لیہ میں سرکاری اراضی کی بندر بانٹ: 'انتظامی اہل کار اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے منظور نظر افراد کو زمینیں الاٹ کر رہے ہیں'۔

postImg

فرید اللہ

postImg

لیہ میں سرکاری اراضی کی بندر بانٹ: 'انتظامی اہل کار اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے منظور نظر افراد کو زمینیں الاٹ کر رہے ہیں'۔

فرید اللہ

اِس سال 15 مارچ کو محمد اشفاق سیال نے 47 کنال 12 مرلے سرکاری زمین تین افراد کو الاٹ کر دی حالانکہ وہ ایسا کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ یہ زمین پنجاب کے مغربی شہر لیہ کے نواح میں ڈسٹرکٹ جیل کے قریب واقع گاؤں سمرا تھل جنڈی کا حصہ ہے اور اس کی کم از کم موجودہ قیمت 47 کروڑ 76 لاکھ روپے ہے۔ 

اس الاٹمنٹ کے وقت محمد اشفاق سیال ضلع لیہ میں صوبائی محکمہ مال کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن ضلعی انتظامیہ کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ زمین کسی کو دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے یہ اہل کار کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے قواعدوضوابط کے مطابق کسی بھی شہر کے اردگرد پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع سرکاری زمین کسی کو الاٹ کرنے کے لیے محکمہ مال کے ادارے، پنجاب بورڈ آف ریونیو، کے ممبر کی اجازت لینا ضروری ہوتا ہے جو اس معاملے میں مبینہ طور پر نہیں لی گئی۔ 

اسی لیے 15 مئی 2022 کو ڈیرہ غازی خان ڈویژن (جس میں لیہ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور مظفرگڑھ کے اضلاع شامل ہیں) کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے ایک حکمِ امتناعی جاری کر کے اس الاٹمنٹ پر عمل درآمد روک دیا۔ انہوں نے اس معاملے میں اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال کے بارے میں سماعت بھی شروع کر رکھی ہے جو تاحال جاری ہے۔ 

تاہم لیہ کے رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ الاٹمنٹ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ہر سال ہی اس ضلعے میں ایک آدھ ایسا واقعہ ضرور سامنے آتا ہے جس میں مقامی انتظامیہ کے اہل کار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے سرکاری زمین اپنے منظورِنظر لوگوں کو الاٹ کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مقامی صحرا تھل میں 1950 کی دہائی سے جاری زمینوں کی ملکیت میں تبدیلی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر ایسے افراد کے قبضے میں چلی گئی ہے جو قانون کی رو سے اس کی الاٹمنٹ کے اہل نہیں تھے۔ 

مال مفت دلِ بے رحم

سندھ دوآب پیکٹ ہندوستان کی برطانوی حکومت اور میانوالی، بھکر، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع میں پائے جانے والے صحرائے تھل کے زمینداروں کے مابین 1937 میں طے پانے والا ایک معاہدہ تھا۔ اس کا بنیادی مقصد زراعت کو فروغ دینے کے لیے صحرائی زمینوں کو نہری پانی کی فراہمی تھا جس کے بدلے میں زمینداروں کو اپنی اراضی کا کچھ حصہ حکومت کو دینا تھا تاکہ اس پر نہریں بنائی جا سکیں۔

لیکن دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا اور اس مقصد کے لیے 1949 میں تھل ڈویلپمنٹ ایکٹ نامی قانون منظور کر کے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے) کا ادارہ بنایا۔ پنجاب ریونیو بورڈ کے ماتحت کام کرنے والے اس ادارے کے ذمے زمینداروں سے اراضی لینے کا کام لگایا گیا جو اس نے 1950 اور 1954 کے درمیان انجام دیا۔ 

لیہ میں کام کرنے والے وکیل اور تھل ڈویلپمنٹ ایکٹ سے متعلقہ قانونی امور کے ماہر عبدالحمید بھٹہ کہتے ہیں کہ سرکاری قواعدوضوابط کے مطابق ساڑھے 12 ایکڑ سے زیادہ اراضی کے مالکان سے ان کی ایک چوتھائی زمین لی جانا تھی جبکہ 25 ایکڑ سے زیادہ اراضی کے مالکان کو اپنی نصف زمین تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کرنا تھی۔ تاہم اس عمل کے دوران بہت سے زمینداروں نے شکایت کی کہ حکومت نے اپنے ہی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان سے مقررہ حد سے زیادہ زمین لے لی ہے۔

