جون 2022 کی ایک گرم دوپہر 65 سالہ محمد اجمل دریائے سِرن کے کنارے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں کہ کب دھوپ کم ہو اور وہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال پانی میں پھینکیں۔
لیکن انہیں خدشہ ہے کہیں انہیں خالی ہاتھ گھر نہ لوٹنا پڑے کیونکہ دریا میں مچھلیاں اس قدر کم رہ گئی ہیں کہ کئی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد چند ایک ہی جال میں پھنستی ہیں۔ وہ 16 سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ "شروع میں مجھے ایک گھنٹے میں چار سے پانچ کلو گرام مچھلیاں مل جاتی تھی لیکن اب پورے ہفتے میں بھی اتنی مقدار ہاتھ آجائے تو بڑی بات ہے"۔
وہ خیبرپختونخوا کے شمال مشرقی ضلع مانسہرہ کے سرسبز علاقے بفہ کے رہنے والے ہیں جو مانسہرہ شہر سے 22 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے شروع میں وہ بیشتر مقامی باسیوں کی طرح کھیتوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتے تھے۔ مگر کبھی کبھار اپنی آمدن بڑھانے کے لیے وہ مچھلی پکڑ کر بھی فروخت کر لیا کرتے تھے۔ اس سے آہستہ آہستہ انہیں اتنی آمدن ہونے لگی کہ انہوں نے کھیتی باڑی چھوڑ کر اسے ہی اپنے روزگار کا واحد ذریعہ بنا لیا۔
تاہم پچھلے چند سالوں سے دریا میں مچھلیاں کم ہونے لگی ہیں اس لیے اب وہ دوبارہ کھیتوں میں کام کرنے لگے ہیں۔ البتہ اب بھی جس دن انہیں مزدوری نہ ملے اس دن وہ مچھلیاں پکڑنے دریا پر پہنچ جاتے ہیں۔
انہی کی طرح محمد خالد بھی شاکی ہیں کہ دریائے سِرن میں مچھلیاں کم ہو رہی ہیں۔ وہ پچھلے 15 سال سے شاہراہ ریشم اور ہزارہ ایکسپریس وے کے سنگم پر مچھلیاں فروخت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا کاروبار اچھا نہیں چل رہا۔ ان کے مطابق جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا تو وہ گاہکوں کے سامنے دریا سے مچھلیاں پکڑ کر لے آتے تھے لیکن اب وہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں ایک ایک مچھلی پکڑنے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
مچھلی پکڑنا یا مچھلی مارنا؟
دریائے سِرن مانسہرہ شہر کے شمال میں واقع ایک پہاڑی علاقے سے نکلتا ہے اور ضلع مانسہرہ کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا سواتی مچھلی کے لیے مشہور ہے جسے مقامی لوگ ملھا بھی کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس مچھلی کی تقریباً 64 اقسام موجود ہیں جن میں سے پانچ یہاں پائی جاتی ہیں۔
سواتی مچھلی کی مصنوعی افزائش نہیں کی جا سکتی اس لیے اسے بڑھوتری کے لیے مناسب قدرتی ماحول چاہیے۔ یہ موسمِ گرما میں دریا کے اُن علاقوں میں پائی جاتی ہے جو گلیشیئروں کے قریب واقع ہیں لیکن موسمِ سرما میں یہ بالائی علاقوں کی جانب منتقل ہو جاتی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں دریائے سِرن میں سواتی مچھلی کی مقدار میں 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کمی کا ایک اہم سبب حکومت کی طرف سے اسی دریا میں ٹراؤٹ مچھلی کی مقدار میں اضافہ کرنے کے لیے 2017 میں شروع کیے گئے مصنوعی طریقہ ہائے افزائش ہیں۔ ان کے مطابق ٹراؤٹ ایک گوشت خور مچھلی ہے جو دریا میں موجود چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ چنانچہ ان مصنوعی طریقوں سے جیسے جیسے اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے سواتی مچھلی کی مقدار میں کمی ہوتی جا رہی ہے کیوںکہ ٹراؤٹ اس کے بچے کھا جا تی ہے۔
پچھلے تین سالوں میں مچھلی پکڑنے والے جالوں کی فروخت میں واضح کمی آئی ہے۔
لیکن مانسہرہ میں متعین صوبائی محکمہ ماہی گیری کے ڈپٹی ڈائریکٹر فہیم اختر اس نکتہ نظر سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سواتی مچھلی کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسے پکڑنے کے لیے اختیار کیے جانے والے غیر مناسب اور غیر قانونی طریقے ہیں جن میں سے خطرناک ترین بجلی کے کرنٹ کا استعمال ہے۔
اس طریقے سے مچھلیاں پکڑنے والے لوگ دریا کے کنارے جنریٹر چلا کر ننگی تاروں کے ذریعے پانی میں کرنٹ چھوڑ دیتے ہیں جس سے مچھلیاں تڑپ کر سطحِ آب پر آ جاتی ہیں جہاں سے انہیں پکڑ لیا جاتا ہے۔حالیہ سالوں میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں اس طریقے سے مچھلیاں پکڑنے والے لوگ جنریٹر بند کیے بغیر ہی پانی میں کود گئے اور نتیجتاً اپنی جان سے گئے۔
