راجیش کمار سوچی کے بھائی دلیپ کمار کا انتقال ہوا تو وہ ان کی استھی (راکھ) کو کوٹری کے مقام پر دریائے سندھ میں بہانے لے آئے۔ لیکن دریا پر پہنچ کر ان کا دل ٹوٹ گیا کیونکہ اس میں پانی نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ کچھ دیر دریا کے پیٹ میں جوہڑ کی شکل میں کھڑے پانی کو تکتے رہے اور پھر پیتل کے لوٹے میں جمع راکھ کو اسی پانی میں ڈال کر بوجھل قدموں سے واپس لوٹ گئے۔
راجیش سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے علاقے سرے گھاٹ کے رہائشی ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی استھی کو دریائے گنگا میں بہانے کے لیے بھارت لے جاتے۔ لیکن استطاعت نہ ہونے کے باعث سندھ کے بہت سے ہندوؤں کی طرح دریائے سندھ ہی ان کے لیے گنگا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب دریا میں پانی نہیں ہوتا تو ہندو برادری کے بہت سے لوگوں کو راجیش ہی کی طرح مایوسی ہوتی ہے۔
ہندو مذہب کے ماننے والوں کی آخری رسومات چار طریقوں سے ادا کی جاتی ہیں جن میں لاش کو آگ میں جلانا، زمین میں دفن کرنا، پانی میں بہانا یا جنگل میں چھوڑ دینا شامل ہیں۔ برصغیر میں تاریخ کے مختلف ادوار میں ہندو آخری رسومات کے لیے انہی میں سے مختلف طریقے اختیار کرتے چلے آئے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے ہندو اپنے عزیزوں کے انتقال کے بعد عموماً ان کی لاش کو جلاتے ہیں یا زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں ہندو برادری کی اکثریت سندھ میں آباد ہے۔ جب ان میں کوئی فرد انتقال کر جاتا ہے تو اس کی میت کو جلانے کے بعد حاصل ہونے والی کچھ راکھ پیتل کے لوٹے میں ڈال کر اس پر سفید یا سرخ کپڑا باندھ کر محفوظ کر لی جاتی ہے۔ یہ لوگ اس لوٹے کو کسی مندر یا کسی مقدس مقام پر رکھ دیتے ہیں جسے مناسب دن اور وقت پر دریائے سندھ میں بہا دیا جاتا ہے۔
ہندو برادری میں جن لوگوں کے پاس ذرائع اور وسائل ہیں وہ اپنے عزیزوں کی راکھ بھارت لے جاتے یا بھجوا دیتے ہیں جسے وہاں اتراکھںڈ ریاست کے شہر ہریدوار میں دریائے گنگا میں بہا دیا جاتا ہے۔ ہریدوار ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
جو لوگ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ سندھ میں ہی تین مقامات میں سے کسی ایک پر اپنے عزیزوں کی استھیاں بہاتے ہیں۔ ان میں کوٹری کا شو مندر، سکھر کے قریب دریائے سندھ کے جزیرے سادھ بیلو کا مندر اور تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر کےقریب پہاڑوں میں واقع ساردھرو دھام مندر شامل ہیں۔ موخرالذکر جگہ دریائے سندھ کے کنارے نہیں ہے۔ یہاں ہندو برادری مندر کے قریب سے گزرنے والی پہاڑی ندی کے پانی میں استھیاں بہاتی ہے۔
ہندو مذہب کے ماننے والوں کی آخری رسومات چار طریقوں سے ادا کی جاتی ہیں
سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کا کوٹری کے شو مندر کے ساتھ پرانا تعلق ہے۔
جب یہ لوگ اپنے عزیزوں کی استھیاں لے کر یہاں آتے ہیں تو مندر کے شیوا دھاری یعنی بڑے پجاری انتقال کر جانے والے کا کریا کرم (مخصوص مذہبی رسم) کرتے ہیں۔ اس کے بعد متوفی کے لواحقین ایک خاص پوجا/عبادت کے بعد استھیوں کو دریا کی لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
2006 میں جب کھوکھرا پار بارڈر کھول کر تھر ایکسپریس ٹرین چلائی گئی تو سندھ کے ہندووں کے لیے بھارت آنا جانا آسان ہو گیا۔
اس دوران ہندو برادری کی بڑی تعداد بھارت میں اپنے مقدس مذہبی مقام ہریدوار گئی اور وہاں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ اپنے عزیزوں کی استھیاں بھی دریائے گنگا میں بہائیں جو وہ پاکستان سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
ذات پات اور حالات کے قیدی: وسطی پنجاب میں رہنے والے ہندوؤں کی زندگی مسلسل دباؤ میں۔
تاہم اب بہت سے ہندو وسائل ہونے کے باوجود اپنے عزیزوں کی استھیاں بھارت نہیں لے جا سکتے کیونکہ یہ ٹرین بند ہو چکی ہے اور سیاسی مسائل کی وجہ سے اب بھارت کا ویزا ملنا آسان نہیں رہا۔ اگر ہندوؤں کو بھارت کا ویزا مل بھی جائے تو پہلے انہیں طویل سفر کر کے لاہور کے واہگہ بارڈر پر آنا پڑتا ہے جہاں سے وہ بس کے ذریعے بھارت جاتے ہیں۔ اس سفر پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں اس لیے بیشتر لوگ استھیاں بہانے کے لیے دریائے سندھ کا انتخاب کرتے ہیں۔
کوٹری میں واقع تاریخی شو مہادیو مندر کے پجاری مہاراج ہیرا لال بتاتے ہیں کہ اس جگہ بہت سے زائرین آتے ہیں جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے عزیزوں کی استھی کو پانی میں بہانا چاہتے ہیں۔ جب پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو وہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کے بیچ میں جاتے ہیں اور یہ راکھ پانی میں ڈال دیتے ہیں۔
آج کل دریائے سندھ میں کوٹری بیراج سے نیچے پانی کی مقدار بہت کم ہے اور جو پانی ہے وہ دریا کے بیچوں بیچ چھوٹے تالابوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔
تاریخ اشاعت 9 فروری 2023