کراچی کے علاقے رشید آباد کے 26 سالہ ٹرانس جینڈر چاندی ایچ آئی وی میں مبتلا تھیں۔ ایک دن سڑک پار کرتے وقت ایک رکشہ ان سے آ ٹکرایا جس سے ان کی دائیں ٹانگ زخمی ہو گئی۔ ان کی ساتھی نصیبو نے انہیں سول ہسپتال پہنچایا جہاں طبی عملے نے ہاتھوں پر دستانے چڑھائے بغیر ان کا زخم صاف کرنا شروع کر دیا۔
اس موقع پر نصیبو نے عملے سے کہا کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ زخمی مریض ایچ آئی وی پازیٹو ہے۔
یہ سن کر معالجین نے مرہم پٹی روک دی اور انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا۔
نصیبو کے مطابق ہسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں کہا کہ ان کے پاس ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کے علاج کا انتظام نہیں ہے۔
نصیبو نے چاندی کے علاج کے لئے منت سماجت کی مگر ہسپتال کا عملہ انکار پر قائم رہا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مددگار ادارے جینڈر انٹر ایکٹو الائنس (جی آئی ای) سے رجوع کیا۔
جینڈر انٹر ایکٹو الائنس (جی آئی ای) ٹرانس جینڈر افراد کے رہن سہن میں بہتری لانے اور انہیں طبی سہولیات مہیا کرانے کے لئے کام کرتا ہے۔
شہزادی رائے اور سرخ حنا بلوچ اس ادارے کی سپروائزر ہیں۔ان دونوں نے ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر نعیم سے رابطہ کیا۔
اس دوران نصیبو اپنے گھر میں ہی چاندی کی مرہم پٹی کرتی رہیں۔
چند روز کے بعد نصیبو کو فون پر بتایا گیا کہ ڈاکٹر نعیم نے ان کی زخمی ساتھی کے علاج کا انتظام کیا ہے۔ وہ چاندی کو لے کر بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچیں تو عملے نے انہیں پانچ ہزار روپے دیے اور کہا کہ وہ کسی نجی کلینک سے ان کی مرہم پٹی کروا لیں۔
بروقت بہتر مرہم پٹی نہ ہونے کی وجہ سے چاندی کا زخم خراب ہو چکا تھا اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں۔
ان حالات میں نصیبو نے ان کے زخم کی ویڈیو بنا کر بدین میں ان کے اہلخانہ کو اطلاع دی جو انہیں اپنے ساتھ لے گئے اور چند روز کے بعد چاندی کا انتقال ہو گیا۔
لوک سجاگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چاندی کے علاوہ ایچ آئی وی میں مبتلا مزید تین ٹرانس جینڈر افراد کو بھی انہی حالات کا سامنا کرنا پڑا جب سول ہسپتال کے ڈاکٹروں اور عملے نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔
چاندی کے ساتھ پیش آئے واقعے کے بعد حنا بلوچ اور شہزادی رائے نے ہسپتال کے خلاف اپنی وکیل سارہ ملکانی کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اس مقدمے کی پہلی ہی سماعت پر جسٹس یوسف علی سید نے مختصر حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں متاثرین کا اسی دن علاج شروع کیا جائے۔
عدالتی حکم کے بعد سول ہسپتال کی طرف سے ڈاکٹر ہریش کمار کو ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کے علاج کے معاملات دیکھنے کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔
ہائی کورٹ کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ سندھ حکومت صوبے میں ٹرانس جیندڑ افراد کے علاج معالجے کے معاملات اور ان کی طبی ضرورتوں کے حوالے سے اگست 2023ء میں رکھی گئی اگلی سماعت پر اپنی پالیسی سے آگاہ کرے۔
شہزادی رائے اور سرخ حنا کہتی ہیں کہ چاندی کے کیس نے انہیں عدالت جانے پر مجبور کیا کیونکہ ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ دیگر جگہوں کے علاوہ ہسپتالوں میں بھی امتیازی رویہ برتا جاتا ہے۔
شہزادی رائے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ہی 500 سے زیادہ ٹرانس جینڈر ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ ان کے بقول سندھ بھر میں اس بیماری کے مجموعی مریضوں کی تعداد 85 ہزار سے زیادہ ہے۔
"سرکاری ہسپتالوں میں ایچ آئی وی پازیٹو ٹرانس جینڈر افراد کو ہلکے بخار اور کھانسی جیسے طبی مسائل کا علاج تو مل جاتا ہے لیکن جب ان میں سے کسی کو آپریشن کی ضرورت ہو، یا اس نےمرہم پٹی کروانا ہو تو ڈاکٹر اور دیگر عملہ پیچھے ہٹ جاتا ہے"۔
کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام سے منسوب سول ہپستال کراچی کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر گریس کمار مہیشوری اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایچ آئی وی پازیٹو افراد پچھلے 30 سال سے یہاں علاج کرا رہے ہیں۔
یہ بھی پرھیں
خبردار! یہ مردہ ٹرانس جینڈر ہے، اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا!
"ٹرانس جینڈر افراد نے جن واقعات پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا وہ سول ہستپال کے کیسز نہیں تھے۔ ان میں سے ایک فرد گردوں کے مرض میں مبتلا تھا جو سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کا کیس ہے اور ایک کیس گھٹنے کی تبدیلی کا تھا جو براہ راست سول ہسپتال کا کیس نہیں ہے"۔
اس معاملے پر عدالتی کارروائی کے بارے میں جب ان سے مزید سوالات کئے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سندھ ہائے کورٹ کا حکم نامہ نہیں پڑھا اور جب وہ پڑھ لیں گے تو تبھی اس پر کوئی تبصرہ کر سکیں گے۔
صوبہ سندھ میں متعدی بیماریوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے سی ڈی سی کے سربراہ ڈاکٹر نعیم کے مطابق سندھ میں ایچ آئی وی پازیٹو رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 21 ہزار 311 ہے جن میں 15 سال سے زیادہ عمر والے ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 669 ہے۔ جب ان سے ٹرانس جینڈر افراد کی جانب سے علاج معالجے میں کوتاہی برتنے کی شکایات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔
تاریخ اشاعت 10 جولائی 2023