ایک مقامی زمین دار شاہ عالم بودلہ اور ان کے متعدد دیگر ساتھیوں نے اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا جس نے 1973 میں ان کی درخواست پر فیصلہ دیا کہ ان سے مقررہ حد سے زیادہ لی گئی زمین انہیں واپس کی جائے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت نے اپنی ملکیت میں موجود ہزاروں ایکڑ اراضی مقامی زمین داروں کو واپس الاٹ کرنا شروع کی۔ 

تاہم پنجاب اسمبلی کے رکن اور لیہ کے زمیندار اعجاز احمد اچلانہ کہتے ہیں کہ واپسی کے اس عمل کے آغاز سے ہی ایسی شکایات سامنے آنا شروع ہو گئیں کہ محکمہ مال اور تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہل کار رشوت لے کر کچھ زمین داروں کو ان کے اصل حصے سے کہیں زیادہ زمین الاٹ کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مقصد کے لیے مقامی "ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں موجود ریکارڈ میں ردوبدل کیا گیا اور اصل فائلوں کے ساتھ جعلی دستاویزات لگا کر کئی زمین داروں کو اضافی اراضی واپس کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا"۔ مثال کے طور پر "اگر کسی شخص کو 70 کنال اراضی واپس لوٹائی جانا تھی تو اس نے سرکاری عملے سے ملی بھگت کر کے کاغذات پر 70 کنال کے بجائے ایک سو 70 کنال لکھوا لیا"۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ "کچھ لوگوں نے تو جعل سازی سے 70 کے ساتھ ایک صفر کا اضافہ کر کے سات سو کنال اراضی الاٹ کرا لی"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ: متنازعہ زمین کو عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے کیسے نیلام کیا جا رہا ہے۔

عبدالرزاق نامی ایک مقامی شہری نے پانچ سال قبل اس وقت کے لیہ کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسر رانا گلزار احمد کے سامنے اس سلسلے میں ایک باقاعدہ شکایت بھی درج کرائی۔ رانا گلزار احمد نے اس شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ایک آٹھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے محافظ خانے میں رکھی ہوئی تین سو 77 فائلوں میں جعل سازی کی گئی تھی۔ کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمین داروں سے نہروں کی تعمیر کے لیے لی گئی اضافی زمین اس جعل سازی کے ذریعے غیر متعلقہ لوگوں کو الاٹ کر دی گئی تھی۔ 

ان تحقیقات میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ لیہ کے سابق ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو غلام اکبر کچھی اور چوبارہ میں تعینات رہنے والے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو محمد شفیق بخاری اس جعل سازی میں ملوث تھے۔ تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان دونوں کے خلاف تحقیقات کرنے کے بعد انہیں اس الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔

حالیہ سالوں میں چند دیگر شہریوں نے بھی سرکاری زمین کی الاٹمنٹ میں کی گئی جعل سازی کے بارے میں ڈپٹی کمشنر کو متعدد درخواستیں دی ہیں جن پر کارروائی کرتے ہوئے فروری 2021 سے لے کر دسمبر 2021 تک ضلعی انتظامیہ نے دو مختلف فیصلے دیے ہیں۔ مقامی سرکاری حکام کے مطابق ان فیصلوں کے تحت بالترتیب ڈیڑھ ارب روپے مالیت کی پانچ ہزار پانچ سو کنال اور 10 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی آٹھ ہزار دو سو کنال اراضی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ 

اسی طرح ڈپٹی کمشنر لیہ کے دفتر میں متعین ایک سینئر اہل کار مہر عزیز کا کہنا ہے کہ اس وقت ان تمام تین سو 77 فائلوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے جن میں ردوبدل کیا گیا تھا تاکہ جعل سازی سے الاٹ کی گئی زمین کو "مرحلہ وار واپس لیا جا سکے"۔

تاہم عدالحمید بھٹہ کا کہنا ہے کہ چھ اضلاع میں پھیلے ہوئے صحرائے تھل میں مجموعی طور پر "کئی لاکھ ایکڑ سرکاری اراضی پر لوگوں نے غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے"۔ اس لیے، ان کے مطابق، پچھلے کچھ سالوں میں ایسے قابضین سے واپس لی جانے والی اراضی جعل سازی کے ذریعے الاٹ کی گئی کل اراضی کا ایک "بہت چھوٹا حصہ ہے"۔

تاریخ اشاعت 29 اکتوبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.