عبدالواحد ندھو نصیر واہ کینال کے کنارے گھنی چھاؤں میں سوکھی ٹہنیاں جلا کر بکریوں کے دودھ کی چائے بنارہے ہیں۔ وہ روزانہ دوپہر کو یہاں ندھو موری (پل) کے قریب اپنی بکریاں لا کر بٹھاتے ہیں۔
یہاں بکریوں کے کھانے کو کیکر کے پتے اور پینے کو نہر کا پانی مل جاتا ہے۔ گرمی سے بچنے کے لیے سایہ میسر ہوتا ہے اور چرواہے کو سستانے اور چائے پینے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
ضلع ٹنڈو الہیار کا یہ علاقہ حیدرآباد سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
پینتیس سالہ عبدالواحد نواحی گاؤں مرید ندھو کے رہائشی ہیں۔ پچھلے 15 سال سے نصیر واہ کے بائیں کنارے اپنی بکریاں چرانا ان کا معمول ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ دو نومبر سےچار نومبر تک مسلسل تین/ چار لوگ نہر کنارے درختوں کے حصے (تنے کے اوپر کی موٹی شاخیں) کاٹتے رہے۔
" ندھو موری سے میرپور خاص بائی پاس روڈ تک تقریباً چار کلومیٹر نصیر واہ کے کنارے کیکر، نیم اور شیشم کے سیکڑوں درخت ہیں۔ ان تمام کے بڑے بڑے حصوں کو کاٹنے کے لیے مشین نما آراء استمال کیا جا رہا تھا"۔
ریوڑ پال عبدالواحد کا کہنا ہے کہ ان درختوں کی کانٹ چھانٹ پہلے بھی ہوتی تھی مگر اب کی بار تو آدھے درخت ہی کاٹ لیے گئے۔ پھر یہ لکڑی ٹکڑے کر کے لوڈر رکشوں میں وہاں سے اٹھوائی گئی۔
درختوں کا یہ حشر ہوتا دیکھ کر قریبی گاؤں مانک کالرو کے رہائشی منیر کالرو نے کٹائی کی تصاویر اور وڈیوز مقامی صحافیوں کو بھیج دیں۔ جب یہ خبر مقامی اخبار میں شائع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر ٹنڈو الہیار الطاف گوہر میمن نے نوٹس لے لیا۔
منیر کالرو بتاتے ہیں کہ نصیر واہ کے کنارے سے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں گذرتی۔ یہاں سے جب گاڑیوں نے گذرنا ہی نہیں ہوتا تو درختوں کے اتنے بڑے حصے کاٹنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ درختوں کی تباہی اور سرکار کی درخت دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے محکمہ ریونیو کے اہلکار پٹواری منیر تھیبو کو درختوں کی کٹائی اور موقع دیکھ کر رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ منیر تھیبو نے لوک سجاگ سے بات چیت میں درختوں کی کٹائی کی تصدیق کی ہے۔
" جب میں ندھو موری پہنچا تو دیکھا کہ بیشتر درختوں کے تنے کاٹے گئے تھے۔ بعض درختوں کا تو آدھا حصہ ہی نہیں تھا۔"
وہ بتاتے ہیں کہ وہ پانچ نومبر کی شام موقعے پر پہنچے تو لکڑی وہاں سے اٹھائی جا چکی تھی اور تھوڑی بہت شاخیں وہاں موجود تھیں۔ انہوں نے درختوں کے کٹے ہوئے آدھے حصوں کی تصاویر اور وڈیوز بنا کر اپنے مختار کار کو بھیج دی۔
ڈپٹی کمشنر الطاف گوہر میمن بتاتے ہیں کہ محکمہ ریونیو کو ملنے والے شواہد کی روشنی میں درختوں کی کٹائی کے معاملہ پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ تاہم فی الحال میڈیا کو کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔
درختوں کی کانٹ چھانٹ اور صفائی کا طریقہ کار
سوشل فاریسٹری کی رینج افسر شفق انور راجپوت کے پاس سب ڈویزنل فاریسٹ افسر کا چارج ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ نومبر اور دسمبر میں ہر سال درختوں کی ٹرمنگ اور پروننگ (کانٹ چھانٹ اور صفائی) ہوتی ہے۔ اس وقت محکمہ نصیر کینال، غریب شاخ(نہر) کے ندھو موری والے علاقے میں درختوں کی کانٹ چھانٹ اور صفائی کا کام کرا رہا ہے۔
"درختوں کی کانٹ چھانٹ کے لیے مقامی ریوڑ پال اور چرواہے میرے پاس آتے ہیں اور اس کام کی اجازت مانگتے ہیں۔ یہ لوگ طے شدہ رقم محکمے کو دیتے ہیں اور شاخیں بکریوں کا چارہ بن جاتی ہیں۔ رواں سال ٹنڈو الہیار میں محکمہ جنگلات کو صرف ایک ڈیمانڈ ڈرافٹ ملا جو سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرا دیا گیا ہے"۔