کچھ لوگ کم وقت میں زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے پانی میں بلیچنگ پاؤڈر بھی ڈالتے ہیں جس سے مچھلیاں ہلاک ہو کر سطحِ آب پر آ جاتی ہیں۔ محمد اجمل کا کہنا ہے کہ سو کلوگرام بلیچنگ پاؤڈر تقریباً ایک کلومیٹر علاقے میں پائی جانے والی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو مار دیتا ہے۔ لیکن چونکہ ان سب کو پکڑا نہیں جا سکتا اس لیے ان میں سے بہت سی گل سڑ کر پانی کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہیں۔
ان سڑی ہوئی مچھلیوں کی وجہ سے دریائے سِرن کا پانی اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ اسے محض ہاتھ لگانے سے جلد کی خرابی کا خدشہ ہوتا ہے حالانکہ 25 سال پہلے یہی پانی پینے اور دیگر گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
دریا کی آلودگی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اس کے کنارے واقع تمام آبادیوں سے نکلنے والا استعمال شدہ گندا پانی بھی اسی میں ڈالا جاتا ہے۔ فہیم اختر کے مطابق "اس پانی میں کئی طرح کے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں جو دریائی پانی کو زہریلا بنا رہے ہیں"۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ "فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار دواؤں میں شامل مضر مادے بھی بارش کے ساتھ بہہ کر دریا کا حصہ بن رہے ہیں"۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس "آلودہ پانی کو دریائی پانی میں شامل ہونے سے روکنے کا نہ تو کوئی انتظام موجود ہے اور نہ ہی یہ انتظام کرنے کے لیے مقامی محکموں کو کوئی مالی وسائل دستیاب ہیں"۔
ان کے مطابق دریائے سِرن پر تعمیر کیے جانے والے 10.2 میگا واٹ کے جبوڑی نامی پن بجلی گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سیمںٹ، تارکول، پینٹ اور مختلف قسم کے تیل بھی اس کے پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور اس میں موجود آبی حیات کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اس منصوبے پر نومبر 2014 میں کام شروع ہوا تھا اور اسے 2021 میں مکمل ہونا تھا لیکن اس کی تعمیر ابھی بھی جاری ہے۔
ہار کر بیٹھ گئے جال بنانے والے
شاہراہِ ریشم کے راستے بفہ میں داخل ہوں تو مقامی جامع مسجد کے قریب سڑک کے دونوں اطراف بنی دکانوں کے سامنے مچھلی پکڑنے کے جال لٹکے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک دکان میں 60 سالہ محمد پرویز بیٹھے جال بن رہے ہیں۔ وہ پچھلے 35 سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا کاروبار روز بروز ماند پڑتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے گلاسگو میں عالمی کانفرنس: 'ان مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا'۔
جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا تو، ان کے مطابق، ان کے پاس اتنے گاہک آتے تھے کہ مہینے میں دو جال بُننے کے باوجود وہ ان کی مانگ پوری نہیں کر پاتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں سے یہ طلب اتنی کم ہو گئی ہے کہ اب وہ پورے سال میں زیادہ سے زیادہ 10 جال ہی فروخت کر پاتے ہیں۔
محمد اجمل کی نظر میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بجلی کے کرنٹ اور بلیچنگ پاؤڈر کا استعمال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر تمام لوگ صرف جال کا ہی استعمال کریں تو دریا میں ابھی بھی سب کے لیے کافی مچھلی موجود ہے"۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت غیر مناسب اور غیر قانونی طریقوں سے مچھلیاں پکڑنے والے لوگوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دے۔
تاہم فہیم اختر کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے کے پاس ان طریقوں کے تدارک کے لیے وسائل اور عملے دونوں کی کمی ہے۔ ان کے مطابق پورے ضلع مانسہرہ میں دریا کی نگرانی کے لیے "صرف 16 اہلکار ہیں جو بالکل کافی نہیں"۔
اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے نے کرنٹ اور بلیچنگ پاؤڈر کا استعمال کرنے والے متعدد افراد کو پکڑ کر جرمانہ بھی کیا ہے۔ لیکن یہ جرمانہ "زیادہ سے زیادہ 25 ہزار روپے ہوتا ہے چنانچہ پکڑے جانے والے لوگ اس کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے"۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو موثر طور پر روکنے کے لیے "انہیں قید کی سزا دینا ضروری ہے"۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے متعلقہ قوانین میں تبدیلی لانا پڑے گی جس کا اختیار ان کے پاس نہیں بلکہ صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کو حاصل ہے۔
تاریخ اشاعت 1 اگست 2022