خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع ضلع شانگلہ کے ضلعی پولیس آفیسر سجاد احمد صاحبزادہ نے دو فروری کو ایک حکم نامہ (آرڈرنمبر 237) جاری کرتے ہوئے 270 خواتین ہیلتھ ورکرز کو جنرل الیکشن میں سکیورٹی یعنی پولیس کانسٹیبل کے فرائض سونپ دیے ہیں۔
آٹھ ماہ سے تنخواہوں کی بندش سے پریشان خواتین ہیلتھ ورکرز اس انوکھے حکم نامے پر حیران ہیں کیونکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جاب ڈسکرپشن میں اُن کی اپنے محلے کے مخصوص گھروں کی خواتین اور بچوں کی ہیلتھ کیئر کی ڈیوٹی ہے۔ ڈی پی او کےحکم نامے میں متعلقہ علاقوں سے دور پہاڑی پولنگ سٹیشن میں ان کی ڈیوٹیاں لگا دی گئیں ہیں لیکن کہیں بھی ان کے معاوضے، سہولیات، ٹرانسپورٹ کا ذکر نہیں ہے۔
ضلع شانگلہ سمیت خیبر پختونخوا کی اکثر لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں گزشتہ آٹھ ماہ سے بند ہیں اور اپنے کام کے دوران وہ سٹیشنری کے اخراجات بھی جیب سے ادا کر رہی ہیں۔
بشام سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیلتھ ورکر ایلزیبتھ کی ڈیوٹی علی جان کپرائی میں لگا دی گئی ہے، وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ نام ہی پہلی دفعہ سنا ہے، یہ کسی دوسری تحصیل میں آتا ہے، جس کے لیے کئی گھنٹے پیدل راستہ ہے اور چکیسر کی طرف سے گاڑی میں جانا پڑتا ہے جو ان کے لیے ناممکن ہے۔
"میرے بچے بہت چھوٹے ہیں، انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے پہاڑی علاقے میں جا کر رات گزارنا پریشانی کا باعث بنے گا، پھر تنخواہ تو مل نہیں رہی، پہلےہی قرضے لے کر گھر کے خرچے چلارہی ہوں، اب اتنی دور جانے کیلئے گاڑی کیسے بک کروں گی۔ 'ہم نے تو یہ سوچ کر یہ ڈیوٹی جوائن کی تھی کہ گھر کے پاس ہے، اب اس طرح کی غیر مناسب ڈیوٹیاں میری جاب ڈسکرپشن پر کہیں بھی نہیں لکھیں"۔
الپوری سے تعلق رکھنے والی ایل ایچ ڈبلیو روایت بی بی کہتی ہیں،"ہم حکومت کی اس طرح کی بدمعاشیوں سے تنگ آ گئے ہیں، اگر ہمارے کیچمنٹ ایریا میں پولنگ آفیسر کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے، اور معاوضہ ملتا ہے تو میں ڈیوٹی کروں گی، بصورت دیگر اس طرح کی ڈیوٹی سے گھر بیٹھنا پسند کروں گی"۔
بشام سے تعلق رکھنے والی ریحانہ بی بی چار چھوٹے بچوں کی ماں ہیں اور 2018ء سے محکمہ صحت کے ساتھ ہیلتھ ورکرز کی پوسٹ پر کام کر رہی ہے، مگر تنخواہوں کی بندش کے باعث اور اُوپر سے آفیسرز کی دھمکیوں سے عاجز آکر وہ جاب چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں،"ہمیں جس ڈیوٹی کیلئے بھرتی کیا گیا تھا اُس کے ساتھ طرح طرح کی کمپین پر ہمیں فری میں بلایا جاتا ہے اور پیسے آفیسر کھا جاتے ہیں، چاہے انسداد ڈینگی ہو، ملیریا ہو، پولیو ہو یا کوئی اور آگاہی مہم تو ہمیں اُس میں مصروف کر دیتے ہیں اور معاوضہ بھی نہیں دیتے بلکہ سٹیشنری کیلئے بھی پیسے قرض لینے پڑتے ہیں"۔
ریحانہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اُن کے تنخواہیں بند ہیں اُس کے باوجود اپنے چھوٹے چھوٹے بچے گھر پر چھوڑ کر ڈیوٹی کرتی ہیں، مگر اب یہ پولیس والی ڈیوٹی وہ کبھی نہیں کریں گی یہ تو اُن کی بے عزتی ہے اور وہ بھی اپنے گاؤں سے چالیس کلومیٹر دور پہاڑ کی چوٹی پر جس کیلئے جانا نا ممکن ہے۔
شاہد خان لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام خیبر پختونخوا کے انفارمیشن سیکرٹری ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس آرڈر کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے کیونکہ یہ بالکل ایل ایچ ڈبلیو ڈیوٹی میں نہیں بلکہ ایک خودساختہ حکم نامہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کام پورا مگر اجرت صرف 10 فیصد: خیبرپختونخوا میں لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر پر نالاں
وہ کہتے ہیں کہ یہ پروگرام اس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا کہ گھریلو خواتین اپنے محلہ کے خواتین اور بچوں کی صحت کی دیکھ بال کریں گی، ان کے لیے ایسے حکم نامے سمجھ سے باہر ہیں، یہ ان کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے۔
شاہد خان کہتے ہیں کہ کوئی بھی ایل ایچ ڈبلیو اس ڈیوٹی کیلئے تیار نہیں، بلکہ سب استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہو گئی ہیں کیونکہ پچھلے آٹھ ماہ سے ان سے بنا تنخواہ کے ڈیوٹی لی جا رہی ہے، ان کی حالت پر ترس کھانے کے بجائے حکام صرف آرڈرز جاری کرتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں ایل ایچ ڈبلیو نے پولنگ آفیسرز کی ڈیوٹی کی اور وہ بھی اپنے ایریا میں جس کا معاوضہ بھی دیا گیا تھا اس دفعہ یہ تو کھلم کھلا بدمعاشی ہے اور پولیس خواتین ایل ایچ ڈبلیوز کو کال کرکے دھمکا رہے ہیں کہ ڈیوٹی کریں اور تھانوں میں آئیں لہذا یہ ہم کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔
پولیس ترجمان عمر رحمٰن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پولیس عملے کی کمی کی وجہ سے زنانہ ہیلتھ ورکرز کو لگایا ہے اور یہ آئی جی خیبر پختونخوا کے آرڈر پر جاری کیا گیا ہے کیونکہ الیکشن کیلئے سکیورٹی ضروری تھی۔
تاریخ اشاعت 5 فروری 2024