لوک سجاگ کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق محکمہ جنگلات کے پاس جمع ہونے والا 30 ہزار کا ڈرافٹ ارسلان جٹ نامی ٹھیکیدار نے بنوایا تھا۔ انہوں نے یہ ڈرافٹ اپنے بڑے بھائی عرفان جٹ کے نام پر بینک الاسلامی سے 27 ستمبر 2023ء کو بنوایا اور اسی روز ہی محکمہ جنگلات ٹنڈو الہیار کے دفتر میں جمع کرایا گیا تھا۔
ارسلان ولد عبدالخالق جٹ کے نام دو نومبر 2023ء کو ایس ڈی او شفق انور راجپوت کے دستخط سے ورک آرڈر جاری کیا گیا تھا جس کے تحت انہیں نصیر کینال اولڈ سائیڈ ندھو موری سے درختوں کی کانٹ چھانٹ اور صفائی کا کام سونپا گیا ہے۔
ورک آرڈر میں لکھا گیا ہے کہ درختوں کی بہتری اور افزائش کے لیے کانٹ چھانٹ کی جائے گی۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ درختوں کے آدھے آدھےحصے کاٹ کر لکڑی بیچ دی گئی ہے۔
ٹھیکیدار ارسلان جٹ اعتراف کرتے ہیں کہ کانٹ چھانٹ سے حاصل ہو نے والی لکڑی انہوں نے ٖفروخت کر دی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے ندھو موری سے اولڈ نصیر کینال تک ساڑھے تین کلومیٹر میں کھڑے درختوں کی کانٹ چھانٹ ٹھیکہ لیا تھا۔
"کٹائی چھٹائی سے حاصل ہونے والی لکڑی ٹھیکدار کی ہی ہوتی ہے"۔
ٹھیکیدار ارسلان یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھیڑ بکریاں نہیں ہیں اور وہ لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ درختوں کی صفائی کے لیے مزدوروں نے کٹائی والی مشینیں استعمال کیں۔
"میرے بھائی عرفان کو پتہ ہو گا کہ انہوں نے ٹھیکہ کتنے میں لیا تھا اور لکڑی کتنے میں فروخت کی ہے۔" تاہم عرفان جٹ نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام تفصیل محکمہ جنگلات کے دفتر میں موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں
رحیم یار خان کے جنگلات میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی: محافظ ہی جاں کے دشمن بن گئے
ٹنڈو الہیار کے نواحی علاقہ قلعہ کے رہائشی زین خانزادہ بتاتے ہیں کہ اکتوبر میں نصیر کینال پر پل کے قریب محکمہ جنگلات کی نرسری میں کھڑے پیپل کے درخت کٹوا دیے گئے تھے۔ جب معاملہ محکمہ جنگلات حکام کے نوٹس میں آیا تو اہلکاروں نے اوپر سے گزرنے والے تاروں کو جواز بنایا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ چمبڑ روڈ بھٹا سٹاپ کے قریب 'غریب شاخ' کے کنارے کانٹ چھانٹ کے نام پر کیکر کے درختوں کے آدھے آدھے حصے کاٹ لیے گئے تھے۔
جنگلات افسر کے ملوث ہونے کی تحقیقات
یہ سارے معاملات ںوٹس میں آنے پر سیکریٹری جنگلات سندھ نجم احمد شاہ نے 23 نومبر 2023 ء کو ٹنڈوالہیار میں نصیر کینال اور دیگر مقامات پر درختوں کی کٹائی میں سب ڈویژنل فاریسٹ افسر شفق راجپوت کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
کنزرویٹر جنگلات حیدرآباد عارف علی ڈومکی کی سر براہی میں تین رکنی کمیٹی درختوں کی کٹائی کے عمل کی انکوائری کرے گی اور 15 دن میں تحقیقاتی رپورٹ سیکریٹری کو جمع کرائے گی۔
صوفی جان محمد، چمبڑ روڈ پر لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نومبر سے جنوری تک تین ماہ ان کے پاس لکڑی زیادہ آتی ہے۔ اس میں بیشتر کیکر اور ببول (دیوی) کی لکڑی ہوتی ہے۔ نیم، پیپل، آم، سفیدے اور کبھی کبھی شیشم کی لکڑی بھی فروخت کے لیے لائی جاتی ہے۔
"ہم فروخت کرنے والے سے یہ نہیں پوچھتے کہ آپ لکڑی کہاں سے لے کر آئے ہیں۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے ہم خریداری کرتے ہیں اور مارکیٹ ریٹ پر ادائیگی کر دیتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ نومبر کے پہلے ہفتے تک انہوں نے کیکر کی لکڑی 470 روپے من، نیم 350 روپے جبکہ پیپل اور شیشم کی لکڑی 300 روپے من میں خریدی ہے۔ وہ یہ لکڑی فروخت کے لیے کراچی اور پورٹ قاسم بھیجتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 28 نومبر 2023