہو سکا۔ متعلقہ محکمے نے ٹھیکے دار کو کئی مرتبہ وارننگ بھی دی لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بالآخر الپوری کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نے 12 نومبر 2022ء کو اس منصوبے سمیت 77 چھوٹی ترقیاتی سکیموں کے ٹینڈر منسوخ کر دئیے۔ اسی طرح شانگلہ کی دوسری تحصیل بشام میں 33 منصوبوں کو منسوخ کیا گیا۔
صوبائی حکومت نے 2019ء سے 2022ء تک ان دونوں تحصیلوں میں کچی اور پکی سڑکوں کی تعمیر، پانی کی فراہمی، حفاظتی پُشتے قائم کرنے، سولر لائٹس کی تنصیب، پانی کے بور اور لکڑی کے پل بنانے کے لیے بالترتیب 700 اور 486 منصوبوں کے ٹینڈر منظور کئے تھے۔ ان چھوٹے منصوبوں کی لاگت پانچ لاکھ سے 50 لاکھ روپے تک تھی جن میں سے بیشتر کے لئے 50 فیصد سے زیادہ فنڈ بھی جاری ہو چکے ہیں۔
ایڈوانس ہڑپ، ٹھیکیدار غائب
شانگلہ میں 'کس لیلونئی روڈ' کی تعمیر ایسا ہی ایک منصوبہ ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل محمد عارف خان کہتے ہیں کہ ٹھیکے دار نے اس سڑک کی تعمیر کے لئے گزشتہ سال جگہ جگہ بجری اور پتھر ڈالا لیکن سڑک نہ بن سکی۔ ان کے بقول "ہم نے کئی بار احتجاجی مظاہرے کئے اور حکام کو درخواستیں بھی دیں مگر کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔"
بشام کی ولیج کونسل بوٹیال کے کونسلر ضیاء الدین بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں سڑک کو کشادہ کرنے کے منصوبے پر بھی کام نہیں ہوا جبکہ سرکاری کاغذوں میں یہ منصوبہ مکمل ہے۔ ریکارڈ کے مطابق تین درجن کے قریب سکولوں کے منصوبوں میں آدھے بھی مکمل نہیں ہو پائے جبکہ ان پر کام شروع کرنے کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔
محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اکثر منصوبے تاخیر کا شکار نظر آتے ہیں اور بہت کم ایسے ہیں جنہیں مکمل کیا گیا ہے۔ کئی منصوبے محکمے کے ریکارڈ میں مکمل لیکن عملی طور پر نامکمل ہیں۔
شنگ بشام کے سماجی کارکن خلیق الزمان کہتے ہیں کہ مالی سال 20-2019 میں ان کے گاؤں میں دو چھوٹے دیہات کو ملانے والے ایک پل کی تعمیر کے لئے 30 لاکھ روپے کا ٹینڈر منظور ہوا ہے مگر ابھی تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔
بشام کے تحصیل میونسپل آفیسر فراست اعوان کا کہنا ہے کہ "مالی سال 20-2019 کے تقریباً نصف منصوبے مکمل ہو چکے ہیں لیکن بعض ٹھیکے دار بارہا نوٹس دیے جانے اور رابطے کے باوجود کام نہیں کر رہے۔ یہ ٹھیکیدار دو ماہ سے میری ٹیلی فون کالوں کا جواب بھی نہیں دے رہے جبکہ انہیں پیشگی ادائیگی بھی کی جا چکی ہے۔"
جب اس بارے میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن بشام کے انجینئر فرزند علی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جن ٹھیکے داروں نے پیسے لینے کے باوجود کام شروع نہیں کیا ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیں گی اور انہیں بلیک لسٹ کر کے ان کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے جائیں گے۔
تاہم حال ہی میں الپوری کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نے بعض منصوبوں کا دوبارہ ٹینڈر کیا تو اس میں ایسے ٹھیکے داروں نے بھی شرکت کی جو کام ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
الپوری کی تحصیل کونسل کے چیئرمین وقار احمد خان اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹھیکے داروں کو کچھ وقت کے لئے ہی بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے اور اس مدت کے بعد وہ دوبارہ ٹینڈر میں حصہ لینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 24 فروری 2023